ٹریفک پولیس کی کارکردگی
افراد، گروہ اور قومیں اپنی غلطیوں سے سیکھ کر، انھیں درست کر کے آگے بڑھنے کا سفر جاری رکھتی ہیں۔ اگر غلطی نہ ہو، اگر ٹھوکر نہ لگے تو سمت درست رکھنے میں شدید دشواری پیش آ سکتی ہے۔ مشہور امریکی شاعر اور نقاد عزرا پاؤنڈ نے ایک موقعے پر خوبصورت بات کہی کہ جس کشتی کی منزل متعین نہ ہو اس کے لیے کوئی بھی ہوا موافق نہیں ہو سکتی۔
ہمیں اس بات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ کیا بحیثیتِ قوم ہماری کوئی منزل ہے، کیا ہمارے کوئی اہداف ہیں۔ کیا ایسے نہیں لگتا کہ ہم افراد کا ایک ایسا ہجوم ہیں جن کا کوئی مشترکہ نصب العین نہیں ہے، جن کی منزل اگر کوئی تھی تو وہ گُم ہو کر رہ گئی ہے۔ ہر طرف ایک نفسا نفسی کا عالم ہے۔
ہم میں سے ہر ایک صرف جائز و ناجائز اپنا کام نکالنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ لگتا ہے ہم ہر شعبے میں ڈسپلن سے عاری ہو چکے ہیں۔ کچھ عرصے سے دیکھنے میں آ رہا ہے کہ ہماری شاہراہوں اور سڑکوں پر ٹریفک کا ایک اژدہام ہوتا ہے۔ قانون کی پابندی کرتے ہوئے گاڑی چلانے والے کے لیے انتہائی مشکل بنی ہوتی ہے کہ وہ اپنی منزلِ مقصود پر صحیح سلامت کیسے پہنچ پائے۔
اﷲ کا لاکھ لاکھ شکر ہے ہمارے ہاں اب سڑکوں کی کوئی کمی نہیں۔ ماشا اﷲ سڑکوں اور شاہراہوں کا ایک وسیع نیٹ ورک موجود ہے خاص کر شہری علاقوں میں بہت سڑکیں ہیں لیکن ان سڑکوں کی مناسب دیکھ بھال پچھلے ایک لمبے عرصے سے مفقود ہے۔ اکثر سڑکوں کی حالت خاصی مخدوش ہو چکی ہے۔ بارش کے بعد ہر طرف کھڈے پڑ جاتے ہیں جن کی بر وقت مرمت نہیں کی جاتی۔ اس کا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ کھڈے بڑے اور گہرے ہوتے جاتے ہیں جو ٹریفک کی روانی میں بھی رکاوٹ ڈالتے ہیں، حادثات کا سبب بنتے ہیں اور گاڑیوں کی Wear n Tearکا بھی موجب ہوتے ہیں۔
اگر ہماری سڑکوں کی بروقت مرمت ہوتی رہے اور پھر ان کی دیکھ بھال کے لیے عملہ مستعدی سے کام کرے اور جونہی کوئی مرمت کی ضرورت نظر آئے فوراً عملی قدم اٹھا کر مرمت ہو جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہماری سڑکیں Death Trapesبنیں۔ سڑکیں آمد و رفت کا ذریعہ ہوتی ہیں۔ آمدورفت میں سہولت پیدا کرتی ہیں۔ Connectivity کو ممکن بھی بناتی ہیں اور بڑھاتی بھی ہیں۔ سڑکیں دور دراز علاقوں کو کھول کر علاقے کے لوگوں کے لیے بے شمار مواقعے پیدا کرتی ہیں۔ جہاں سے سڑک گزر جائے علاقے کی قسمت بدل جاتی ہے۔ اس لیے پہلے تو سڑکوں کا ہونا ضروری ہے پھر ان کی دیکھ بھال اور مرمت ضروری ہے اور سب سے بڑھ کر ان پر ٹریفک کو رواں دواں رکھنے کے لیے ڈسپلن نافذ کرنا بہت اہم ہے جو کہ ٹریفک پولیس کی اولین ڈیوٹی ہوتی ہے۔
