ٹیکس کلچر بدلنا پڑ ے گا!
سٹیٹ بینک کے نئے گورنر ڈاکٹر رضا با قر کی تقر ری پر اپو زیشن انتہا ئی نا خوش ہے۔ ڈاکٹر باقر آ ئی ایم ایف میں اعلیٰ عہد ید ار تھے اور اپنی نوکری چھو ڑ کر پاکستان آ ئے ہیں۔ پیپلز پا رٹی کے مطابق آ ئی ایم ایف ایک نئی ایسٹ انڈ یا کمپنی کی شکل ہے اور اس نے اپنے بند ے پاکستان میں لگا دیئے ہیں اور ایسا ہی ردعمل مسلم لیگ (ن ) کی تر جما ن مر یم اورنگزیب نے دیا ہے۔ سٹیٹ بینک کے نئے گورنر معر وف وکیل جن کا زندگی بھر پیپلزپارٹی سے تعلق رہا اور سو ئٹز ر لینڈ میں پاکستان کے سابق سفیر ایم ایس باقر مرحوم کے صاحبزادے ہیں، ان کی والد ہ بر سہا برس لا ہو ر میں امر یکن سکول کی سر برا ہ ر ہیں۔ اس لحا ظ سے وہ کوئی گورا صاحب نہیں ہیں جنہیں پاکستان پر مسلط کر دیا گیا ہو۔ ان کے پیش رو طارق باجوہ پہلے چیئرمین سی بی آر اور بعد ازاں سٹیٹ بینک کے گورنر مقررہوئے اور اپنی نصف مدت ملازمت پوری کرنے کے بعد ہی رخصت کر دیئے گئے۔ تکنیکی طور پر گورنر سٹیٹ بینک کو دوران ملازمت سبکدوش نہیں کیاجا سکتا لیکن حکمرانوں کی بے پناہ طاقت کی بنا پر ان سے استعفیٰ لے لیا جاتا ہے۔ معروف ماہر اقتصادیات شاہد حفیظ کا ردار پیپلز پارٹی کے آخری دور حکومت میں گورنر سٹیٹ بینک مقر ر ہوئے۔ اس وقت صدر آصف علی زرداری چین اور غالباً ترکی کے ساتھ کرنسی سواپ یعنی تبادلہ زرکے فارمولے کے زبردست حامی تھے۔ انھوں نے شاہد کاردار کو طلب کر کے ایسا کرنے کا کہا لیکن انہوں نے بطور ما ہر اقتصادیات استدلال پیش کیا کہ ایسا فارمولہ قابل عمل نہیں ہے۔ جب شاہد کاردار ملاقات کے بعد ایوان صدر سے رخصت ہورہے تھے تو صدر مملکت کے ملٹری سیکرٹری ان کے پیچھے بھاگتے ہوئے آئے اور کہا، حضور! استعفیٰ بھی دیتے جائیں اور موصوف ایسا کر کے گھر کو لوٹ گئے۔ تکنیکی طور پر سٹیٹ بینک کا گورنر خود مختار ہوتا ہے لیکن عملی طور پر ایسا نہیں ہوتا۔ جن ممالک میں حقیقی معنوں میں جمہوری ادارے مستحکم ہیں وہاں کے مرکزی بینک کے سربراہ انتہائی طاقتور ہوتے ہیں اور مانیٹری پالیسی اور شرح سود کے بارے میں آزادانہ فیصلے کرتے ہیں لیکن ہمارے ہاں عملی طور پر ایسانہیں ہوتا۔ سٹیٹ بینک کے گورنر سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ حکمرانوں کی پالیسیوں کی لیت و لعل سے کام لئے بغیر ڈفلی بجائے، ہمارے ہاں تو سٹیٹ بینک کا کام یہ بن گیا ہے کہ روپے کی گرتی قدر کو بچانے کے لیے مارکیٹ میں ڈالر پھینکتا رہے۔ وزیر اعظم عمران خان کو گلہ ہے کہ چند ما ہ قبل جب ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت یکدم کم ہو کر 143 روپے فی ڈالر تک پہنچ گئی تھی تو خان صاحب کے بقول ان کو یہ خبر ٹی وی سے ملی گو یا کہ سٹیٹ بینک نے دانستہ طور پر مارکیٹ میں ڈالر نہیں پھینکے جس سے روپے کی قیمت تاریخی طور پر گر گئی۔ یہ بات واضح نہیں ہے کہ اس وقت کے وزیر خزانہ اسد عمر نے ان کے کان میں کچھ کہا تھایا گورنر نے آزادانہ طور پر یہ فیصلہ کر لیا تھا یا پھر یہ کہ خزانے میں ڈالر ہی ختم ہوتے جا رہے تھے۔ اب دیکھنا ہے کہسٹیٹ بینک کے نئے گورنر کو معاملات چلانے میں کتنی آزادی ہوتی ہے اورٹیسٹ کیس یہی ہو گا کہ آئی ایم ایف کے اس مطالبے پرکہ روپے کو ڈالر کے مقابلے میں فری فلوٹ پر چھوڑ دیا جائے۔ نئے گورنر کی اس بارے میں رائے آئی ایم ایف سے مختلف ہو گی یا نہیں؟ ایسا کرنے کے پاکستانی معیشت کے لیے انتہائی دوررس محرکات ہونگے اور مہنگائی جو پہلے ہی ناقابل برداشت ہو چکی ہے آسمان سے باتیں کرنے لگے گی، علاوہ ازیں غیر ملکی قرضے روپوں کی صورت میں گوناں گوں چڑھ جائیں گے۔ ظاہر ہے کہ اس کا فیصلہ تو وزارت خزانہ کے بزرجمہروں اور آئی ایم ایف کے اہلکا روں کے مذاکرات میں ہی ہو گا۔ ایک لحاظ سے دیکھا جا ئے تو اسد عمر کی جگہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کی حالیہ تقرری، نئے گورنر سٹیٹ بینک کی آمد اور چیئرمین ایف بی آر جہانزیب خان کی فراغت کے بعد وزیراعظم کی پوری اقتصادی ٹیم بدل چکی ہے، اب یہ ٹیم غیر سیاسی ٹیکنوکریٹس پر مشتمل ہے لیکن متذکرہ تبدیلیوں کی ٹائمنگ اس لحاظ سے اہم ہے کہ ایک طرف آئی ایم ایف سے مذاکرات ہو رہے ہیں دوسری طرف چند ہفتوں میں آئندہ نئے مالی سال کے بجٹ کی آمد آمد ہے۔ ایسی تبدیلیاں اگر ضروری ہی تھیں تو بہت پہلے کر لینی چاہیے تھیں۔ دلچسپ بات ہے کہ ڈاکٹر حفیظ شیخ بھی ورلڈ بینک کے عہد یدار رہ چکے ہیں۔ ان کی دبئی میں ایک پرائیویٹ ایکویٹی کمپنی بھی ہے جس میں ان کی بعض بھارتی سرمایہ کاروں کے ساتھ شراکت داری بتائی جاتی ہے لیکن ان کے بارے میں کوئی نہیں کہتا کہ انھیں بھی عالمی مالیاتی اداروں نے ہم پر مسلط کیا ہے۔ وہ قریباً تین سال پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں وزیر خزانہ رہے۔ حفیظ شیخ جو مرنجان مرنج شخصیت ہیں، سندھ کی سومرو فیملی کے قریبی عزیز ہیں، وہ کیونکر اور کیسے اچانک وارد ہوئے یہ بھی الگ داستان ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ ابراج گروپ کے سربراہ عارف نقوی جو امریکی جسٹس ڈیپارٹمنٹ کے علاوہ دبئی حکومت کو مطلوب ہیں اور حال ہی میں برطانیہ میں گرفتار ہونے کے بعد بھاری ضمانت کے عوض رہا ہوئے اور اب ہاؤس اریسٹ ہیں، کی سفارش پر آئے ہیں۔ عارف نقوی عمران خان کے شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال اور سیاست کے لیے سب سے زیادہ فنڈز فراہم کرتے تھے، وہ اب بھی خان صاحب کے خاصے قریب ہیں۔ لیکن سب سے دلچسپ تقرری نئے چیئرمین ایف بی آر کی ہے، اس کے لیے قرعہ فال احمد مجتبیٰ میمن ایڈیشنل سیکرٹری فنانس کے نام نکلا لیکن فوراً ہی سوشل میڈیا پر بزنس ریکارڈر کے حوالے سے یہ پرانی خبر دوبارہ چلنا شروع ہو گئی کہ موصوف آئی ایم ایف کی انکوائریاں بھگتتے رہے ہیں، اسی بنا پر ان کا نوٹیفکیشن روک دیا گیا اور اب شبر زیدی کو چیئرمین ایف بی آر تعینات کر دیا گیا ہے جن کے بارے میں اقتصادی حلقوں کا کہنا ہے کہ وہ ٹیکس اکٹھا کرنے کے ماہر ہیں۔ یقینا اس وقت رواں مالی سال میں ساڑھے تین سو ارب روپے کا ریونیو شارٹ فال تاریخی ہے لیکن کیا محض اہلکار بدلنے سے مسئلہ حل ہو جائے گا۔ اس کیلئے حکومت کو اپنی بنیادی پالیسیاں بدلنا پڑیں گی۔ عالمی بینک کی ایک تا زہ رپو رٹ کے مطابق پاکستان کوٹیکسوں میں اضافے اور نئے ٹیکسوں کے اطلاق کی ضرورت نہیں، موجودہ ٹیکسوں سے اہداف حاصل کئے جاسکتے ہیں بشرطیکہ ٹیکس اکٹھا کرنے کے حوالے سے بنیادی پالیسیاں بدلی جائیں۔ ورلڈبینک نے پاکستانی ٹیکس نظام پر جاری ریسرچ پیپرکی رپورٹ پاکستان ریونیو موبلائزیشن پراجیکٹ پیپر میں کہا ہے پاکستان کو ٹیکس وصولیاں بہتر بنانے اور ٹیکس کلچر کے فروغ کی ضرورت ہے۔ بینک کا کہناہے پاکستان میں ٹیکس وصولیوں کاتناسب جی ڈی پی کے چھبیس فیصد تک ہوسکتاہے لیکن پاکستان میں ٹیکس ادارے صرف آدھا ٹیکس وصول کر پاتے ہیں، ایف بی آر کو اندرونی مسائل کا سامنا ہے، دوسرے ملکوں میں ریونیو اتھارٹیز کے برعکس ایف بی آر کا کوئی قابل عمل ڈھانچہ ہی نہیں ہے جس کے باعث ٹیکس وصولیوں پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، رواں مالی سال ٹیکس وصولیاں ہدف سے کم ازکم چار سو ارب روپے کم رہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ اگر ٹیکس کی وصولی 75 فیصد تک ہوتی ہے تو پاکستان کی ٹیکس آمدن جی ڈی پی کے 26 فیصد تک ہوجائے گی جو ایک متوسط آمدن والے ملک کے لیے حقیقت پسندانہ سطح ہے، ایف بی آر کی پورے ملک میں نمائندگی موجود ہے جہاں اس کے پاس مجموعی طور پر 21 ہزار ملازمین موجود ہیں جن میں سے 2 تہائی حصہ ان لینڈ ریونیو سروس کے لیے جبکہ ایک تہائی حصہ پاکستان کسٹمز کے لیے کام کرتا ہے۔ اس کے علاوہ عالمی بینک نے وفاق اور صوبائی حکومتوں کے درمیان تعاون کی کمی کا بھی انکشاف کیا اور بتایا کہ اس کی وجہ سے ملک کی مجموعی ٹیکس آمدن پر منفی اثرات پڑتے ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ وفاق اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے علیحدہ علیحدہ قواعد و ضوابط لاگو کرنے سے تنازعات جنم لیتے ہیں بالخصوص سیلز ٹیکس ادا کرنے والوں کے لیے ایڈجسٹمنٹ کے معاملات میں پیچیدگیاں آجاتی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اس وقت صوبوں کو ٹیکس آمدن میں ملنے والا حصہ بہت کم ہے تاہم وقت کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہورہا ہے جو 11-2010 میں 0.4 فیصد تھا جو اب 18-2017 تک بڑھ کر 1.2 فیصد ہوگیا ہے۔ اسکے باوجود ٹیکس کی وصولی میں ملکی مجموعی کارکردگی بڑھی ہے، جو 12-2011 میں شرح نمو کا 9.5 فیصد تھا تاہم 18-2017 تک یہ 13 فیصد تک ہوگیا۔ 18ویں ترمیم کے باوجود صوبوں سے مجموعی محصولات کا صرف 9فیصد موصول ہوتا ہے۔ بین الاقوامی ماہرین کے مطابق یہ شرح کم از کم 15فیصد ہونی چا ہیے۔ اس رپورٹ سے یہ واضح ہوتا کہ محض ایف بی آر میں بیوروکریٹ مقرر کرنے سے محصولات میں اضافہ نہیں ہو گا۔ اس کے لیے حکومت کو اپنے پالیسی معاملات پر نظرثانی کرنا پڑے گی اور ملک میں ٹیکس نہ دینے کے کلچر کو بدلنا پڑے گا۔