یہ کہاں کا حسن ہے؟
عام طور پر سیاسی لیڈران اپنے بیانات میں ایک جملہ بہت کثرت سے استعمال کرتے ہیں کہ "یہی تو جمہوریت کا حسن ہے" لیکن عام طور پر اس کے محلِ استعمال کا کوئی رشتہ اس کے الفاظ یا اُن کی رُوح کے مطابق نہیں ہوتا۔
مان لیا کہ "اختلاف برائے اصلاح و ترقی" جمہوریت کا حسن کہلاسکتا ہے مگر یہ مخالفت برائے مخالفت اور آنکھیں بند کرکے اختلاف کیے جانا کہاں کا حسن ہے۔ مزید حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اس حمام میں سب ہی ننگے ہیں۔ نہ حکومت اپوزیشن کی سنتی ہے اور نہ اپوزیشن حکومت کی۔
دونوں کے نزدیک جمہوریت کا حسن وہی ہے جو اُن کو منظور اور اُن کا من پسند ہو، اب اگر اس میں عوام یا قوم کا چہرہ مسخ ہوتا ہے تو ہوتا رہے اس لیے کہ ان کے نزدیک عوام سے مراد بھی نہ صرف ان کے اپنے اپنے ووٹرز ہیں بلکہ اپنے ووٹرز میں سے بھی وہی لوگ پسندیدہ ٹھہرتے ہیں جو یا تو ان کی ہاں میں ہاں ملائیں یا بالکل خاموش اور لاتعلق رہیں، میرے نزدیک اس کی بنیادی وجہیں تین ہیں۔
(1) نظریہ، پاکستان سے کم کم واقفیت۔ (2) جہالت اور آبادی کا دبائو۔ (3) بلدیاتی نظام کی عمومی عدم موجودگی۔ غور سے دیکھا جائے تو انھی تین عناصرکی وجہ سے عمومی طور پر ہمارے سیاستدان اور انتخابات میں پرچیاں ڈالنے والے لوگوں کی اکثریت کو سرے سے اس بات کا علم اور تجربہ ہی نہیں کہ جمہوریت کی شکل کیا اور کیسی ہوتی ہے اور یہ کہ اگر کسی حسینہ کا چہرہ ہی اس کے بدن سے الگ کردیا جائے تو اُسکے حسن کے بارے میں کوئی رائے یا معیار قائم کرنا ممکن نہیں رہتا۔
ہمارے بڑوں نے اس ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھا لیکن عملی طور پر بعد میں آنیوالوں نے عام عوام کو رُوحِ اسلام اور بنیادی انسانی حقوق کی ہَوا بھی نہیں لگنے دی جن تین عناصر یعنی اس وطنِ عزیز کے قیام کی ضرورت اور نظریئے کے شعور، تعلیم کے فروغ اور آبادی پر کنٹرول اور سیاسی تربیت گاہ کے طور پر مضبوط اور شفاف بلدیاتی نظام کی تعمیر و تشکیل پر زور دینا تھا، اُن کو ہمیشہ اور جان بوجھ کر قومی ترجیحات میں سب سے نچلے درجوں پر رکھا گیا اور اس قبیح جُرم کے ارتکاب میں کم یا زیادہ ہر حکومت اور حکمران نے دل کھول کر اور پلکیں جھپکے بِنا حصہ لیا۔
ممکن ہے اُن میں سے کچھ کی نیت اتنی بُری نہ ہو جتنے ان کے اعمال تھے مگر عملی طور پر ہمارا سیاسی نظام چند بڑے جاگیردار خاندانوں، کچھ بدنیّت علمائے دین، چند طابع آزما جرنیلوں اور کچھ سرمایہ داروں کا ہی غلام رہا ہے جب کہ بیوروکریسی نے بھی زیادہ تر انھی حاکمان کی خدمت گزاری میں ہی جائے امان ڈھونڈی ہے۔ 1965 کی جنگ تک اپنی تمام تر جملہ خرابیوں کے باوجود یہ نظام کسی نہ کسی حد تک قومی امنگوں اور عوامی فلاح کا بھی ترجمان رہا مگر اس کے بعد تو حد ہی ہوگئی۔
خاندانی تربیت یا انگریزکے قائم کردہ ڈسپلن کی وجہ سے انفرادی سطح پر جو اخلاق، انسانیت اور ذہانت کہیں کہیں دکھائی دیتی تھی نہ صرف یہ کہ وہ اُن کی اگلی نسلوں کو منتقل نہہیں ہوئی بلکہ علاقائی، لسّانی اور شخصی خودپرستی پر استوار عصبیت نے بھی یا تو ان "چنیدہ " لوگوں کو گمراہ کردیا یا یہ سیاسی کھینچا تانی اور مفاد پرستی کا شکار ہوکر آہستہ آہستہ مرکزی دھارے سے الگ ہوتے چلے گئے اور یوں ہماری بعد کی نسلوں کے لیے کئی ہیرو ولن کی شکل اختیار کرگئے۔
