بھارتی انتخابات، کس نے کیا کھویا، کیا پایا؟
بھارتی پارلیمانی انتخابات کے نتائج آپ لوگوں کے سامنے آ ہی چکے ہیں۔ بی جے پی کے نریندرمودی تیسری بار وزیراعظم تو بننے جا رہے ہیں، مگر انہیں انتخابات میں کئی غیر متوقع بڑے شدید دھچکے لگے ہیں۔ ایک لحاظ سے یہ مودی جی اور ان کی طلسماتی شخصیت کی شکست ہے۔
بی جے پی اپنے طور پر سادہ اکثریت نہیں لے پائی اورحکومت سازی کے لئے وہ اپنے بڑے اتحادیوں خاص کر بہار کے نتیش کمار(بارہ نشستیں)، تلنگانہ کے این سی نائیڈو(سولہ نشستیں)، شیو سینا (سات نشستیں)اورچراگ پاسوان کی لوک جن شکتی پارٹی (پانچ نشستیں)پر انحصار کرے گی۔ کئی چھوٹی پارٹیاں بھی بی جے پی کی اتحادی ہیں جنہوں نے الیکشن میں ایک ایک دو دو سیٹیں جیتی ہیں۔ بظاہر یہ لگ رہا ہے کہ بی جے پی کو بمشکل بیس پچیس سیٹوں کی برتری رہے گی اور متواتر یہ خطرہ لاحق رہے گاکہ بڑے دھڑے الگ نہ ہوجائیں۔
الیکشن میں اصل کامیابی انڈین نیشنل کانگریس اور ان کے اتحاد کی ہوئی جس کا مخفف Indiaبنتا ہے۔ کانگریس پانچ سال پہلے بدترین شکست سے دوچار ہوئی تھی اور ایک طرح سے شمالی ہند سے اس کا صفایا ہوگیا تھا۔ کانگریس کے روح رواں راہول گاندھی اپنے قدیمی خاندانی حلقے امیٹھی سے سابق بھارتی اداکاری سمرتی ایرانی (کبھی ساس بھی بہو تھی فیم)کے ہاتھوں شکست کھا گئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ بھارتی اسٹیبلشمنٹ میں راہول گاندھی یا کانگریس سے ہمدردی رکھنے والے حلقوں نے انہیں بتا دیا تھا کہ وہ نارتھ انڈیا میں جہاں سے لڑیں گے، ہرا دئیے جائیں گے، اس لئے وہ اگر اسمبلی (لوک سبھا)میں پہنچنا چاہتے ہیں تو ساوتھ انڈیا کار خ کریں۔ راہول گاندھی نے میدان چھوڑنے سے انکار کیا اور پھر ا س کا نتیجہ بھگت لیا۔
پچھلی ہار کے بعد راہول گاندھی نے بہت محنت کی۔ انہوں نے ایک طویل عوامی رابطہ مہم چلائی اور ایک سال سے زیادہ عرصہ مختلف علاقوں میں پیدل سفر کرکے عام آدمی تک پہنچے، انہیں اپنی بات سمجھائی۔ اس الیکشن سے پہلے راہول گاندھی نے عمدگی اور مہارت کے ساتھ ایک بڑا اتحاد بنایا جس میں جہاں یوپی کی سماج وادی پارٹی شامل تھی، وہاں ماضی میں کانگریس کی مخالف عام آدمی پارٹی، ویسٹ بنگال میں ممتابنرجی، مہاراشٹر میں شیو سینا کے اودھے بال ٹھاکرے گروپ اور شردپوارکی نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے ساتھ ساتھ کمیونسٹ پارٹی مارکسسٹ اور بہار کے لالو پرساد یادو کی پارٹی اور بعض دیگر چھوٹے بڑے علاقائی دھڑے بھی شامل تھے۔ یہ ایسا اتحاد تھا جس نے نارتھ اور سائوتھ انڈیا میں بی جے پی کے سامنے دیوار کھڑی کرنے کی اچھی کامیاب کوشش کی۔
کانگریس کا اتحاد انڈیا کل پانچ سو اکتالیس نشستوں میں سے دو سو چالیس حاصل کر پایا، جبکہ مودی جی کے اتحاد این ڈی اے کو دو سو ترانوے سیٹیں ملی ہیں۔ کانگریس اور ان کے اتحاد انڈیا کی سب سے بڑی کامیابی یوپی (اترپردیش)میں بی جے پی کو شکست دینا ہے۔ یہاں پر بی جے پی کے سخت گیر ہندو لیڈر ادیتا جوگی وزیراعلیٰ ہیں اور پچھلی بار ان کی جماعت نے یوپی میں صفایا کر ڈالا تھا۔
