مشکل در مشکل
اس کے باوجود کہ اقتدار کے ایوانوں سے ستوں خیراں کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں، خارجہ و سکیورٹی پالیسی کے حوالے سے ملک کئی مشکلات میں گھرا ہوا ہے۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) سے وابستہ ادارہ ایشیا پیسفک گروپ (اے پی جی) بیک وقت پاکستان میں دہشت گرد گروپوں کی فنانسنگ کے حو الے سے چھان بین کر کے واپس جا چکا ہے۔ پاکستان ایف اے ٹی ایف کو کالعدم تنظیموں بالخصوص وہ گروپ جنہیں اقوام متحدہ دہشت گرد قرار دے چکی ہے کی غیر ملکی فنانسنگ کے بارے میں مطمئن نہیں کرسکا۔ اب پاکستان کو 15 اپر یل تک دہشت گردی کی مالی معاونت اور منی لانڈرنگ کے تدارک سے متعلق رپورٹ دینا ہو گی۔ لہٰذا جون تک ہمارے اوپر یہ تلوار لٹک رہی ہے کہ ہم کہیں گرے لسٹ سے بلیک لسٹ میں نہ پہنچ جا ئیں۔ کہنے کو تو یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن عملی طور پر بلیک لسٹ ہونے کی صورت میں پاکستان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ اس سے اقتصادی ترقی کے لیے غیر ملکی سرمایہ کاری میں رکاوٹیں کھڑی ہو جائیں گی۔ پاکستان نے پلوامہ واقعہ کے حوالے سے بھارتی ڈوزیئر پر ردعمل دیا ہے کہ اس حملے میں پاکستان کا کوئی ہاتھ نہیں لیکن بھارت کے ایما پر امریکہ کالعدم جیش محمد کے سربراہ مسعود اظہر کو گلوبل ٹیررسٹ قرار دینے کی سلامتی کونسل میں کارروائیوں کی بھر پور تائید وحمایت کر رہا ہے۔ حتیٰ کہ امریکہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی سینکشنز کمیٹی کو بائی پاس کر کے براہ راست پاکستان کے خلاف قرارداد لانے کی کوشش کررہا ہے۔ اس بارے میں چین نے بجا طور پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ اس طرح دہشت گردوں کو پناہ دینے کے حوالے سے خطرات پاکستان کے سر پرمنڈلا رہے ہیں۔ ایک طرف امر یکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ دعویٰ کرتے ہیں کہ اسلام آباد کے ساتھ تعلقات بہت اچھے ہیں اور عنقریب وزیراعظم عمران خان سے ملاقات ہو گی جبکہ دوسری طرف پاکستان کے خلاف امریکہ کی سفارتی یلغار بھی جاری ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ پاکستان نے طالبان لیڈر ملا برادر کو رہا کر کے قطر میں امر یکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات شروع کرا دیئے ہیں اور امریکہ کے افغانستان میں امن اور مصالحت کے حوالے سے نمائندے زلمے خلیل زاد کے مطابق ان مذاکرات میں خاصی پیش رفت بھی ہوئی ہے لیکن معاملات اس بات پر اڑے ہوئے ہیں کہ طالبان افغانستان میں اشرف غنی کی سربراہی میں امریکہ کی کٹھ پتلی حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار نہیں ہیں نیز یہ کہ طالبان کا مطالبہ ہے کہ امریکی افواج افغانستان سے نکل جائیں۔ امریکہ خود بھی افغانستان میں 18سال سے جاری جنگ جو اس کی تاریخ میں طویل ترین جنگ ہے، جان چھڑانا چاہتا ہے، تاہم وہ یہ بھی نہیں چاہتا کہ نیٹو افواج کے انخلا سے ایسا خلا پیدا ہوجائے جس سے وہاں مغرب نے انسانی حقوق اور خواتین کی آزادی کے حوالے سے جو تھوڑی بہت پیش رفت کی ہے وہ صفر ہو کر رہ جائے۔ اشرف غنی کا اپنا حال پتلا ہے، جولائی تک ملتوی شدہ صدارتی انتخابات اب ستمبر میں ہوں گے۔ اس پس منظر میں وزیراعظم عمران خان کے اس بیان پر کہ افغانستان میں عبوری حکومت کی نگرانی میں انتخابات کرائے جا ئیں، اشرف غنی سیخ پا ہو گئے اور انھوں نے اپنے سفیر کو اسلام آباد سے واپس طلب کر لیا۔ عمران خان کی اس وضاحت کے بعد کہ وہ پاکستان کی مثال دے رہے تھے جہاں نگران حکومت کے تحت انتخابات ہوتے ہیں، اس کے بعد افغان سفیر عاطف مشعل کو واپس اسلام آباد بھیج دیا گیا۔ اس پرمعاملہ ختم ہو جانا چاہیے تھا لیکن افغانستان میں امریکہ کے سفیرجون روڈنی باس نے یہ ٹویٹ کر کے کہ پاکستانی وزیراعظم کو ڈپلومیسی میں بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے اور وہ افغانستان میں امن بحال کرنے کی کوششوں کے ساتھ بال ٹیمپرنگ کر رہے ہیں، معاملہ خراب کردیا۔ امر یکی سفیر کے انتہائی محل نظر ٹویٹ پر خان صاحب کے وزرا کیسے خاموش رہ سکتے تھے۔ شعلہ نوا وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری جو اپنی متنازعہ اور سیماب پا طبیعت کے حوالے سے خاصی مشہور ہیں نے اپنے ٹویٹ میں امریکی سفیر کو بونا قرار دیتے ہوئے کہا کہ جتنی کم معلومات آ پ کو بال ٹیمپرنگ کے متعلق ہیں اتنی ہی افغانستان اور خطے کے بارے میں ہیں، اسی ٹویٹ میں محترمہ نے زلمے خلیل زاد کو بھی رگڑ دیا جو عمران خان کے متذکرہ بیان پر پہلے ہی نکتہ چینی کر چکے ہیں۔ وزیر خزانہ اسد عمر اس امر کے باوجودکہ انہیں ملکی اقتصادیات کی پتلی حالت پر بھرپور اور پوری توجہ دینی چاہئے عادتاً ہر معاملے میں ٹانگ اڑاتے ہیں نے اپنے ٹویٹ میں امریکی سفیر کو مخاطب کیا کہ آپ کرکٹ کے بارے میں کچھ جانتے ہیں نہ سفارتکاری کے بارے میں، افغان امن عمل مشکل وقت میں ہے، امید ہے امریکہ اس قابل ہو گا کہ بہتر سفارتکاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسئلے کو دیکھے۔ وزیر میری ٹائم علی زیدی بھی کہاں نچلے بیٹھنے والے تھے انھوں نے بھی سفیر کو رگڑا لگاتے ہوئے کہا آپ نے مختلف حکومتوں کے ادوار میں آدھی دنیاگھومی جس دوران ہر جگہ تخت الٹے گئے اور ہزاروں لوگوں کو قتل کیا گیا۔ امریکہ کے کئی اچھے سفیر گزرے لیکن افسوس آپ اس فہرست میں شامل نہیں ہو سکیں گے۔ عمر ایوب نے کہا امریکی سفیر سفارتی آداب توڑنے سے گریز کریں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس کا کام اسی کو ساجھے، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بجا طور پر ٹویٹر کی اس جنگ میں حصہ لینے سے اجتناب کیا۔ بہتر تو یہ ہوتا کہ وزیراعظم افغانستان کے معاملات میں اس قسم کا بیان دینے سے گریز کرتے کیونکہ اس بیان کو افغانستان میں تمام گروپوں کی طرف سے اس کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہی تصور کیا جائے گا۔ بالکل اسی طرح جیسے بھارتی رہنما پاکستان کے جمہوری نظام پر بے جا تنقید کرتے ہیں تو ہمیں برالگتا ہے۔ کابل میں امریکی سفیر کے بیان پر ٹویٹ کرنے کے بجائے وزارت خارجہ کو اس ضمن میں باقاعدہ احتجاجی بیان دینے پر اکتفا کرناچاہیے تھا لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ نیشنل ایکشن پلان پر پارلیمانی لیڈروں کا خصوصی اجلاس محض اس لیے نہیں ہو سکا کہ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے اس بنیاد پر انکار کر دیا کہ اس مقصد کے لیے پارلیمنٹ میں بات کی جائے۔ پیپلزپارٹی کے اپنے تحفظات ہیں جس میں سرفہرست وہ فو جی عدالتوں کی مزید توسیع کے حق نہیں اور اس کا الزام ہے کہ بعض وفاقی وزرا کے انتہا پسند تنظیموں سے رابطے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ اپوزیشن کی دانست میں اسے دیوار سے لگایا جا رہا ہے لہٰذا وہ حکومت سے تعاون کرنے کو تیار نہیں۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ احتساب نیب کے ذریعے ہو رہا ہے جس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں اور اپوزیشن جمہوریت خطرے میں ہے کی رٹ لگا کر اپنی چوریاں چھپانا چاہتی ہے۔ دوسری طرف الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ارکان کی نامزدگی پر آئینی بحران پید اہو گیا۔ وزیراعظم نے خود خط لکھنے یا ملاقات کے بجائے پرنسپل سیکرٹری سے اپوزیشن لیڈر کو خط لکھوا دیا اور فطری طور پر شہباز شریف نے نام مسترد کر دیئے۔ نیشنل ایکشن پلان پر خصوصی اجلاس کا معاملہ ہو یا الیکشن کمیشن کے ارکان کی نامزدگی، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی جو اپوزیشن کے لیے نسبتاً قابل قبول ہیں اپوزیشن سے مذاکرات کر رہے ہیں لیکن بامقصد مشاورت کے لیے وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کی ملاقات میں نہ جانے کیا امر مانع ہے۔ یہ کوئی جائیداد کا جھگڑا تو ہے نہیں بلکہ آئینی اور جمہوری تقاضوں کو پورا کرنے کا سوال ہے تاکہ خارجہ و سکیورٹی پالیسی کے علاوہ اکانومی پر بھی اپوزیشن کو آن بورڈ لے کر جمہو ریت کی بقا اور ملکی ترقی کے لیے ممکنہ حد تک متفقہ حکمت عملی بنائی جا سکے۔