اگر آپ ٹریفک پولیس کی کارکردگی سے مطمئن ہیں تو مبارک ہو آپ بہت خوش قسمت ہیں لیکن اس حقیقت سے آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں کہ ہر آنے والے دن کے ساتھ ہماری ٹریفک انتہائی بے ہنگم ہوتی جا رہی ہے۔ پاکستان کی آبادی میں بہت زیادہ اضافہ ہو جانے کی وجہ سے اسپتال، اسکول، سڑکیں اور تمام سہولیات کم پڑتی جا رہی ہیں۔ اگر ہم نے اپنی آبادی میں اس بڑھتے اضافے کی روک تھام کی طرف توجہ نہ مبذول کی اور سنجیدہ کوشش نہ کی تو نہ جانے بات کہاں تک جائے۔ آبادی میں اس روز افزوں خطرناک صورتحال کے علاوہ ہماری سڑکوں پر چلنے والی گاڑیوں کی Periodicچیکنگ کا نہ ہونا بھی ہے۔
وہیکل ایگزامینر کا محکمہ تو کہنے کو ہر صوبے اور وفاق میں موجود ہے لیکن یہ محکمہ صرف خانہ پُری کے لیے ہے۔ پاکستان سے باہر سروس کے دوران ایک دو جگہ اپنی ذاتی گاڑی رکھ کے دیکھا کہ وہیکل ایگزامینر کا محکمہ کتنی مستعدی سے کام کرتا ہے اور کوئی بھی ایسی گاڑی جو سڑک پر چلنے کے قابل نہیں ہوتی اسے سڑک پر آنے نہیں دیا جاتا۔ ایک اور شاید سب سے بڑی وجہ سڑکوں پر ٹریفک کو ڈسپلن آشنا رکھنے کے لیے اور ٹریفک قوانین کے عملی نفاذ کے لیے ٹریفک پولیس کا موجود اور مستعد رہنا ہے۔ کچھ عرصے سے دیکھنے میں آ رہا ہے کہ ٹریفک پولیس اپنا کام نہیں کر رہی اور غائب ہوتی جا رہی ہے۔
پاکستان کے دوسرے شہروں کے بارے میں تو حتمی طور پر کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں اور میری دعا ہے کہ میرے وطن کی فضائیں مہک اٹھیں اور پاکستان کے سارے شہروں میں بہترین انتظامات موجود ہوں لیکن راولپنڈی، اسلام آباد کے جڑواں شہروں میں ٹریفک کے انتظامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہاں ٹریفک پولیس یا تو سرے سے نظر ہی نہیں آتی یا پھر اپنی ذمے داریوں سے مکمل پہلوتہی کیے ہوئے ہوتی ہے۔
کوئی تین ہفتے پہلے ایک شادی میں شرکت کی غرض سے راولپنڈی جانے کا اتفاق ہوا۔ راولپنڈی کچہری چوک میں پہنچ کر اشارہ کراس کرنے میں کم و بیش آدھا گھنٹہ بیت گیا۔ ذرا آگے چل کر ٹریفک کا اتنا برا حال تھا کہ الامان و الحفیظ۔ ٹریفک تقریباً رکی ہوئی تھی اور نہ جانے کب سے یہ حال تھا۔ ڈیڑھ کلومیٹر کا فاصلہ دو گھنٹے سے کچھ اوپر وقت لے گیا۔ سب سے حیران کن بات یہ تھی کہ اس سارے وقت میں ایک بھی ٹریفک سارجنٹ نظر نہیں آیا کہ وہ ٹریفک کو ڈسپلن کر کے روانی پیدا کر سکے۔