یوپی بھارت کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور لوک سبھا یعنی نیشنل اسمبلی میں اس کی 80سیٹیں ہیں، یوپی میں کامیابی مرکز میں جیت کا راستہ ہموار کر دیتی ہے۔ کانگریس اور سماج وادی پارٹی نے یوپی میں بی جے پی سے زیادہ سیٹیں جیت لیں۔ ان کے کئی اہم لیڈر ہار گئے۔ امیٹھی سے پچھلی بار جیتنے والی سمرتی ایرانی اس بار راہول گاندھی کے پی اے کے ہاتھوں ہار گئی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ بی جے پی فیض آباد کے علاقہ ایودھیا میں رام مندر کے قیام کو اپنی سب سے بڑی کامیابی سمجھتی تھی، مگر وہاں کی سیٹ وہ ہار گئی۔ نریندرمودی اپنے حلقے سے جیت تو گئے، مگر اس بار ان کامارجن پچھلی بار کی نسبت خاصا کم تھا، جبکہ راہول گاندھی نے بڑی لیڈ سے جیت حاصل کی۔
ساوتھ انڈیا میں بی جے پی کو شکست ہوئی، تامل ناڈو میں ان کا صفایا ہوگیا اور وہ ایک سیٹ بھی نہیں جیت سکے۔ انتالیس کی انتالیس سیٹیں کانگریس اتحاد کو ملیں۔ ہریانہ ان کا مضبوط قلعہ تھا، مگرو ہاں سے بی جے پی آدھی سیٹیں ہار گئی۔ اسی طرح کیرالہ میں بی جے پی کو بمشکل ایک سیٹ مل سکی۔ مہاراشٹر جس کا مرکزی شہر بمبئی ہے، وہاں پر کانگریس اتحاد نے تیس جبکہ بی جے پی اتحاد کو سترہ سیٹیں مل پائیں۔ راجھستان میں بی جے پی کی صوبائی حکومت ہے، مگر وہاں کی پچیس نشستوں میں انہیں چودہ ملی جبکہ کانگریس اتحاد گیارہ سیٹیں لے اڑا۔ کانگریس نے ویسٹ بنگال کی بیالیس میں سے تیس سیٹیں جیت لیں۔ پنجاب کی تیرہ میں سے دس سیٹیں کانگریس کو ملیں، جبکہ بی جے پی کو ایک بھی نہیں ملی۔ تلنگانہ میں البتہ دونوں مخالف اتحادوں کو آٹھ آٹھ سیٹیں ملیں۔
یہ بہرحال اپنی جگہ حقیقت ہے کہ انفرادی طور پر بھارت کی سب سے بڑی جماعت بی جے پی ہی ہے، اسے دو سو چالیس سیٹیں ملیں جبکہ دوسرے نمبر پر کانگریس آتی ہے، جس کی ننانوے نشستیں ہیں۔ بی جے پی نے کئی اہم بھارتی صوبوں میں بہت بڑے مارجن سے کامیابی لی ہے۔ گجرات مودی جی کا اپنا شہر ہے، وہاں وہ وزیراعلیٰ بنے تھے اور تب ہی مرکزی سیاست میں جگہ بنائی۔ گجرات سے بی جے پی نے چھبیس میں سے پچیس نشستیں جیت لیں۔ مدیحیہ پردیش (MP)سے بی جے پی نے انتیس کی انتیس اور اوڈیشا سے اکیس میں سے بیس سیٹیں حاصل کی ہیں۔ بہار کی چالیس میں سے تیس سیٹیں بی جے پی اتحاد کے حصے میں آئیں۔ آندھرا پردیش کی پچیس میں سے اکیس سیٹیں انہیں ملیں جبکہ دلی کی ساتوں سیٹیں اور چھتیس گڑھ کی گیارہ میں سے دس اور آسام کی چودہ میں سے گیارہ سیٹیں ملی ہیں۔
بنیادی اور بڑی تقسیم تو نارتھ انڈیا، سائوتھ انڈیا کی بنتی ہے، مگر سیاسی اعتبار سے بھارت کو چھ زونز میں تقسیم کیا جاتاہے۔ نارتھ انڈیا، ویسٹ انڈیا، سنٹرل انڈیا، ایسٹ انڈیا، نارتھ ایسٹ انڈیااور ساوتھ انڈیا۔ ان میں بی جے پی نے مجموعی طور پر پانچ زونز میں برتریی لی جبکہ ساوتھ انڈیا میں وہ ہار گئے۔
