افغانستان میں کیا ہور ہا ہے؟
پاکستان میں داخلی سطح پر کوئی نہ کوئی ایسا مسئلہ گردش کرتا رہتا ہے کہ ہمارے میڈیا اور سوشل میڈیا دونوں کی توجہ ادھر ہی مرکوز رہتی ہے۔ سوشل میڈیا پر تو خیر ہر روز کوئی نیا ٹرینڈآ جاتا ہے۔ ٹوئٹر پر ٹرینڈز بدلتے رہتے، اوپر نیچے جاتے رہتے ہیں، فیس بک کا پیٹرن مختلف ہے۔ وہاں ایک ایشو گرم ہونے میں چند گھنٹے لیتا ہے، چوبیس گھنٹے کے بعد اگر کچھ نیا نہیں آیا تو یار لوگ اکتانے لگتے ہیں۔ اڑتالیس گھنٹوں یعنی دو دنوں کے بعد نئے ایشو پر ماردھاڑ کے لئے سب مضطرب ہونے لگتے ہیں۔ ارطغرل ڈرامہ میں ارطغرل کے جنگجو ساتھی خاص کر بامسی اور ترگت چند دن فارغ بیٹھیں تو اکتا کر کسی جنگی مہم کی دعا مانگنے لگتے ہیں۔ جنگجوئوں کا یہ خاص مزاج ہے۔ سوشل میڈیا نے اچھے بھلے امن پسندوں کو بھی پوسٹوں کے حوالے سے جنگجو بنا دیا ہے۔ کچھ اور نہ ملے تو کہیں نہ کہیں سے ویڈیو برآمد کر لی جاتی ہے۔ کبھی "کرنل کی بیوی " تو کبھی" ٹھیکے دار کی بیٹی "کے ہیش ٹیگ، ٹرینڈز چلتے رہتے ہیں۔ اس مارا ماری میں اپنے ملک سے باہر دیکھنے کی فرصت نہیں مل پاتی۔
افغانستان ہمارے میڈیا کی نظروں سے بھی کسی حد تک اوجھل ہے۔ وہاں مگر خاصا کچھ ہو رہا ہے، ایسا جو پاکستانیوں کے لئے دلچسپی کا باعث بنے۔ عید کے فوری بعد چھبیس مئی کو ممتاز امریکی اخبارنیویارک ٹائمز نے طالبان، افغانستان اور مستقبل کے حوالے سے خاصی طویل رپورٹ شائع کی ہے۔ یہ امریکہ کا اہم اور وقیع اخبار ہے، رپورٹ میں بہت سے زاویوں کو کور کیا گیا۔ طالبان کے حوالے سے معروف مغربی تعصب بھی کہیں کہیں جھلکتا ہے۔ اخبار کے نمائندوں نے مقامی کمانڈروں سے بات کی اور ان کا ذہن سمجھنے کی کوشش کی۔
افغانستان میں اب یہ توواضح ہے کہ امریکی اپنا بوریا بستر لپیٹ رہے ہیں۔ امن معاہدے کے مطابق اکتوبر تک چند ہزار امریکی فوجیوں کا انخلا ہوجانا چاہیے۔ اگر صدر ٹرمپ الیکشن جیت گئے تو پھر اگلے سال کے وسط تک امریکی فوج کی افغانستان میں موجودگی بڑی حد تک کم ہوجائے گی۔ یہ سوچنا مگر حماقت ہے کہ امریکہ سب کچھ ایسے چھوڑ چھاڑ کر چلا جائے گا یا وہ مستقبل کے افغانستان میں اپنے اثرورسوخ کا انتظام نہیں کرے گا۔ خیر وہ تو اگلا مرحلہ ہے، اصل مسئلہ اس وقت یہ ہے کہ امریکہ کے بعد (Post America) افغانستان میں کس کا پلہ بھاری ہوگا، کون حکومت کرے گا؟ اس وقت کابل پر جو حکمران سیٹ اپ موجود ہے، اسے اپنی قوت اور اوقات کا بڑی حد تک اندازہ ہے۔ امریکی فوجی معاونت اور سپورٹ کے بغیر ان کے لئے زیادہ عرصہ افغانستان پر کنٹرول رکھنا آسان نہیں۔
امریکہ نے طالبان کے ساتھ مذاکرات دو وجوہات کی بنا پر کئے۔ پہلا یہ کہ واپسی کو محفوظ بنایا جا سکے، ان کے فوجی قافلوں پر طالبان حملے نہ کریں۔ دوسرا افغانستان میں نوے کے عشرے والی صورتحال پیدا نہ ہوجائے۔ امریکی ماہرین یہ اعتراف کرتے ہیں کہ سوویت یونین کی فوجوں کی واپسی کے بعد انہوں نے افغانستان کوا س کے حال پر چھوڑ کر واپسی کی راہ لی تھی، جس کا نقصان یہ ہوا کہ خانہ جنگی ہوتی رہی اور پھر طالبان دور میں القاعدہ جیسی امریکہ مخالف تنظیموں کوجگہ مل گئی جنہوں نے نائن الیون کر ڈالا۔ امریکی اس لئے چاہتے ہیں کہ افغانستان میں ایسا کوئی سیٹ اپ بن جائے جوامریکہ مخالف نہ ہو اور جس میں پر و امریکن عناصر بھی مناسب قوت میں موجود ہوں۔
