بدرقہ(2)
کل بات کشتہ گندم اور اس کے بدرقے پر ہوئی اور یاد آیا کہ کشتہ گندم تو جناب آدم بھی تھے لیکن یہ کشتہ اور ہے۔ یہ وہ نہیں ہے جس کی جمع کشتہ جات کہلاتی ہے ,بلکہ یہ وہ کشتہ ہے جس کی جمع کشتگان لکھ کرظاہر کی جاتی ہے۔
کشتگان خنجر تسلیم را
یعنی یہ کشتہ گندم بر "وزن" کشتہ ستم، کشتہ روز گار اور کشتہ فلک ہے ،یا ان کی قبیل سے ہے۔ خدا نے جناب آدم کو گندم کھانے سے مناہی کیا تھا، بلکہ اس کے پودے کے پاس جانے سے بھی روکا تھا ،لیکن ابلیس بدبخت کسی روپ میں آیا اور کچھ اور ہی سمجھایا چنانچہ خطائے اجتہادی سرزد ہوئی اور جس کی پاداش میں جنت سے انخلا کا حکم ملا۔
پرانی کتابوں میں لکھا ہے کہ یہ جنت آسمانوں پر نہیں، اسی زمین پر، اسی خطے میں تھی ،جو آج کل یمن کہلاتا ہے۔ خدا نے پہلے کرہ ارض بنایا، پھر اس کی مٹی کے خمیر سے جملہ اجزا کے متناسب اور موزوں مرکب سے آدم و حوا کو تخلیق کیا اور یمن کی جنت کا مکین بنا دیا۔ حضرت آدمؑ جنت سے نکلے تو ساتھ ہی یمن کو بھی چھوڑ دیا اور سرحد عبور کر کے حجاز داخل ہو گئے۔ معاف کیجئے گا، سرحد تب کہاں تھی، تب تو کوئی ملک ہی نہیں تھا۔ آدم کی نسل بڑھی، پھیلی تب بھی کوئی مسئلہ تھا نہ بحران۔ بحران تب پیدا ہوا جب نسل آدم نے تہذیب کا لبادہ اوڑھا، پھر وطن بھی بنے، قبیلے بھی اور سرحدیں بھی۔
مہذب ہونے کا سفر بہت لمبا تھا۔ تہذیب نے جوں جوں ارتقا کے مرحلے طے کئے یہ تیرا وہ میرا کے جھگڑے پیدا ہوئے اور بڑھتے گئے۔ گویا تہذیب راست متناسب نکلی فتنہ و فساد کی اور فتنہ فساد تو مقدر تھا۔ جب آدمی کا پتلا بنا، فرشتوں نے اس کی کیمیاوی کمپوزیشن پر نظر ڈالی تو پکار اٹھے، یہ تو فساد کرے گا، یہ تو خون بہائے گا۔
تہذیب جوں جوں مہذب ہوتی گئی، مسئلہ ملکیت زمین، سنگین ہوتا گیا۔ پہلے سرحدیں محض علامتی تھیں، پھر اس پر جہاں بنیں، پھر پاسپورٹ بنے اور اس کے بعد ویزے بھی لازم قرار پائے کہ ہوگا تو دوسرے ملک جا سکو گے۔
تہذیب نے مزید ترقی کی اور نادرا جیسے ادارے وجود میں آئے۔ کسی کے پاس پاسپورٹ ہے اور تگ و دو کر کے کہیں کا ویزا بھی لے لیا ہے لیکن ادھر ایئرپورٹ پر جانچ پڑتال ہوئی تو پتہ چلا کہ موصوف آنے سے 31 برس چھ مہینے اور گیارہ دن پہلے کی گئی ریاست مخالف تقریر کی بنا پر تھا نہ دھوپ سڑی کو مطلوب ہیں۔ باہر نہیں جا سکتے، البتہ تھانے چلو اور باقی عمر وہیں سڑو۔