واپسی پر پھر اسی پریشانی سے دوچار رہنا پڑا۔ ایسے میں جہاں پٹرول اور ڈیزل کا خواہ مخواہ استعمال ہو رہا ہوتا ہے وہیں لوگوں کا قیمتی وقت برباد ہو رہا ہوتا ہے۔ بعض اوقات گاڑیاں ایک دوسرے سے رگڑ کھا کرخراب ہو رہی ہوتی ہیں۔ اگر ٹریفک پولیس اپنے فرائض صحیح انجام دے تو کوئی وجہ نہیں کہ ایسا ہو۔ دس دن پہلے راولپنڈی کے ایک اسپتال جانا تھا۔ جب قائدِ اعظم اسپتال سے ذرا آگے ہوئے تو ٹریفک جام کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں بھی ٹریفک بالکل رکی ہوئی تھی۔ اس سے پہلے مدینۃالحجاج چوک میں کوئی ایسی وارننگ نہیں ملی کہ آگے ٹریفک کی روانی متاثر ہے اس لیے آگے نہ جایا جائے۔
پولیس کو چاہیے تھا کہ ٹریفک کو کسی متبادل رستے کی طرف موڑتی۔ کوئی ایک گھنٹے کی تکلیف دہ صورتحال میں پھنسے رہنے کے بعد ایک جگہ سے واپس مڑنے کی سبیل نظر آئی۔ وہاں سے واپسی کا ٹرن لے کر خدا کا شکر ادا کیا۔ یہاں بھی وہی صورتحال تھی کہ کسی جگہ کوئی ٹریفک پولیس والا نظر نہ آیا۔ ایسے میں عجیب بے بسی طاری ہو جاتی ہے کہ کیا کیا جائے۔ کس سے بات کی جائے، کس سے فریادکی جائے۔
ایک اور انتہائی پریشان کن بات یہ دیکھنے میں آئی کہ 6لین شاہراہ جس کی دونوں طرف تین تین لین ہوتی ہیں۔ ایسی شاہراہیں تمام ممالک میں ابھی نہیں بنی ہیں جب کہ ہمارے ہاں اب ایسی بے شمار شاہراہیں بن چکی ہیں۔ ایک اطلاع کے مطابق چھ لین شاہراہیں ابھی بھارت میں موجود نہیں ہیں۔ ایسی شاہراہ کو بلا شبہ ایک بڑی کھلی سڑک کہہ سکتے ہیں لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ سڑک کی ایک طرف تینوں لینوں میں ٹرک یا بڑی گاڑیاں جا رہی ہوتی ہیں۔ فاسٹ لین کو بھی نہیں چھوڑا جاتا۔ پہلی لین یعنی فاسٹ لین میں بھی ٹرک، دوسری لین میں بھی ٹرک اور تیسری لین میں بھی ٹرک، ٹریکٹر ٹرالی اور بسیں نظر آئیں گی۔
چونکہ یہ سست رفتار گاڑیاں ہوتی ہیں اس لیے ان کے پیچھے ہر قسم کی گاڑیوں کا اژدہام ہوتا ہے۔ اس پر طُرفہ تماشہ یہ ہے کہ ہم پاکستانی جہاں سے ایک گاڑی گزر سکتی ہے وہاں سے دو تیں گاڑیاں گزارنے کی کوشش میں ہوتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ساری ٹریفک جام کر بیٹھتے ہیں۔
ایسے میں اگر ٹریفک پولیس اپنا کام ذمے داری سے کرے اور تیز رفتار گاڑیوں کو فاسٹ لین اور دوسری گاڑیوں کو رفتار کے لحاظ سے دوسری یا تیسری لین میں چلنے کا پابند بنائیں تو ٹریفک کی روانی برقرار رکھی جا سکتی ہے۔ روز افزوں آبادی سے ہر شعبے میں چیلنجز پیدا ہو رہے ہیں۔ پولیس کی کارکردگی عمومی طور پرسوالیہ نشان بنتی دکھائی دے رہی ہے۔ یہ بھی ایک ایسا چیلنج ہے کہ اگر اس کی طرف توجہ نہ کی گئی تو پہلے سے زوال پذیر معاشرہ مزید ابتری اور انتشار کا شکار ہوتا چلا جائے گا۔ کیا ہی اچھا ہو ہم سب مل کر ان چیلنجز سے نبٹنے کی راہ نکالیں۔