امریکہ کی اپنی صورتحال بھی دلچسپ ہے۔ صدر ٹرمپ الیکشن میں ایک ایسے نجات دہندہ کے طور پر جانا چاہتے ہیں جس نے امریکہ کی افغانستان کی طویل جنگ سے جان چھڑا دی، افغانستان میں فوج رکھنے پر امریکہ کا جو خرچ اٹھنا تھا وہ اربوں ڈالر امریکیوں کے لئے امریکہ کے اندر ہی استعمال ہوں گے۔ صدر ٹرمپ نے اس معاملے میں اتنی عجلت ظاہر کی کہ امریکی ڈیفنس اسٹیبلشمنٹ پریشان ہوگئی۔ امریکہ میں صدر کے علاوہ یا اس کے نیچے طاقت کے دو اہم مراکز ہیں۔ وزارت دفاع یعنی پنٹا گون اوروزارت خارجہ یعنی سٹیٹ آفس۔ کہا جاتا ہے کہ جنگ کے دنوں میں پنٹاگون کا سٹیٹ آفس پر غلبہ ہوجاتا ہے اور حالت امن میں وزارت خارجہ کے سویلین وزارت دفاع کے جرنیلوں پر غالب آ جاتے ہیں۔ سی آئی اے کا اپنا ایک الگ ہی کردار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سویلین بالادستی کا جس قدرنام لیا جائے، اتنی بڑی خفیہ ایجنسیاں بہت کچھ اپنے طور پر کرتی رہتی ہیں۔ انہیں مکمل طور پر کنٹرول کرنا ممکن نہیں رہتا۔۔ صدر اوباما جب امریکی صدر بنے تو انہوں نے خاص طور سے لیون پنیٹا کو سی آئی اے کا سربراہ بنایا۔ اس وقت کہا گیا تھا کہ امریکی صدر بے مہار امریکی ایجنسی کو کنٹرول میں لانے کے لئے لیون پنیٹا جیسا مضبوط ایڈمنسٹریٹر لے آئے ہیں۔
امریکی سسٹم میں اصل لیڈر یا چیف ایگزیکٹو تومنتخب امریکی صدر ہوتا ہے۔ وائٹ ہائوس کی ٹیم کا بہت اہم کردار ہے۔ کئی اہم تقرریوں میں چونکہ امریکی سینٹ کی منظوری لازمی ہے، اس لئے سینٹ میں حکمران جماعت کی بالادستی کا ہونا یا نہ ہونا بھی اہم فیکٹر بن جاتاہے۔ امریکہ میں عدالتیں پاکستان، بھارت کی طرح جوڈیشل ایکٹو ازم کا مظاہر ہ نہیں کرتیں۔ وہاں سپریم کورٹ میں چند ایک کیسز ہی جاتے ہیں جن کی خاص آئینی اہمیت ہو۔ صدر ٹرمپ کے بعض فیصلے امریکی عدالتوں نے اڑا دئیے، مگر یہ معمول نہیں۔ یہ تفصیل اس لئے بیان کی کہ افغانستان کے حوالے سے امریکہ میں موجود کشمکش کو سمجھنا آسان ہوجائے۔ اس وقت پوزیشن یہ ہے کہ صدر یعنی وائٹ ہائوس اور وزارت خارجہ یعنی سٹیٹ آفس افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا اور امن مذاکرات کو آگے بڑھانا چاہ رہا ہے۔ زلمے خلیل زادکو صدر ٹرمپ نے یہی ٹاسک سونپ رکھا ہے۔ امریکہ کے اندر مگر پنٹا گون اس حوالے سے زیادہ پرجوش نہیں۔ وہ عجلت میں ایسا کچھ نہیں کرنا چاہتے جس سے طالبان کو نفسیاتی برتری ملے اور افغان حکومت کمزور پڑ جائے۔ پنٹا گون کا خیال ہے کہ عجلت کرنے سے ان کے افغان حامی کمزور پڑ جائیں گے اور یوں طالبان ماضی کی طرح چھا جائیں گے۔ یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ امریکہ میں سول ملٹری میں ہماری طرح کی کشمکش نہیں ہوتی اور چونکہ امریکہ مستحکم جمہوریت ہے، اس لئے کھل کر صدر کی اتھارٹی کو چیلنج کرنے کی کوئی جرات نہیں کر سکتا۔ ایسا مگر دو تین بار ہوچکا ہے کہ امریکی وزیرخارجہ کوئی بیان دیتے ہیں، مگر عملاً اس کے برعکس ہوتا ہے۔ اشرف غنی کی افغان حکومت نے طالبان سے مذاکرات کے لئے بنیادی شرط یعنی طالبان قیدیوں کی رہائی میں تاخیر سے کام لیا، بہانے بنائے تو دبائو ڈالنے کے لئے مائیک پومپیو نے کہا کہ تعاون نہ کرنے پر امریکہ افغان حکومت کی امداد سے ایک ارب ڈالرکی کٹوتی کر رہا ہے۔ یہ بڑااعلان تھا، چونکہ افغان حکومت یہ افورڈ ہی نہیں کر سکتی کہ امریکی امداد میں کمی ہو۔ اعلان کو چند ماہ ہوگئے، معروف خبر رساں ایجنسی رائٹرکو خیال آیا کہ اس پر فالو اپ لینا چاہیے۔ انہوں نے تحقیق کی اور پنٹاگون میں اپنے ذرائع سے معلوم کیا تو پتہ چلا کہ حکومتی اعلان کے برعکس پنٹا گون نے کسی قسم کی کٹوتی نہیں کی اور نہ ہی وہ اس موڈ میں ہیں۔ بعض مغربی تجزیہ کاروں کا تو یہ بھی ماننا ہے کہ طالبان امریکہ معاہدہ چند ماہ پہلے اسی پنٹا گون کے اندرونی دبائو کے باعث ملتوی ہوا تھا۔ ویسے تو صدر ٹرمپ یا سٹیٹ آفس بھی امریکی مفادات کو نظرانداز نہیں کر سکتے۔ سپرپاورز کا ہر محکمہ اپنے مفادات سب سے پہلے سامنے رکھتا ہے۔ یہ ہمارے جیسے ملکوں میں ہے کہ بیوروکریٹ یا وزراغیر ملکی کمپنیوں سے ایسے معاہدے کر لیتے ہیں کہ بعد میں ان پر نظرثانی بھی نہیں ہوسکتی، اپنے ہاتھ کاٹ کر غیروں کے حوالے کر دئیے جاتے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے پچھلے دنوں میں دانستہ مکس سگنل دئیے۔ یہ بھی کہا کہ ہم افغانستان سے جا سکتے ہیں تو واپس بھی آ سکتے ہیں۔ اب ایک اہم امریکی اہلکار نے کہا کہ ضروری نہیں ہم اکتوبر میں زیادہ امریکی فوجی واپس بلا لیں، ہم طالبان کے طرز عمل پر نظر رکھے ہوئے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ مطلب یہ اشارہ دینا تھا کہ ہمیں ایزی نہ لو۔
افغان حکومت کا ایک مسئلہ تو ختم ہوگیا ہے۔ الیکشن کے بعد اشرف غنی کی جیت کو ان کے حریف ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے تسلیم نہیں کیا تھا۔ انہوں نے متوازی حکومت بنانے کا اعلان کیا تھا۔ امریکہ اور بعض دیگر قوتوں کی کوششوں سے اب ان کا تصفیہ ہوچکا ہے، طالبان قیدیوں کی رہائی میں بھی تیزی آ گئی ہے۔ یوں انٹرافغان ڈائیلاگ کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ مذاکرات کو لیڈ کریں گے۔ ان کے ساتھ ازبک، ہزارہ نمائندے بھی شامل ہیں۔ اشرف غنی پشتون ہیں۔ طالبان کی بھی اصل سپورٹ پشتون آبادی میں ہے، اگرچہ اب وہ اپنی سپورٹ دیگر کمیونٹیز میں بھی پھیلا رہے ہیں۔ مستقبل کے افغان سیٹ اپ میں پشتون برتری ایک طے شدہ امر ہے کہ افغان روایت میں حکمران ہمیشہ پشتون رہا ہے۔ طالبان کے آنے کا مطلب اشرف غنی کا جانا ہے۔ ایسے مذاکرات میں ان کا بیٹھنا آسان نہیں، جس کے نتیجے میں ان کا اقتدار ہی چلا جائے۔ ڈاکٹر عبداللہ کے لئے البتہ آسان ہے کہ وہ مستقبل کے سیٹ اپ میں تاجک، ازبک، ہزارہ کے شیئر کی بات کریں گے، جس کے لئے طالبان بھی ذہنی طور پر تیارہوں گے۔
افغانستان میں جاری کشمکش کے کئی پہلو ئوں پربات ہونا باقی ہے۔ اگلی نشست میں ان شااللہ امریکی اخبار کی رپورٹ پر بھی بات ہوگی۔