نمبر ایک کون بنے گا ؟
اگر آج سے دو تین دہائیاں پیچھے جائیں تو آپ کو ایسی کئی کتابیں یہ پیش گوئی کرتی ہوئی مل جائیں گی کہ بہت جلد جاپان دنیا کا نمبر ایک ملک بن جائے گا۔ اس پیش گوئی میں بہت جان تھی۔ جاپان بہت تیزی سے ترقی کرتا ملک تھا۔ جاپان کی صنعت و حرفت حیران کن معجزات جنم دے رہی تھی۔ 1960 کی دہائی تک مغربی ممالک کی بنی ہوئی مصنوعات، کاریں اور بھاری گاڑیاں ہی دنیا میں ہر جگہ دیکھنے کو ملتی تھیں۔
امریکا اور جرمنی کے ٹرک، ٹرالر اور کاریں ہی اچھے معیار کی ضمانت تھیں۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے ہر چیز بدلنے لگی۔ جاپان کی مصنوعات اُفق پر ابھرنے لگیں۔ مارکیٹ میں جاپان کی گاڑیاں کیا آئیں ایک انقلاب آ گیا۔ تمام مارکیٹیں جاپانی گاڑیوں اور اشیاء سے بھر گئیں۔ ایسا لگنے لگا جیسے بہت جلد جاپان دنیا کا نمبر ایک ملک بن جائے گا۔ مگر ایسا نہیں ہو سکا۔ امریکا ابھی تک دنیا پر چھایا ہوا ہے۔ جاپانی خواب دھندلا چکا ہے اور اب تو کوئی بھی نہیں جوکہہ رہاہو کہ جاپان دنیا کا نمبر ایک ملک بن جائے گا۔
تاریخ کے صفحات یہ بتاتے ہیں کہ دوسری عالمی جنگ کے خاتمے پر امریکی صدر نے برطانوی وزیرِ اعظم چرچل کو تجویز پیش کی کہ سویت یونین پر فوراً حملہ کر کے لگے ہاتھوں اس کا قصہ بھی تمام کر دینا چاہیے۔ امریکی صدر چاہتے تھے کہ اسی وقت سے امریکا دنیا کی واحد سپر پاور بن جائے لیکن چرچل نے حامی نہ بھری اور سوویت یونین ایک بڑی قوت بن کر امریکا کے سامنے آ گیا۔ تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ برطانیہ پر امریکا نے ہی دباؤ ڈال کر ہندوستان سمیت بہت سے ممالک کے لیے آزادی کی راہ ہموار کی ورنہ برطانیہ کا ارادہ تھا کہ وہ 1970کی دہائی تک ہندوستان پر قابض رہے۔
امریکا نے یہ سب کچھ اس لیے کیا تاکہ برطانیہ سمیت کوئی بھی ملک اس کے مقابلے کا نہ رہے اور وہی ہوا برطانیہ ہندوستان کو چھوڑتے ہی اپنی عظمت سے گر کر امریکا کا کاسہ لیس ملک بن گیا۔ سوویت یونین نے 1979میں افغانستان میں داخل ہو کر بڑی غلطی کی اور سزا یہ پائی کہ اسے تمام وسط ایشیائی اور مشرقی یورپی ریاستیں چھوڑنی پڑیں یوں سوویت یونین سکڑ کر روس بن گیا اور امریکا کا واحد سپر پاور بننے کادیرینہ خواب پورا ہو گیا۔
