قمری و شمسی کیلنڈر کا ارتقاء
برطانوی رومانٹک شاعر شیلے نے کہا تھا کہ If winter is there، can spring be far behindیعنی اگر موسمِ سرما ہے تو کیا ہوا، کیا موسمِ بہار کہیں زیادہ دور ہے۔ شیلے اس بات کی طرف اشارہ کر رہا تھا کہ جیسے موسم نے ضرور تبدیل ہونا ہے، بالکل اسی طرح حالات بھی تبدیل ہو کر رہتے ہیں۔
دنوں کا حساب رکھنے اورموسموں کے تغیر و تبدل کو جانچنے اور موسمی و مذہبی تہواروں کو منانے کے لیے ہر خطے اور ہر مذہب کے لوگوں نے اپنے تئیں کیلنڈر بنائے۔ کیلنڈر ایک لاطینی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب رجسٹر کرنا اور Structureکرنا ہے۔ فرانس کے علاقے ڈوردوگن میں جانوروں کی کم و بیش 28ہزار سال پرانی ہڈیاں دریافت ہوئی ہیں جن پر بنی اشکالات اور نشانات اس بات کا پتہ دیتے ہیں کہ اس زمانے کا انسان بھی کیلنڈر سے واقفیت رکھتا تھا۔
17ہزار سال پرانی لیسکاکس اور مارشیک غاروں کے اندر پائی جانے والی Paintingsمیں بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ لوگ چاند کو دیکھ کر ماہ و سال کا حساب رکھتے تھے۔ اسی طرح اسکاٹ لینڈ کے وارن فیلڈ علاقے میں Mesolithic Period کا قمری کیلنڈر دریافت ہوا ہے۔ یہ شواہد اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ابتدا سے ہی انسان نے ماہ و سال کا کسی نہ کسی طرح حساب رکھنا شروع کر دیا تھا البتہ ابتدائی ایام میں انسان نے چاند کی بڑھتی گھٹتی اشکال کے ذریعے یہ تگ و دو کی جو وقت کے ساتھ ساتھ Refineہو کے ہمیں موجودہ گریگورین کیلنڈر تک لے آئی ہے۔
قمری کیلنڈر کا بہت واضح خاکہ سب سے پہلے Sumerian کے ہاں ملتا ہے۔ Sumerians تہذیب اپنے دور کی بہت ہی ترقی یافتہ تہذیب تھی اور اس نے دوسری تہذیبوں کو خاصہ متاثر کیا تھا۔ بخت نصر نے586قبل مسیح میں یروشلم پر یلغار کر کے قبضہ کر لیا، معبدِ سلیمانی کو تاراج کیا اور معبد کے اندر رکھی توریت کی الہامی تختیوں اور دوسرے تبرکات کو لوٹ لیا جو پھر آج تک منظرِ عام پر نہیں آئے۔ اس قبضے کے نتیجے میں ہزاروں یہودیوں کو قید کر کے بابل پہنچا دیا گیا۔
بابل میں غلامی کے اس دور میں آقاؤں کا کیلنڈر قمری تھا جسے یہودیوں نے اپنا لیا اور بہت تھوڑے سے ردو بدل کے ساتھ وہی کیلنڈر اب تک یہودیوں کے ہاں رائج ہے۔ یہودی سال موسمِ خزاں میں شروع ہوتا ہے۔ سال کے بارہ مہینے ہوتے ہیں۔ ان بارہ مہینوں میں سے کچھ 30دن کے اور کچھ29 دن کے ہوتے ہیں۔