بی جے پی نے نارتھ انڈیا کی151 میں سے تراسی اور سنٹرل انڈیا کی چالیس میں سے انتالیس سیٹیں جیتی ہیں جبکہ ویسٹ انڈیا کی 78 میں سے پنتالیس اور ایسٹ انڈیا کی118 میں سے 72 اور نارتھ ایسٹ انڈیا کی پچیس میں سے پندرہ سیٹیں حاصل کیں، البتہ ساوتھ انڈیا کی 131 میں سے انہیں صرف انچاس نشستیں مل سکیں۔
کانگریس کا سب سے بڑا کارنامہ مودی جی کے ناقابل شکست اور ناقابل تسخیر ہونے کا امیج پاش پا ش کرنا ہے۔ کانگریس اتحاد کو اب اندازہ ہوگیا ہوگا کہ انہیں کہاں کہاں مزید محنت کی ضرورت ہے اور بعض جگہوں پر مزید بہتر علاقائی اتحاد بنانے چاہیں۔ اہم بات یہ کہ ان الیکشن سے پہلے میڈیا کے تجزیوں اور ایگزٹ پولز میں ہر جگہ بی جے پی کی بھاری اکثریت کے اندازے تھے جو کہ بری طرح غلط نکلے۔ کانگریس اتحاد اور راہول گاندھی کواب انڈین ووٹر اور علاقائی پارٹیاں زیادہ سنجیدگی سے لیں گی۔ مودی جی سے مرعوب بھارتی ووٹروں کو اندازہ ہوگیا کہ تھوڑی سی مزید کوشش کی جائے تو بی جے پی اور مودی کو اوندھے منہ گرایا جا سکتا ہے۔
اس شکست کے پیچھے بی جے پی کی ضرورت سے زیادہ خوداعتمادی اور ان کا چارسو سیٹیں لینے کا دعویٰ بتایا جاتا ہے۔ اس نے الٹ اثر کیا۔ بھارتی مسلمان، دیگر اقلیتیوں اور خاص کر دلت آبادی کو یہ خدشہ لاحق ہوا کہ مودی جی بڑی اکثریت لے کر آئے تو وہ بھارتی آئین بدل دیں گے اور انہیں حاصل کوٹہ سسٹم ختم ہوجائے گا۔ مودی نے اس بار خود کو دیوتا اور اوتار بنانے کی جو مصنوعی کوشش کی، وہ بھی بیک فائرکر گئی۔
ایک اہم فیکٹر یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ یہ الیکشن اتنے شفاف بھی نہیں تھے، پری پول رگنگ اور الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے غلط استعمال کے الزامات لگے ہیں۔ بھارت میں اسٹیبلشمنٹ اور اہم اداروں میں بی جے پی نے پچھلے دس برسوں کے دوران جو گہرا اثرورسوخ حاصل کیا ہے، وہ ان کے کام آیا۔ راہول گاندھی نے صاف لفظوں میں یہ بیان دیا ہے کہ بھارتی ایجنسیاں (یعنی ملٹری اسٹیبلشمنٹ)، بیورو کریسی اور نصف کے لگ بھگ عدلیہ ان کے مخالف تھی اور ان سب کا مقابلہ کرکے وہ کامیاب ہوئے۔ بظاہر الیکشن کمیشن نے بھی بی جے پی کو سپورٹ کیاا ور خواہ مخواہ ووٹروں کی گنتی سست کر دی، اس کا کوئی جواز نہیں فراہم کیا جا سکا۔ اسی طرح بھارتی میڈیا اور بڑے کارپوریٹ گروپ بھی مودی جی کے ساتھ تھے، یہی وجہ ہے کہ ان کو خاطر خواہ کامیابی نہ ملنے کی خبر نے گوتم اڈوانی جیسے ارب پتی سرمایہ کار کو پچیس ارب ڈالر کے قریب نقصان پہنچایا۔
بی جے پی نے عام آدمی پارٹی کے اروند کیجروال کو وزیراعلیٰ ہونے کے باوجود جیل بھیجا، کئی اہم اپوزیشن لیڈروں کے خلاف پرچے کئے، انہیں جیلوں میں بھیجا اور مسلسل سیاسی جبر کا نشانہ بنائے رکھا۔ اگر یہ سب نہ ہوتا تو آج کانگریس اتحاد حکومت میں ہوتا۔ اس الیکشن نے البتہ بی جے پی کے زوال کی خبر دے دی ہے۔ وہ کمزور مخلوط حکومت بنائیں گے اور ریاستی انتخابات میں بھی مزید دھچکوں سے دوچار ہوں گے۔ یہ لگ رہا کہ اگلے عام انتخابات میں بی جے پی کو اپوزیشن میں بیٹھنا پڑسکتا ہے۔