سیرت خاتم النبیینﷺ (1)
ربیع الاول کا مہینہ تاریخِ انسانیت میں بہت اہم ہے، اس مہینے میں اﷲ نے انسان کی ابدی ہدایت کے لیے اپنی آخری حجت اُس وقت تمام کر دی جب سیدنا ختم المرسلین محمدﷺ کو اپنے آخری اور قیامت تک رہنے والے پیغام کے ساتھ مکہ مکرمہ، جزیرۃ العرب میں مبعوث کیا۔ اﷲ نے اپنی بے شمار نعمتوں کا تذکرہ کیا ہے لیکن بنی آدم پر صرف ایک احسان جتایا ہے اور وہ احسان محمد الرسول اﷲ کا تا قیامت سارے عالمین کے لیے نبی اور رسول کی حیثیت سے مبعوث ہونا ہے۔ دعا ہے کہ اﷲ کے پاس جو عدد اس کے اپنے علم میں سب سے بڑا ہے اتنی بار محسنِ انسانیت پر رحمتیں نازل فرمائے۔ (آمین)
ہمارے احباب میں سے چند عالی مرتبت بھائیوں کو اپنی سروس کے دوران قرآنِ کریم کے مطالعے کا شوق پیدا ہوا۔ اس گروپ کی خوش قسمتی کہ ابتدائی دنوں ہی میں انھیں قرآن فہمی میں اچھی دسترس اور ساتھ ساتھ عصری علوم پر گہری نگاہ رکھنے والے محترم و مکرم جناب جسٹس ڈاکٹر فدا محمد خان کی رفاقت نصیب ہو گئی۔ اس محفل میں سول سروس کے اعلیٰ افسران کے علاوہ آرمی، ایئر فورس اور نیوی کے اعلیٰ افسران شامل تھے۔
درس کا یہ سلسلہ جسٹس صاحب کی 2019میں وفات تک جاری رہا۔ آپ نے ایسے ہی ایک ربیع الاول کے موقعے پر خصوصی طور پر اس مہینے کی نسبت سے سیرتِ پاکﷺ پر ایک مفصل اور جامع بیان فرمایا۔ جسٹس صاحب کے بیان کو ہمارے مرحوم علم دوست ساتھی اور وزارتِ اطلاعات کے سابق سینئر افسرجناب عبدالطیف الفت صاحب نے مرتب کیا۔ میری انتہائی خوش قسمتی کہ مجھے بھی درس قرآن کی اس محفل میں میرے سینئرز نے کمال شفقت سے بیٹھنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ الفت صاحب کے ساتھ میں نے بھی بیان کو مرتب کرنے میں ان کی مقدور بھر اعانت کی۔
زیرنظر کلمات کا زیادہ تر حصہ جسٹس صاحب کے اسی خوبصورت بیان سے لیا گیا ہے گو کہ اس میں چند اور کتابوں سے بھی استفادہ کر کے اس کو مزید سنوارنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ایک کالم چونکہ سیرتِ پاک کے تمام پہلوئوں کا احاطہ نہیں کر سکتا اس لیے محسنِ انسانیت کے بارے میں چند شعراء کی منظوم رائے اس کالم میں پیش کرنے سے اس سلسلے کی ابتدا کرتے ہیں۔ موقع ملا تو انشاء اﷲ سیرتِ پاک کے مزید پہلو سامنے رکھنے کی سعی ہو گی۔
حضور نبی کریمﷺ کی حیاتِ طیبہ ایک مکمل آئیڈیل کی حیثیت رکھتی ہے اور زندگی کے ہر شعبے میں اس سے رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔ جہاں تک حضور ختم المرسلین کے ذکر مبارک کا تعلق ہے یہ ہر دور میں جاری رہا۔ اﷲ اور اس کے فرشتے نبی پاک پر درود بھیجتے ہیں۔ دنیا میں یہ حضورﷺ کی بعثت سے پہلے بھی جاری رہا۔ آپ کی بعثت سے پہلے مبعوث تمام انبیاء کی کتب اور صحائف آپ کی آمد کا اعلان اور رسالت کی تصدیق کرتے رہے ہیں۔ آپ کی شریعت تمام شریعتوں کو منسوخ کرنے والی ہے۔ سوائے ان احکامات اور پابندیوں کے جو قرآن مجید میں باقی رکھے گئے ہیں اور آپ کی شریعت کے مطابق ہیں۔
انسان جب آپ کی ذاتِ گرامی مرتبت کے بارے میں لب کشائی کی جرات کرتا ہے تو اسے اپنے نطق کے عجز اور درماندگی کا شدید ترین احساس ہوتا ہے۔ آپ کی ذاتِ پاک خلقت اور خلق دونوں پہلوئوں سے اتنی عظیم، اتنی مکمل اور اتنی اعلیٰ ہے کہ اس کی مدحت کا حق انسان کے بس میں ہے ہی نہیں۔ آپﷺ کے دور کے مشہور شاعر اور صحابی حضرت حسان بن ثابت نے فرمایا یعنی آپ سے زیادہ حُسن میری آنکھوں نے نہیں دیکھا۔ اور آپ سے زیادہ جمیل کسی ماں نے نہیں پیدا کیا۔ آپ کو اس طرح ہر عیب سے پاک پیدا کیا گیا، گویا کہ آپ کو ایسے پیدا کیا جیسا خود آپ کی منشاء تھی۔