حضرت آ دم ؑیمن سے نکلے، اب ان کی اولاد بھی تھی۔ حجاز میں انہوں نے کعبہ کی تعمیر کی اور یہاں جو آبادی ہوئی اس کا نام پہلے بکہ پھر مکہ پڑا۔ قرآن پاک میں آدم کے خانہ کعبہ بنانے کا ذکر نہیں ہے لیکن یہ لکھا ہے کہ عبادت کے لیے پہلا گھر بکہ میں بنا اور پھر گھر پہلے پیغمبر آدم ہی نے بنایا ہوگا۔ حضرت آدمؑ کے کئی بیٹے ہوئے۔ ایک ہابیل تھا اور دوسرے ان جیسے اور دوسرا قابیل تھا اور بہت سے اس جیسے۔ ہابیل کو سہرے کے پھول کھلنے سے پہلے ہی قابیل نے مار دیا، یوں دنیا کی پہلی قبر وجود میں آئی۔
ہابیل تو لاولد ہی گئے، ان جیسے دوسرے بھائیوں کی اولاد بھی کم ہوئی، زیادہ اولاد قابیل اور اس کے جیسوں کی ہوئی۔ ان کی بھاری اکثریت تھی اور ہے، لگ بھگ دو تہائی نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ۔
قابیل کی اولاد ہر روز، ہر لمحے اپنے وجود کا احساس دلاتی ہے۔ ہابیل کی اولاد ایسی دب گئی کہ وجود کے باوجود بے وجود نظر آتی ہے۔ ابھی کی تازہ خبر دیکھ لیجئے۔ پھول نگر میں گھمن نلی گائوں کے مزدور نذیر نے غربت اور افلاس سے تنگ آ کر اپنی نو سالہ بچی مصباح کو جڑانوالہ کے قابیل زادے عثمان شیخ کے گھر دو ہزار روپے ماہانہ پر ملازم کرادیا۔ اٹھارہ گھنٹے کی روزانہ نوکری۔ دو ہزار بٹا تیس برابر 66 روپے، 66 بٹا 18 برابر 3 روپے 66 پیسے۔ یعنی ساڑھے تین روپے فی گھنٹہ ایک زندہ وجود کے کام کاج کا کرایہ اور مالک نے وہ بھی نہیں دیا اتنا مارا کہ وہ مر گئی۔ اس کے جسم کو استری سے جلایا۔ استری سے جلانے سے موت واقع نہیں ہوئی البتہ موت سے زیادہ اذیت ملتی ہے۔ استری سے کتنی بار اور کتنی مدت تک جلایا ہو گا کہ وہ مر گئی۔
پاکستان میں قابیل زادوں کو خوف ہے نہ خطر۔ ہابیل زادے تو شودروں سے بدتر زندگی گزارتے ہیں۔ حالیہ تین برسوں میں اس اشرافیہ کے وارے نیارے ہو گئے ہیں، ان کی چاندی سونا ہو گئی ہے اور شودروں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ تین سال میں چار کروڑ بڑھ گئے۔ بے روزگاری تین فیصد سے بڑھ کر 16 فیصد ہو گئی۔ گورنر ہائوسز کے اخراجات میں فی مہینہ کروڑوں کا اضافہ ہے۔ وزیروں اور مشیروں کے لیے گاڑیاں پہلے سے زیادہ ہیں۔ گنتی میں بھی اور چم چماہٹ میں بھی۔ پروٹوکول جولیس سیزر کی شان و شوکت کو شرمندہ کرتا ہے۔ خوشی کی بس ایک ہی بات ہے اور وہ یہ کہ پاکستان دنیا کا سب سے سستا ملک ہے۔ افسوس یہ کہ مصباح اس سستے پن سے فائدہ اٹھانے کے لیے زندہ نہیں۔ زندہ ہوتی تو تین روپے 66 پیسے کی خطیر رقم سے بھی نہ جانے خوشیوں کے کتنے ڈھیر خرید لیتی۔
چلتے چلتے۔ ساہیوال سے چودھر ع لطف علی ایک محترم ق