ہماری موجودہ اسمبلیاں اور سیاسی منظرنامہ بھی عمومی طور پر اسی تسلسل کی کڑی ہے کہ پی ٹی آئی سمیت ہر پارٹی میں آپ کو انھی لوگوں کے جانشین زیادہ نمایاں نظر آئیں گے لیکن ان ستر برسوں میں ہمارے اردگرد کی دنیا اتنی تیزی سے اور اس قدر وسیع تر سطح پر بدلی ہے کہ اس کے ساتھ چلنے کے لیے اب خواہی نخواہی سب کو بدلنا پڑگیا ہے۔ ا س تبدیلی کے لیے پہلے سے تیار ترقی یافتہ قوموں نے تو کسی حد تک اپنے آپ کو اس ہمہ گیر انقلاب سے adjustکرلیا ہے مگر تیسری دنیا کے ایٹمی طاقت کے حامل ملک بھی اب تک اس ultra new order سے مانوس نہیں ہو پائے جس کا اظہار اُن کے تمام تر شعبوں کے ساتھ ساتھ سب سے زیادہ سیاسی نظاموں میں ہورہا ہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ ہمارے معاشرے بھی اپنے عمل کے ساتھ اُن سب مفروضوں کو بھی بدلیں جن کی خود ساختہ تاویلوں کے سائے تلے وہ جی رہے تھے اور اس کے لیے سب سے زیادہ ضروری بات ہر سیاست دان کی بلدیاتی نظام کی سطح پر تربیت اور شمولیت ہے کہ یہیں سے اُسے پتہ چل سکتاہے کہ مخالفت برائے مخالفت، جمہوریت کا حسن نہیں ہوتا بلکہ وہ زہر ہے جو ہمارے حال کے ساتھ ساتھ مستقبل کو بھی چاٹ رہا ہے اور اس نئی صورتِ حال میں میڈیا کو بھی اُن کا ساتھ دینا ہوگا کہ تخریب کے مناظرسے ٹی وی کی اسکرین اور اخبارات کے صفحے کچھ دیر کے لیے تو بھرے جاسکتے ہیں مگر یہ تماشا کل کو اس میں شامل فنکاروں اور عوامی امنگوں کے ساتھ ساتھ اُن کو بھی نیست و نابو د کردے گا۔
جمہوریت کا حسن صرف اُس اختلاف میں ہے جس کا مقصد خیر کی تلاش ہو، ہر وہ مخالفت جو صرف برائے مخالفت کی جائے قابلِ نفرت وروّہے چاہے اس کے کرنیوالا کوئی بھی ہو، آپ عمران خان سے بھلے ہی اختلاف کریں، میں خود اُن کی کئی باتوں سے اتفاق نہیں کرتا لیکن جب وہ ملک کے وزیر اعظم کے طور پر absolutely notجیسا تاریخ ساز اور جراّت مندانہ بیان دیں تو کم از کم اُس انٹرویو سے خواتین کے لباس کے بارے میں رواروی میں کہے گئے اُنکے ایک جملے کو اس طرح سے ہوا نہیں دی جانی چاہیے تھی، یہ بات کسی اور وقت پر بھی اُٹھا رکھی جاسکتی تھی، ویسے بھی اس پر اتنا چراغ پا ہونا کم از کم میری سمجھ میں نہیں آیا کہ اس نے خواتین کی ضرورت سے زیادہ کم لباسی کو ریپ جیسی قبیح صورتحال کے واحد نہیں بلکہ بہت سوں میں سے ایک ممکنہ سبب کا محّرک قرار دیا تھا، اُسکے لفظوں کا چنائو بلاشبہ بہتر ہوسکتا تھا مگرا سکی واقعیت او ر سچائی سے انحراف شائد ممکن نہ ہو کہ جمال، احساسِ جمال اور جمال کے اظہار کے لیے برہنگی کا سہارا لینا تین مختلف باتیں ہیں اور میرا نہیں خیال کہ کوئی بھی بڑی سے بڑی feminism کی پرچارک خاتون اس تیسری شکل کو اپنے یا اپنی بچیوں کے لیے پسند کرسکتی ہے۔ سو جمہوریت کے حُسن کی طرح انسانی حسن کی بھی بہتر اور مستحسن تعریف یہی ہے کہ یہ خیر سے قریب تر اور شر سے دُور ہو۔
ابھی ابھی خبر ملی ہے کہ کراچی میں ہمارے ایک سینئر اداکار دوست انور اقبال بلوچ کا انتقال ہوگیا ہے، اُن کی تشویش انگیز بیماری کی خبر یں چند دنوں سے فیس بُک پر گشت کر رہی تھیں لیکن باوجود کوشش کے نہ میرا اُن سے رابطہ ہوسکا اور نہ یہ پتہ چل سکا کہ آخر وہ ایک دم اتنے زیادہ بیمار کیوں اور کیسے ہوگئے ہیں کہ چند ماہ قبل اُن سے ہونے والی آخری ملاقات کے دوران وہ بالکل صحت مند بھی تھے اور مستقبل کے بارے میں بھی بہت سے پروگرام بنا رہے تھے۔ ربِ کریم اُن کی رُوح کو اپنی امان میں رکھے۔ انور اقبال بلوچ بہت محبتی اور کھلے ذہن ودل والے آدمی تھے اورایسے لوگ بدقسمتی سے اب بہت تیزی سے کم ہوتے جارہے ہیں۔