حضور کے ایک صحابی کا قول ہے کہ چودھویں کے چاند کی روشنی میں وہ کبھی حضور پر نور کے رخِ روشن پر نگاہ ڈالتے اور کبھی چاند کو دیکھتے لیکن انھوں نے یہی محسوس کیا کہ سرکار نبی پاک کا رخِ زیبا بہت زیادہ روشن اور حسین ہے۔ کیوں نہیں، کوئی بھی حسن سرکار کے حسن کے سامنے ماند ہے۔ اسی عجز و انکساری کا اظہار فارسی کے قادرالکلام شعراء حافظ و سعدی نے یہ کہہ کر کر دیا کہ بعد از بزرگ توئی قصہ مختصر اورچہ و صفت کند سعدیء نا تمام۔ اس سلسلے میں ایک اور شاعر نے کہا کہ اے کہ بعد از تو نبوت شد بہر مضمون شرک۔ یعنی آپ کے بعدنبوت کا سلسلہ یوں ختم ہو گیا کہ اب نبوت کا دعویٰ ہی شرک ٹھہرے ہے۔
اس سلسلے میں غالب جیسا شاعر جو زبان و بیان پر اپنی قدرت کے معاملے میں مبالغہ کی حد تک خود دعویٰ دار تھا، سرکارِ دو عالم کی حمد و ثنا کے بارے میں اس طرح دست کش ہوتا ہے۔ غالب ثناء خواجہ ب یزداں گزاشتیم، کان ذاتِ پاک مرتبہ دان محمد است۔ یعنی غالب میں نے خواجہ)رسول اﷲ( کی ثناء اﷲ پر چھوڑ دی ہے اس لیے کہ اسی کی ذاتِ پاک آپ کے مرتبہ اور مقام کو صحیح معنوں میں سمجھتی ہے اور اس کا اصل ادراک رکھتی ہے۔
اسی سلسلے میں اردو زبان کے اولین شعراء میں سے ولی دکنی کا تقریباً اسی معنی کا شعر بھی توجہ طلب ہے، بیچارہ ولی کیست کہ مدح توگوید چوں ہست خدا مدح و ثنا گوئے محمد۔ یعنی ولی بیچارہ کیا حیثیت رکھتا ہے کہ آپﷺ کی مدح کرے کیونکہ خود خدا محمدﷺ کی ) قرآن میں بے شمار جگہ پر (مدح و ثنا کر رہا ہے۔ اور حضرت امیر خسرو نے فرمایا کہ خدا خود میرِ مجلس بود اندر لا مکاں خسرو، محمد شمع محفل بود شب جائے کہ من بودم۔
حضرت مرزا مظہر جانِ جاناں کے مشہور ابیات میں حضور کی مدحت میں یہ فرمایا گیا کہ خدا در انتظار حمد ماہیت محمد چشم بر راہ ثناء نیست۔ حضور ختم المرسلینﷺ کی مدح و ثنا کے معاملے میں حضرت شمس الدین بصیری کا شہرہ آفاق قصیدہ بردہ شریف ایک منفرد اور یکتا مقام کا حامل ہے۔ روایت ہے کہ بصیری شدید علالت میں تھے۔ اسی علالت میں بصیری نے ایک قصیدہ دربارگاہِ ختم المرسلین کہا۔ رات خواب میں دیکھا کہ انھوں نے اپنا لکھا ہوا قصیدہ دربارِ رسالت مآب میں پڑھا۔ سرکار دو عالم نے ان کے جسم کو اپنے دست مبارک سے مس فرمایا نیز ایک چادر عنایت فرمائی۔
جناب بصیری خواب سے بیدار ہوئے۔ شدید فالج کی بیماری نا پید تھی حضور کی عطا کردہ چادر کے طفیل ان کا قصیدہ، قصیدہ بردہ شریف کہلایا۔ اگلے ہی روز جناب بصیری کی ملاقات ایک صاحبِ عرفان بزرگ سے ہوئی تو انھوں نے فرمائش کی کہ وہ قصیدہ جو رات حضور کے دربار میں پیش کیا تھا، ہمیں بھی سنائیے۔ بصیری نے استفسار کیا کہ آپ کو قصیدہ کی خبر کیسے ہوئی۔ بزرگ نے کہا کہ رات کو اس دربارِ دُرِبار میں ہم بھی غلاموں میں کھڑے تھے۔
اردو سے واقف ایک انگریز شاعر جان رابرٹ نے یوں نعت کہی۔ والشمس تھے رخسار تو والّیل تھیں آنکھیں، ایک نور کا سورہ تھا سرا پائے محمدﷺ۔ ارشادِ ربانی کے مطابق حضور سے محبت ایمان کا لازمہ ہے۔ اﷲ اور رسولﷺ کی محبت کا احساس ہی وہ چیز ہے جو عبادت میں معنویت اورجذب و سوز پیدا کرتی ہے۔ ان عبادات کا محرکmotivation خدا کے دربار میں جذبہ عبودیت کا تقاضا بھی اتباع و حب ِرسول سے ہی ممکن ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے، اگر اﷲ کی محبت چاہتے ہو تو میری اتباع کرو، اﷲ تم سے محبت کرے گا۔
سورۃ آلِ عمران آیت 31.۔ ہندو شاعر الن جون نے کیا خوب کہا ہے، اگر تم دیکھنا چاہو خدا کو۔ کرو راضی محمد مصطفی ﷺ کو۔ دعا ہے ہم سب رسول اﷲ کی محبت اور اتباع کے ذریعے روزِ محشر سرخرو ہوں۔ اﷲ کی معرفت کا یہی ایک سیدھا طریقہ ہے۔ قرآنِ کریم میں اس راستے کو ان الفاظ میں سند عطا فرمائی گئی ہے۔ میرا رسول جو دے وہ لے لو اور جس سے منع کرے رک جائو۔ آپﷺ پر ہر دم بیشمار درود و سلام۔