پچھلے چالیس سال میں چین نے حیرت انگیز ترقی کی ہے۔ ترقی تو کئی اور ممالک نے بھی کی ہے لیکن اگرکوئی ملک اُبھر کر امریکا کی نظروں میں کھٹکنے لگا ہے تو وہ چین ہے۔ چینی مصنوعات نے دنیا کی مارکیٹوں پر قبضہ جما لیا ہے۔ ابتدا میں چین کی اکانومی labor intensiveتھی جسے بہت کامیابی سے مینوفیکچرنگ سیکٹر کی طرف موڑا گیا لیکن اب اسے نالج بیسڈ بنا دیا گیا ہے۔ چین نے اپنی نوجوان نسل کی تعلیم پر بہت توجہ دی ہے 2015میں صرف امریکی تعلیمی اداروں میں ڈھائی لاکھ چینی پڑھ رہے تھے، اسی تعلیم کے رنگ ہیں کہ اب چینی اکانومی کا انحصار تعلیم یافتہ ہنر مند ہاتھوں میں آ چکا ہے۔ اب وہ خام مال کو ویلیو ایڈیشن کر کے دنیا کی مارکیٹوں پر چھا رہے ہیں۔
پچھلے تیس سالوں میں چینی اکانومی میں ایک اور حیرت انگیز تبدیلی واقع ہوئی۔ مینوفیکچرنگ سیکٹر، سروسز سیکٹر کو راستہ دیتا گیا۔ مینوفیکچرنگ سیکٹر اب گھٹ کر اکانومی کا 40فیصد رہ گیا ہے جو کہ تیس سال پہلے 70فیصدتھا۔ سروسز سیکٹر 50فیصد ہو چکا ہے۔ قارئینِ کرام حیران ہوتے ہونگے کہ چین کے خزانے کیسے بھرے ہوئے ہیں اور اس کے پاس کیسے اتنا وافر زرِ مباد لہ ہو گیا کہ چین ہر Destituteملک میں خطیر انویسٹمنٹ کر رہا ہے اور پھر بھی زرِ مبادلہ ذخائر ختم ہونے میں نہیں آتے تو جان لیجیے کہ پورے چین میں اکانومی کی صرف 38فیصد کھپت ہوتی ہے اور 62فیصد بچ جاتاہے۔ چینی معاشرہ بچت کرنے والا معاشرہ ہے اس لیے جب اکانومی کا باسٹھ فیصد بچ رہے گا تو خزانے بھرے رہیں گے۔
چین کی اکانومی2019 تک کوئی دس فیصد کے گروتھ ریٹ سے پنپ رہی تھی۔ covid-19 اور دوسرے کچھ عوامل اشارہ کر رہے ہیں کہ یہ گروتھ ریٹ گھٹ کر 6سے7فیصد کے درمیان رہ سکتا ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرانی ہو گی کہ 1975میں چین اور بھارت دونوں کی اکانومی ایک جیسی تھی بلکہ بھارتی اکانومی کو قدرے فوقیت حاصل تھی لیکن آج چین کی اکانومی بھارت کی جی ڈی پی سے سات گنا بڑھ چکی ہے۔ دیکھیں مودی کا اقتدار اور ہندواتا کا پرچار بھارت کو کہاں پہنچاتا ہے۔
جی ڈی پی)پی پی( کے حوالے سے چین پہلے ہی امریکا کو پیچھے چھوڑ چکا ہے لیکن فی کس آمدنی اور معیارِ زندگی کے حوالے سے چین ابھی امریکا سے کافی پیچھے ہے۔ البتہ چین میں بے گھر اور بھوکے ننگے لوگ نظر نہیں آتے جب کہ امریکا میں ایسے بہت لوگ ہیں۔ چین اپنی تہذیب و تمدن کے لحاظ سے بہت امیر ہے اور چینی اپنی تہذیب و تمدن پر اتنے نازاں ہیں کہ وہ کسی اور طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے، چین اپنی تہذیب کو اجاگر ہوتا دیکھنا چاہتا ہے۔ اس کے مقابلے میں امریکا کی اپنی کوئی تہذیبی شناخت نہیں جو کچھ بھی ہے یورپی تہذیب کا پرتاؤ ہے۔ غربت کے خاتمے کے لیے چینی قیادت کی مساعی بے مثال اور قابلِ تقلید ہے۔