یہودی کبھی کبھی اس سادہ جدول سے ہٹ جاتے ہیں اور ان کا سال 353، 355دنوں سے لے کر385دنوں تک لمبا ہو سکتا ہے۔ اصل میں وہ 19سالوں پر محیط ایک سائیکل مرتب کرتے ہیں جس میں بارہ عمومی سال ہوتے ہیں اور سات سال لیپ کے رکھے جاتے ہیں۔ لیپ کا سال385دنوں تک بھی جا سکتا ہے۔ یہودی اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ خالقِ کائنات نے3761قبل مسیح میں تخلیق کا آغاز کیا، اس لیے موجودہ عیسوی سال 2021یہودی کیلنڈر میں 5782واں سال ہے۔
ہمارے برِ صغیر پاک و ہند میں انگریزوں کے راج سے پہلے دو کیلنڈر رائج تھے۔ برِ صغیر پر ایک لمبے عرصے تک مسلمان حکمران رہے۔ مسلمانوں کے لیے رمضان شریف، عیدین اور حج کے ایام جاننے کے لیے قمری کیلنڈر کی طرف رجوع ضروری ہے، اس لیے قمری کیلنڈر رائج رہا۔ ایک دوسرا کیلنڈر بھی ساتھ ساتھ رائج تھا اور یہ کیلنڈر فصلوں کی کاشت وغیرہ اور ہندو مذہبی تہوار جیسے ہولی اور دوسہرا منانے کے لیے خاصا مددگار رہا ہے۔
اس کیلنڈر کو بکرمی، دیسی اور پنجابی کیلنڈر بھی کہتے ہیں۔ بیان کیا جاتا ہے کہ راجہ بکرم جیت نے اسے غالباً 100قبل مسیح میں رائج کیا، یہ کیلنڈر بھی قدیم ترین کیلنڈروں میں شمار کیا جا سکتا ہے، اس کیلنڈڑ میں سا ل کے بارہ مہینے اور 365دن ہیں۔ بارہ میں سے 9مہینے30دنوں کے، جب کہ ایک مہینہ بیساکھ یا ویساکھ 31دنوں کا ہے۔ جیٹھ اور ہاڑ کے دو مہینے 32 دنوں کے ہوتے ہیں۔ ہمارے دیہاتوں میں اب بھی کسان اسی کے مطابق زندگی ترتیب دیتے ہیں۔ دیسی یا پنجابی کیلنڈر کا پہلا مہینہ چیت/چیتر ہے اور اس کا آغاز 14مارچ کو ہوتا ہے۔
باقی گیارہ مہینے اس طرح ہیں، بیساکھ یاوساکھ، جیٹھ، ہاڑ، ساون یا سون، بھادوں یا بھدریں، اسویا اسوج/اسیں، کاتک یا کتیں، مگھر، پوہ، ماگھ اور پھاگن یا پھگن۔ مہینوں کے یہ نام کیونکر ہوئے اس سلسلے میں معلومات کا حصول جاری ہے لیکن اس کیلنڈر سے جڑی ایک کہاوت موسم کے حوالے سے بہت اہم ہے۔ کہاوت توکو خاصی لمبی ہے لیکن اس کے مطابق اسو/ اسوج/اسیں میں پالا یعنی موسمِ سرما جنم لیتا ہے اور پھاگن یا پھگن میں الوداع ہو کر واپس چلا جاتا ہے۔
موسم کے حوالے سے یہ نشان دہی حیران کن حد تک درست ہے۔ ایرانی فارسی کیلنڈر ایک شمسی و قمری کیلنڈر ہے جس میں سال کا آغاز نو روز سے ہوتا ہے۔ نو روز 19سے 21مارچ کے درمیان واقع ہوتا ہے۔ اس سال یہ 20مارچ کو ہو گا۔ اس کیلنڈر میں سال کے 365دن اور12مہینے ہوتے ہیں۔ چینی کیلنڈر ایک قمری کیلنڈر ہے گو کہ اب گریگورین کیلنڈر سے استفادہ شروع ہو چکا ہے۔ ہندو مذہبی کیلنڈر بھی بنیادی طور پر قمری کیلنڈر ہی ہے۔ پاکستان ایک مسلم اکثریتی ملک ہے اس لیے قمری کیلنڈر ہمارے لیے بہت اہم ہے۔ قمری کیلنڈر میں رمضان شریف ہر موسم میں آتا ہے اس لیے ایمان والوں کے لیے ایک نعمت اور امتحان ہے۔
