آزادیٔ جمہور
جنرل ضیاالحق کے اقتدار پر شب خون مارنے کو 42 برس گزر گئے۔ 5 جولائی 1977ء کی علی الصبح انہوں نے منتخب وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کر مارشل لا لگا دیا اور اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔ بھٹومارچ 1977ء کے عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کے بعد اپوزیشن جماعتوں پر مشتمل پاکستان قومی اتحاد (پی این اے)سے بظاہر معاملات طے کر چکے تھے لیکن اپوزیشن کے سرکردہ قائدین ائیر مارشل اصغر خان، چودھری ظہور الٰہی، ولی خان، شیرباز خان مزاری، نوابزادہ نصراللہ خان، شاہ احمد نورانی، پروفیسر غفور احمد میں سے بعض کی فوجی قیادت کے ساتھ پوری ساز باز تھی۔ ان میں سے اکثر کا مطمع نظر یہی تھا کہ بھٹو سے ہر قیمت پر چھٹکارا حاصل کیا جائے۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد جنرل ضیاء الحق کی عیاری اور دوغلا پن کھل کر آشکار ہو گیا کہ یہ سب ان کے اپنے ہی عزائم تھے۔ ویسے بھی تاریخ بتاتی ہے کہ فوجی طالع آزما یا کوئی اور اقتدار طشتری میں رکھ کر پیش نہیں کرتے۔ جنرل ضیا نے اپنے پہلے خطاب میں ہی اعلان کردیا تھا وہ 90 روز میں انتخابات کروا کر اقتدار منتخب نمائندوں کے حوالے کر دیں گے لیکن بعدازاں انتخابات ملتوی کر دئیے اور پی این اے کی اکثر جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل اپنی کابینہ تشکیل دے دی لیکن 4 اپریل 1979ء کو نواب محمد احمد خان کے قتل کے حوالے سے بھٹو کا جوڈیشل مرڈر کر دیا گیا اس کیساتھ ہی "پہلے احتساب پھر انتخاب"کا نعرہ لگا دیا اور ان کے نوے روز گیارہ سال پر محیط ہو گئے۔ ان کے اقتدار کا خاتمہ اس وقت ہوا جب وہ17 اگست 1988ء کو ایک پراسرار فضائی حادثے میں مبینہ طور پر اپنے ہی "ساتھیوں " کی سازش کا شکار ہو گئے۔ ضیا الحق کی آمریت کوئی معمولی آمریت نہیں تھی، یہ ایک ایسا نظریاتی انقلاب تھا جو پاکستان کو بہت پیچھے لے گیا۔ انہوں نے اپنے گیارہ سالہ دور اقتدار میں پاکستان کے قریباً ہر شعبے پر منفی اثرات چھوڑے جن سے آج تک وطن عزیز نبردآزما ہے۔ بھٹو کی پھانسی کے بعد ضیا الحق بین الاقوامی سطح پر یک و تنہا رہ گئے تھے۔ ستمبر 1979ء میں جب کیوبا میں غیر جانبدار تحریک کا سربراہی اجلاس ہوا تو میں بطور صحافی اس میں شریک تھا۔ وہاں میں نے دیکھا کہ ضیا الحق سے کوئی سربراہ مملکت یا حکومت ہاتھ ملانے کو بھی تیار نہیں تھا اور وہ خود سب کی نشستوں پر جا کر مصافحہ کر رہے تھے لیکن ضیا الحق کی خوش قسمتی تھی کہ اسی برس دسمبر میں سوویت یونین کی افغانستان پر یلغار کے بعد سب کچھ بدل گیا اور جنرل ضیا امریکہ اور مغرب کی آنکھ کا تارا بن گئے۔ اسلام آباد سی آئی اے کا دنیا میں سب سے بڑا اڈا بن گیا اور اس وقت کے حکمرانوں نے افغان جہاد کے نام پر خوب ڈالر اینٹھے۔ پاکستان یکدم دنیا بھر کے جہادیوں کی ٹریننگ گراؤنڈ اور آماجگاہ بن گیا۔ اس کے طفیل کلاشنکوف اور ہیروئن کلچر پوری طرح جڑ پکڑ گیا۔ یہاں اور افغانستان میں تربیت پانے والے جہادیوں نے پاکستان میں دہشتگردی کا بازار گرم کر دیا۔ اگرچہ اب ہم نے ان مسائل پر کافی حد تک قابو پا لیا ہے لیکن اتنے برس گزرنے کے باوجود ان کے زہریلے اثرات ہمارے جسد سیاست اور قومی سوچ میں آج بھی جاگزیں ہیں۔ سب سے بڑھ کر قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ محمد اقبال کے پاکستان میں جو جیو اور جینے دو کی بنیاد پر مسلمانوں کے جمہوری عمل کے ذریعے بنا تھا، قنوطیت پسندی اور رجعت پسندی کو سرکاری سطح پر فروغ حاصل ہوا۔ اس ضمن میں جماعت اسلامی اور دیگر مذہبی جماعتیں ضیاالحق کی پرجوش حلیف تھیں۔ برملا کہا گیا کہ وہ ملک جو جمہوریت کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا تھا وہاں سیاسی جماعتوں کی گنجائش نہیں کیونکہ سیاست خلاف اسلام ہے۔ میڈیا پر سنسرشپ سمیت ہر طرح کی قدغن لگائی گئی۔ سیاستدانوں اور صحافیوں کو کوڑے مارے جاتے رہے پھر ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت نوے کروڑ مسلمانوں کے خود ساختہ نمائندے کو خیال آیا کہ خود کو دوام بخشنے کیلئے اسلام کے نام پر صدر منتخب کرایا جائے جس کیلئے 1984ء میں ریفرنڈم کرایا گیا جس میں ضیا الحق کو منتخب کرانے کیلئے میاں نوازشریف نے شہر شہر مہم چلائی۔ بعدازاں ضیا الحق نے غیر سیاسی نظام کے نام پر ایک سیاسی طبقہ تشکیل دینے کا سوچا اور یہیں سے نام نہاد غیر جماعتی نظام کی بنیاد پڑی اور1985ء میں غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں سندھ کے ایک نیک نام سیاستدان محمد خان جونیجو کو وزیراعظم بنایا گیا، وہ مسلم لیگ کے سربراہ بھی تھے اور ایک کامیاب وزیراعظم ثابت ہوئے۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ جب انہوں نے کسی قدر آزادی سے فیصلے کرنا شروع کر دئیے تو اس کی پاداش میں انہیں مئی 1988ء میں اس وقت گھر بھیج دیا گیا جب وہ چین کا سرکاری دورہ کر کے وطن واپس پہنچے تھے۔ میاں نوازشریف نے جو اس وقت وزیر اعلیٰ پنجاب تھے اپنے وزیراعظم کے بجائے ضیاالحق کا ساتھ دیا اور اپنے عہدے سے ڈھٹائی سے چمٹے رہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ غیر جماعتی نظام کی کوکھ سے نئے سیاستدانوں کی ایک ایسی کھیپ ابھری جو پہلے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر جمع ہوئی۔ ضیا الحق کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کیلئے قرعہ فال پنجاب کے دو خاندانوں کے نام نکلا ان میں سے ایک تو اتفاق فاؤنڈری کے مالک میاں محمد شریف کے صاحبزادے نوازشریف تھے اور دوسرے ایک نسبتاً پرانے سیاسی خاندان چودھری ظہور الٰہی کےصاحبزادے چودھری شجاعت حسین اور بھتیجے چودھری پرویزالٰہی تھے۔ میاں نوازشریف نے ضیاالحق کے طیارہ حادثے میں جاں بحق ہونے سے چند روز قبل ہی ہالیڈے ان ہوٹل اسلام آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس میں محمد خان جونیجو کو الگ کرتے ہوئے ضیاالحق کے ایما پر مسلم لیگ پر قبضہ کر لیا اور یہیں سے مسلم لیگ ن کے سیاسی سفر کا آغازہوا۔ اس وقت چودھری برادران اور شریف برادران ایک ہی صفحے پر تھے۔ اب وہی نوازشریف جو اسٹیبلشمنٹ کے لاڈلے تھے طویل جیل کاٹ رہے ہیں اور برادر خورد میاں شہباز شریف یہ رونا رو رہے ہیں کہ ملک میں فاشزم نافذ کیا جا رہا ہے حالانکہ چودھری اور شریف برادران نے ضیا الحق کے ننگے فاشزم کی بنیاد پر ہی اپنی سیاست کی عمارت کھڑی کی تھی۔ 1993ء میں میاں نواز شریف کی سوچ میں بنیادی تبدیلی اس وقت آئی جب انہیں صدر غلام اسحاق خان سے چپقلش کے نتیجے میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل عبدالوحید کاکڑ کی مداخلت پراقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے، اس کے بعد اس وقت کی فوجی قیادت نے انہیں اقتدار واپس دلانے کا وعدہ وفا نہیں کیا۔ انہی دنوں میں نے ماڈل ٹاؤن لاہور میں ان کی اقامت گاہ پر ملاقات کی تو میاں صاحب نے کانوں کو ہاتھ لگا کر کہا کہ میں اب کبھی کسی فوجی سربراہ پر اعتماد نہیں کروں گا۔ یہی وجہ ہے اس کے بعد جتنی بھی فوجی قیادتیں آئیں میاں صاحب کی ان سے نبھ نہیں سکی حتیٰ کہ جنرل پرویزمشرف سے کشیدہ تعلقات کی بنا پر انہیں دوبارہ اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے۔ میاں نوازشریف کے دور کے برعکس اب سول اور فوجی قیادت میں مکمل ہم آہنگی ہے۔ وزیراعظم عمران خان اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ ایک ہی صفحے پر ہیں۔ تمام ملکی معاملات بالخصوص سکیورٹی، معیشت پر فیصلے متفقہ طور پر ہو رہے ہیں۔ بعض کالعدم تنظیمیں جن کے متعلق اقوام متحدہ اور دنیا کو تحفظات تھے ان کے خلاف بھی کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔ نان سٹیٹ ایکٹرز کے خلاف ایکشن نہ لینے کا بیانیہ دم توڑ رہا ہے گویا کہ سویلین اور فوجی قیادت کی کاوشوں سے ریاست اپنی رٹ بحال کر رہی ہے جو ایک خوش آئند بات ہے۔ پاکستان میں سب سے زیادہ مار پیپلزپارٹی کی قیادت اور کارکنوں نے کھائی۔ ذوالفقارعلی بھٹو سے لے کر بے نظیر بھٹو تک جانوں کا نذرانہ بھی پیش کیا ہے۔ آج جب وزیراعظم عمران خان ببانگ دہل کہتے ہیں کہ چوروں اور ڈاکوؤں کو نہ صرف چھوڑوں گا نہیں، بلکہ ان کو کوئی خصوصی سہولت بھی نہیں دی جائے گی تو ہنسی آتی ہے۔ خان صاحب پہلے حکمران نہیں ہیں جو نام نہاد احتساب کے نام پر انتقام برپا کر رہے ہیں۔ پاکستان میں جتنی بار بھی غیر جمہوری انداز سے حکومتیں بدلی گئی ہیں مبینہ کرپشن کے خلاف جہاد کا ہی نعرہ لگایا گیا ہے لیکن خان صاحب توایک منتخب سویلین حکمران ہیں تو پھر ایسا کیوں ہو رہا ہے کہ جمہوریت، آزادی اظہار تقریر کیلئے عرصہ حیات تنگ ہوتا جا رہا ہے۔