جو کر سکتے تھے کر کے دکھا دیا
صدر مملکت جناب عارف علوی صاحب قہقہہ بار اور قہقہہ آور شخصیت ہیں۔ سلیس زبان میں طنز فرمانا بھی جانتے ہیں۔ اتفاق کچھ ایسا ہے کہ لوگ ان کے طنز کو اکثر مزاح سمجھ لیتے ہیں اور مزاح کو طنز۔ گزشتہ روز فرمایا، صحت کا شعبہ ہماری حکومت کی پہلی ترجیح ہے۔ ہر ترجیح بظاہر پنجاب پر ہی نافذ ہوگی۔ اس لئے کہ پختونخواہ میں تو پہلے ہی نافذ ہو چکی اور سندھ کا صوبہ ان کے دائرہ حکومت سے باہر ہے۔ پنجاب میں اب کیا ہو گا بلکہ کیا ہو رہا ہے، کچھ زیادہ وضاحت کی ضرورت نہیں۔ ان کی پہلی ترجیح جب پختونخواہ میں نافذ ہوئی تو یہ ہوا کہ چند ہی برسوں بعد لوگ یعنی مریض علاج کے لئے پنجاب کے ہسپتالوں کا رخ کرنے لگے۔ سڑک پر حادثہ ہوتا تو زخمی چلاتا تھا، ارے کوئی مجھے پنجاب کے ہسپتال پہنچا دے۔ اب جبکہ یہ ترجیح پنجاب میں بھی نافذ ہونے لگی ہے تو سوچئے، پنجاب کے مریض کس صوبے کا رخ کریں گے؟ بظاہر آزاد کشمیر ہی نزدیک پڑتا ہے۔ وہاں کی حکومت کو ابھی سے ہسپتالوں میں توسیع کا عمل شروع کر دینا چاہیے۔ پنجاب کا حال تو یہ ہونے والا ہے کہ ع"ڈھونڈ ان اجڑے خرابوں میں "شفا "کے موتی"پختونخواہ کے ہسپتالوں کی حالت ایسی ہے کہ ایک ڈیڑھ ماہ پہلے بھی ان کے بارے میں ریمارکس آ چکے ہیں۔ مزید کچھ کیا کہیے کہ بات ناگفتنی ہے۔ ناگفتنی کا تعلق ناگفتہ بہ سے بھی ہے۔ ناگفتنی ایسی بات کو کہتے ہیں جو کہی تو جا سکتی ہو لیکن کرنے کی ہمت نہ ہو اور ناگفتہ بہ ایسی بات جس کو پوری طرح واضح کرنے میں قوت کلام عاجز ہو۔ تبدیلی سرکار نے ناگفتہ بہ اور ناگفتنی کا رشتہ جوڑ دیا ہے۔ پنجاب میں صحت کو ترجیح تو واضح ہے۔ بجٹ انقلابی حد تک کم ہو چکا ہے اب کل ہی بزدار صاحب نے ارشاد کیا ہے کہ تعلیم پر خصوصی توجہ دیں گے یعنی سکولوں کا بھی وہی معیار قائم کریں گے جو پختونخواہ میں کیا۔ ٭٭٭٭٭صادق آباد کے نزدیک تخریب کاروں نے سوئی گیس کی پائپ لائن دھماکے سے اڑا دی۔ یہ وہ کام ہے جو پنجاب میں اب تک نہیں ہوا تھا۔ بلوچستان میں اکثر، سندھ میں کبھی کبھی ہوتا تھا۔ گویا ایک اور تبدیلی آ گئی۔ یہ تبدیلی جنوب سے پنجاب میں داخل ہوئی ہے۔ بلوچستان سے یاد آیا، پچھلے ہفتے کی رپورٹ ہے کہ سال گزراں میں دہشت گردی اور تخریب کاری 24فیصد بڑھ گئی۔ شکر ہے، ایک فیصد کم رہی ورنہ 25فیصد ہو جاتی۔ اس سے پہلے سکون کی کیفیت بڑھ چکی تھی۔ اب گویا اس معاملے میں بھی "تبدیلی" آ رہی ہے۔ کراچی میں جرائم کا پھر زور ہے، ہر صنف جرم کے سخنور سہرا بندی کر رہے ہیں۔ اسے بھی تبدیلی سمجھئے۔ پختونخواہ تو جرائم میں پہلے ہی طرّہ بالا بلند رکھتا تھا۔ اب پنجاب بھی جرائم، ڈکیتی، ڈکیتی مرڈر، بچوں کا اغوا برائے قتل وغیرہ میں منزلوں پر منزلیں مار رہا ہے۔ ٭٭٭٭٭جماعت اسلامی نے صورت حال پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ معیشت تیزی سے برباد ہو رہی ہے۔ لگتا ہے حکومت کے پاس پالیسی ہے نہ ٹیم۔ پالیسی نہ ہونے کی بابت تو کچھ کہا نہیں جا سکتا لیکن ٹیم نہ ہونے والی بات غلط ہے۔ موجودہ حکومت کے پاس جتنی بڑی ٹیم ہے، اتنی تو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے پاس ملا کر بھی نہیں تھی۔ ذرا وفاقی وزیروں، وزرائے مملکت، خصوصی مشیروں اور وزیر اعظم کے معاونین خصوصی کی فہرست پر نظر دوڑا کر دیکھئے، تھک کر لوٹ آئے گی اور فہرست پھر بھی ختم نہیں ہو گی اور تو اور دساور سے بھی مشیر منگوائے گئے ہیں ان گنت ٹاسک فورسز کے چیئرمین الگ ہیں۔ اے جماعت اسلامی والوں، پہلے تحقیق کر لیا کرو، پھر بات کیا کرو۔ ٭٭٭٭٭خبر ہے کہ پروٹوکول کے معاملے میں گورنر پنجاب چودھری سرورسب پر بازی لے گئے۔ صدر مملکت عارف علوی کیا پیچھے رہ گئے؟ یقین نہیں آتا۔ اور گورنر سندھ بھی؟ یقین نہیں آتا۔ بہرحال خبر سچ ہے تو موخر الذکر ہر دو حضرات کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ وزیر اعظم البتہ پروٹوکول کے جھنجھٹ سے آزاد ہو گئے۔ ان کا خصوصی طیارہ فضائوں میں اڑا اڑا پھرتا ہے۔ سڑک کے پار جانا ہو تب بھی جہاز لے اڑتے ہیں۔ اب فضائوں میں کہیں پروٹوکول۔ ٭٭٭٭٭ایک انصاف پسند دانشور ٹی وی پر بتا رہے تھے، خاں صاحب خود تو بہت لائق فائق، وژن والے ہیں اور بہت نیک نیت بھی لیکن کیا کریں۔ ان کی ٹیم کچھ ڈیلیور نہیں کر پا رہی۔ خاں صاحب کے ایک پرجوش عقیدت مند کالم نویس نے پرسوں لکھا، سارے کرپٹ، منی لانڈر اور بنک لوٹنے والے بھرتی کر لئے ہیں البتہ خود وہ بہت اچھے اور اچھی نیت والے ہیں۔ یہ اصحاب کچھ عرصہ پہلے بتایا کرتے تھے، یعنی جیسا ریاست کا والی، ویسے ہی حالی موالی۔ اب یہ کلیہ لگتا ہے بدل گیا، یعنی اس میں بھی تبدیلی آ گئی۔ کچھ قلمکاروں کے علاوہ، خبروں کے مطابق، پی ٹی آئی کے اندر بھی کچھ لوگ معاشی بربادی کا ذمہ دار اسد عمر وزیر خزانہ کو قرار دیتے ہیں۔ یہ سارا عمل زیادتی نہیں؟ پچھلے پانچ برس میں خاں صاحب کی پانچ ہزار تقریریں نکال کر دیکھ لیں (پانچ ہزار ذرا مبالغے والی گنتی ہے، قارئین مناسب کمی کر لیں ) آپ کو خلاصہ بھی یہی ملے گا "میں معیشت کو اچھا کر کے دکھائوں گا، میں 80ہزار ارب کے ٹیکس اکٹھے کر کے دکھائوں گا، میں بجٹ خسارہ کم کر کے دکھائوں گا۔ میں برآمدات بڑھا کے دکھائوں گا۔ میں مہنگائی اور غربت ختم کر کے دکھائونگا۔ میں یہ دکھائونگا، وہ دکھائوں گا۔ ایک بار بھی انہوں نے یہ نہیں کہا کہ اسد عمر یہ کر کے دکھائے گا، اسد عمر وہ کر کے دکھائے گا۔ اب خود فیصلہ کر کے بتائیے کر کے دکھانے کی ذمہ داری کس کی تھی؟ بہرحال خاں صاحب جو کر کے دکھا سکتے تھے، کر کے دکھا دیا،