سانحہ کوئٹہ!
سب سے پہلے تو اس سوال کا جواب دینا ضروری ہے کہ ریاست کیوں وجود میں آتی ہے؟ اور ریاست حاصل کرنے یا بنانے کے عمل یعنی "اسٹیٹ فارمیشن" کو کس طرح آگے لے جایا جاسکتا ہے؟ دنیا میں جتنی بھی ریاستیں قائم ہوئیں اُن کا سب سے پہلا اصول عوام کے جان ومال کا تحفظ تھا۔ صحت، تعلیم اور دیگر بنیادی ضرورتیں تو بعد میں شامل ہوئیں۔
مشہور امریکی پولیٹیکل محقق فوقویاما اپنی کتاب"دی اوریجن آف پولیٹیکل آرڈر"میں ریاست کی تشکیل، کامیاب اور ناکام ریاست سمیت دوسری چیزوں پر بحث کرتے ہیں۔ وہ افغانستان سمیت دوسرے ملکوں کے ریاستی اداروں کی کمزوریوں کی وجوہات پر بھی روشنی ڈالتے ہیں۔ اُن کے مطابق اگر ریاست اپنے شہریوں کے جان و مال کے تحفظ سے ہی غافل ہو جائے تو اُس کا وجود خطرے میں پڑسکتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ریاست ہمیشہ خطرات کو بھانپ کر قائم کی جاتی ہے، جب کہ اس کی کامیابی اور اس میں موجود لوگوں کی ترقی کا راز ریاستی اداروں اور ریاست کو چلانے والے لوگوں پر منحصرہوتاہے۔ الغرض ایک دوسرے کے حقوق، مفادات کی حفاظت اور اجتماعی و انفرادی قوانین کے تحفظ کے لیے ریاست قائم ہوتی ہے، لہٰذاجان ومال کے تحفظ کی ذمے داری ریاست پر عائد ہوتی ہے، ریاست اسی لیے ٹیکس لیتی ہے اور ریاستی باشندہ اسی لیے بخوشی ٹیکس دیتا ہے۔
لیکن اگر جان کی امان نہ رہے اور ریاست میں آپ کے لیے عدم تحفظ بڑھ جائے تو وہاں رکنے پر بھی سوالیہ نشان بن جاتا ہے، سنا تھا کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے مگر یہاں تو سانحے اور بدترین حادثات بھی اپنے آپ کو دہراتے ہیں۔ کوئی زخموں کی رفو گری کرتا ہے نہ کہیں سے بہتری کی آثار دکھائی دیتے ہیں۔ یہ جنوری 2021 ہے۔ ہزارہ برادری کے مزدوروں کے لاشے لیے ان کے لواحقین اس یخ بستہ سردی میں دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔
ان مظلوموں کو 2 جنوری کو بولان کے علاقے مچھ میں دہشت گردوں نے ظالمانہ طریقے سے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ اس بستی میں جہاں انصاف ایک جنس نایاب ہے، ان مظلوموں کے لواحقین اپنے پیاروں کی لاشیں لیے احتجاج کر رہے ہیں۔ انھوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس وقت تک دریدہ بدن، لاشوں کو نہیں دفنائیں گے جب تک وزیراعظم عمران خان ان کے پاس مذاکرات کے لیے نہ آئیں، وزیر اعظم نے جلد یا بدیر وہاں ہوں گے، لیکن اُن کے جانے سے کیا دہشت گردی رُک جائے گی؟ نہیں ہر گز نہیں، بلکہ یہ کام تو حکومتی اداروں کا ہے، جن کی ڈیوٹی ہوتی ہے کہ ہر ریاستی شہری کو تحفظ فراہم کریں۔
بلوچستان میں ہزارہ برادری گزشتہ 18برسوں میں دو ہزار سے زیادہ پیارے کھو چکی ہے۔ تاہم ہزارہ تنظیموں کے مطابق قتل کیے جانے والے افراد کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ کوئٹہ میں ہزارہ برادری پر حملوں کا آغاز جنرل پرویز مشرف کے دور میں ہوا تھا۔ اس پرامن اور محنتی کمیونٹی کو خود کش حملوں، ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں کے ذریعے طویل عرصہ سے نشانہ بنایا جارہا ہے۔ گزشتہ برس اپریل میں کوئٹہ کی سبزی منڈی میں دھماکا ہوا تھا جس میں ہزارہ برادری کے 20افرادموت کے منہ میں چلے گئے تھے۔ پھر 2013 میں 100سے زائد ہزارہ افراد بم دھماکے میں جاں بحق ہوگئے تھے، اگر اس سے مزید پیچھے جائیں تو 8 جون 2003ء کو 13زیر تربیت پولیس کیڈٹس کو نشانہ بنایا گیا۔
4 جولائی 2003 کو کوئٹہ کی ایک امام بارگاہ کو نماز جمعہ کے دوران نشانہ بنایا گیا اور51افراد لقمہ اجل بنے۔ 2 مارچ 2004 کو کوئٹہ میں 36افراد مارے گئے۔ 2009 میں پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزیر تعلیم شفیق احمد خان کو کوئٹہ شہر میں دن دہاڑے قتل کردیا گیا۔ ان بہیمانہ واقعات میں ملوث کسی ایک ملزم کو بھی گرفتار نہ کیا جاسکا اور یہ سلسلہ جاری رہا۔ چند سال قبل دو افراد پکڑے گئے اور انھوں نے اعتراف کیا کہ وہ ہزارہ برادری کے خلاف قتل و غارت میں ملوث ہیں لیکن یہ دونوں افراد پولیس کی تحویل سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔
ہم تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہزارہ برادری نسلاً منگول ہے۔ افغانستان میں ہزارہ خاصی بڑی تعداد میں آباد ہیں مگر وہاں بھی وہ اقلیت میں ہیں۔ وہاں ان کی آبادی تقریباًپینتیس لاکھ ہے۔ یہ لوگ زیادہ تر جن علاقوں میں رہتے ہیں انھیں ہزارہ جات کہا جاتا ہے جس میں غور، بامیان اور دائی کنڈی شامل ہیں۔ افغانستان کے حکمران عبدالرحمان نے1893میں اس وقت تک آزاد اورخود مختاری کے حامل ہزارہ جات کو فتح کیا تو ان کا قتل عام کیا۔
مورخین نے لکھاہے کہ عبدالرحمان نے نصف ہزارہ آبادی کو تہہ تیغ کردیا تھا۔ اپنی جانیں بچانے کے لیے بڑی تعداد میں ہزارہ قبیلے کے لوگ ایران اور بلوچستان میں ہجرت کرکے آباد ہوئے۔ افغانستان میں طویل عرصہ تک ہزارہ قبیلہ کے لوگوں کو غلام بنانے کا رواج رہا، جب غلامی ختم ہوگئی تب بھی ان کو نچلے درجہ کے شہری کا درجہ دیا گیا۔ وہ خاکروب کا کام کرتے تھے یا ایسے کام کاج جو اکثریتی آبادی خودکرنا معیوب تصور کرتے تھے۔ افغانستان میں طالبان کے پانچ سالہ دورِ حکومت (1996-2001)میں بھی ہزارہ برادری کا دبایا گیا۔
یہی وجہ ہے کہ ہزارہ برادری نے طالبان مخالف شمالی اتحاد کا ساتھ دیالیکن ان کا تحفظ پھر بھی غیر یقینی رہا۔ خیر پاکستان میں ان کی کل آبادی تقریباً آٹھ لاکھ بتائی جاتی ہے۔ یہاں ان کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں ہوا۔ کوئٹہ کی ہزارہ برادری میں تعلیم کی شرح دیگر ذاتوں اور قبیلوں کی نسبت زیادہ ہے۔
ان کی بڑی تعداد خوشحال ہے اورکوئٹہ میں اچھی خاصی جائیداد کی مالک ہے۔ یہ لوگ اعلیٰ حکومتی عہدوں پر بھی فائز رہے، جیسے ہزارہ برادری کو آج بھی اپنے سپوت جنرل موسیٰ خان پر فخر ہے جو 1965 کی جنگ میں آرمی چیف تھا اور بعدازاں دو مرتبہ گورنر بھی بنایا گیا، پھر ہزارہ برادری کے کئی علماء نے تحریک پاکستان میں قائداعظم ؒ کی حمایت کی تھی، الغرض ہزارہ نسل کے لوگ کوئٹہ اور کراچی سمیت پاکستان کے مختلف شہروں میں پھیلے ہوئے ہیں اور جنرل موسیٰ خان کی طرح پاکستان سے محبت کرنے والے لوگ ہیں لیکن افسوس صد افسوس کہ آج پاکستان سے ان کی محبت کا امتحان لیا جا رہا ہے۔ کوئٹہ میں آئے دن ہزارہ برادری کو ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ کبھی منتخب اراکین کو قتل کیا جاتا ہے تو کبھی زائرین کی بسوں اور مزدوروں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ بقول ساحر لدھیانوی کے
ہم امن چاہتے ہیں مگر ظلم کے خلاف
گر جنگ لازمی ہے تو پھر جنگ ہی سہی
ظالم کو جو نہ روکے وہ شامل ہے ظلم ہے
قاتل کو جو نہ ٹوکے وہ قاتل کے ساتھ ہے
خیر اس روداد کا مقصد یہ ہے کہ ہم نے مذہبی، نسلی اور ثقافتی اقلیتوں کی کیا حفاظت کرنی ہے، ہم سے تو اپنی حفاظت نہیں ہو رہی، ہم تو مذہبی انتہاپسندی سے ہی نہیں نکل پائے، ہم نے اگر مختلف قسم کے تعصبات کی بنیاد پر کمزور ہم وطنوں کو قتل کرنا ہے تو دشمن سے کیا گلہ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ریاست اور سیکیورٹی ادارے دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو کیفرکردار تک پہنچانے میں ناکام کیوں ہیں؟ میرے خیال میں ہزارہ برادری اور ملک کی دیگراقلیتوں کے تحفظ کی ذمے داری ریاست کے لیے امتحان بن چکی ہے۔ دوسرے الفاظ میں ہزارہ برادری کے دشمن پاکستان کے دشمن ہیں۔
ان دشمنوں کو ناکام بنانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ریاست بے رحمانہ ایکشن لے، قومی ادارے اپنی پوری قوت سے دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کی سرکوبی کریں، پاکستان کے اندر ایسے درندہ صفت گروہوں اور ان کے سہولت کا، چاہیے، وہ مذہبی لبادہ اوڑھے ہوئے ہوں، چاہیے قوم پرستی کا لبادے میں ہوں، چاہیے کسی فلاح ادارے یا کاروباری کا روپ دھارے ہوئے ہوں، ان کو آہنی ہاتھوں سے کچل دیا جائے ورنہ ریاست کا امتحان خاکم بدہن پچھاوے میں بھی بدل سکتا ہے۔