یونان ایک زمانے میں علم و حکمت کے عروج پر رہا ہے۔ یونان میں قمری اور شمسی دو کیلنڈر رائج تھے۔ رومیوں نے یونانی شمسی کیلنڈر کو اپنے ہاں رائج کر لیا۔ اس شمسی کیلنڈر کی خصوصیت یہ تھی کہ اس کا سال دس مہینوں کا ہوتا تھا۔ یہ سال مارچ سے شروع ہوتا تھا۔ پہلے پانچ مہینے 35، 35دنوں کے اور آخری پانچ مہینے 36، 36 دنوں کے ہوتے تھے۔ یوں شمسی اور قمری سال کے دن برابر ہو جاتے تھے۔ بعد میں شمسی کیلنڈر کی اصلاح کی گئی۔ پرانے شمسی سال کے شروع میں مارچ سے پہلے دو مہینے بڑھا لیے گئے۔
رومن افواج مفتوحہ علاقوں سے واپسی پرJANUSکی ڈیوڑھی سے پوری شان و شوکت کے ساتھ فاتحانہ مارچ شروع کرتی تھیں۔ اب چونکہ رومی اپنا سال ایک نئے مہینے سے شروع کرنا چاہتے تھے اس لیے JANUSکی مناسبت سے، 153قبل مسیح میں پہلے مہینے کو Januaryکا نام دیا گیا اور پہلی بار سال کے بارہ مہینے ہوئے۔ ایسے ہی سال کے ابتدائی دنوں میں ایک بڑا موسمی اور مذہبی تہوار منایا جاتا تھا جسے FEBRUAکہتے تھے۔ اسی تہوار کی مناسبت سے جنوری سے جڑے دوسرے مہینے کے لیے Februaryکا نام مناسب سمجھا گیا۔
مائیتھالوجی کے مطابق روم کا شہر Romolusنے بسایا تھا جسے MARS دیوتانے جنم دیا تھا۔ مارچ کا مہینہ اسی دیوتا کے نام سے منسوب ہے۔ لاطینی زبان میں پہلے کے بعد دوسرے کے لیے APR کا لفظ استعمال ہوتا تھا اس لیے مارچ کے مہینے کے بعد اپریل کا مہینہ ہو گیا۔ ہریالی اور پھولوں کے کھلنے کی MAIدیوی اہم تھی۔
یورپ میں مئی کے مہینے میں بہار کا موسم عروج پر ہوتا ہے اس لیے اس مہینے کو MAIA سے منسوب کر کے مئی کہا گیا۔ ZEUSدیوتا کی ملکہ جسے یونانی Rheaاور رومی Junoپکارتے تھے، اگلے مہینے کو اس دیوی کی مناسبت سے JUNEکا نام دیا گیا۔ جون کے بعد تمام مہینوں کو پانچواں، چھٹا سے لے کر دسویں مہینے تک گنا جاتا تھا لیکن جولیس سیزر اور آگسٹس سیزر کو عزت دینے کے لیے پانچویں مہینے کو جولائی اور چھٹے مہینے کو آگست کے نام دیے گئے۔
ستمبر ساتواں، اکتوبر آٹھواں، نومبر نواں اور دسمبر دسویں مہینے کے طور پر اپنے پرانے نام برقرار کھنے میں کامیاب ہو گئے۔ جولیس سیزر نے 45قبل مسیح میں نئے کیلنڈر کا اجرا کیا تو اسے جولین کیلنڈر کہا جانے لگا۔ اگلے ہی سال یعنی 46قبل مسیح میں سکندریہ کے ایک سائنس دان کی سفارش پر جولیس سیزر نے لیپ کا سال متعارف کروایا جس میں فروری کے 29دن کرنے سے لیپ کا سال 366 دنوں کا ہو گیا۔
جولیس سیزر کو بتایا گیا تھا کہ زمین سورج کے گرد ایک چکر365.25دنوں میں مکمل کرتی ہے لیکن پوپ گریگوری 13کے علم میں لایا گیا کہ زمین کا چکر 365 دن59منٹ اور 16سیکنڈ میں مکمل ہوتاہے اس لیے پوپ گریگوری نے مزید اصلاحات کرکے اکتوبر 1582 میں نیا کیلنڈر جاری کیا تب سے عمومی طور پر گریگورین کیلنڈر رائج ہے۔