1981 اور2011 کے درمیان 30سالوں میں چین نے اپنی کامیاب پالیسیوں سے اپنے 75کروڑ لوگوں کو خطِ غربت سے اوپر اُٹھا لیا ہے۔ 1996میں چین کے اندر ایک بھی 6لین شاہراہ نہیں تھی جب کہ 2016میں چین کے اندر چھ لین والی شاہراہوں کی تعداد ایک لاکھ پچاس ہزار کلومیٹر ہو چکی تھیں۔ یہ سب حیران کن ہے۔ چین کے پہاڑی علاقوں میں بننے والی شاہراہیں عجائبات سے کسی طرح بھی کم نہیں جب کہ 2016 تک بھارت میں ایک بھی چھ لین شاہراہ نہیں تھی۔ چین میں ماضی قریب میں دیہات سے شہروں کی طرف ہجرت ایک معمول تھا لیکن اب دور دراز علاقوں میں ترقی ہو رہی ہے اس لیے دیہات سے شہروں کا رخ کرنے والوں کی تعداد بہت کم ہو چکی ہے۔ اسی لیے چینی گروتھ ریٹ بھی کچھ کم ہوا ہے۔
دنیا کی سبھی سیاسی پارٹیاں بہتری لانے کے پروگرام کے ساتھ میدان میں اترتی ہیں لیکن چین کی کیمونسٹ پارٹی نے ایک عظیم معاشی تبدیلی لا کر سب کو حیران کر دیا ہے انسانی تاریخ میں اتنی بڑی اور اتنی تیزی سے معاشی انقلاب کم کم ہی دیکھنے کو ملا ہے۔ اس کامیاب معاشی انقلاب نے جہاں چینی عوام کو آرام اور عزت کی زندگی بخشی ہے وہیں چینی کیمونسٹ پارٹی کی جڑیں عوام میں گہری ہو گئی ہیں۔
چینی کیمونسٹ پارٹی اب مضبوط بنیاد پر کھڑی ہے لیکن چین کے لیے نمبر ایک ملک بننے کی راہ ابھی بہت لمبی اور کٹھن ہے اور اسے امریکا اور دوسرے ممالک کی طرف سے چیلنجز درپیش ہیں، امریکا اس بات پر تلا ہوا ہے کہ جس طرح اس نے روس، جاپان اور جرمنی کو پچھاڑ دیا اسی طرح چین کو بھی یہیں روک دے۔ ابھی امریکا اس قابل ہے کہ وہ اپنے ملک سے بہت دور حملہ آور ہو۔ دنیا کا نمبر ایک ملک بننے کے لیے صرف معیشت نہیں بلکہ ہر شعبے میں دوسروں سے آگے نکلنا ہوگا۔
چین دفاعی اعتبار سے اتنا مضبوط ہو چکا ہے کہ کسی کو اس کے خلاف جارحیت کی ہمت نہیں ہو سکتی۔ چین نیوکلر ٹیکنالوجی، میزائل ٹیکنالوجی اور Artificial Intelligence میں بہت آگے بڑھ چکا ہے لیکن اسے سمندروں پر وہ فوقیت اور برتری نہیں جس سے وہ دوسرے ممالک پر لرزہ طاری کر سکے۔ جب تک امریکی ڈالر ہی بین الاقوامی لین دین کا ذریعہ ہے اور اسے پانیوں اور فضاء میں اقتدار حاصل ہے اس وقت تک اس کی نمبر ایک پوزیشن، ختم نہیں ہو سکتی البتہ چین اور امریکا کی قیادت فرق ڈال سکتی ہیں اور سب پر عیاں ہے کہ دونوں میں سے کس کی قیادت دور اندیش ہے۔
قارئینِ کرام مئی کے دوسرے ہفتے کے میرے کالم میں بتایا گیا تھا کہ سائنسی ڈیٹا کی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگلے تیس سالوں میں سورج اپنی صلاحیت سے بہت کم توانائی پیدا کرے گا جس کی وجہ سے ایک مِنی برفانی دور آگے ہے۔ اس کے اثرات کے تحت ایشیا میں بہت زیادہ بارشوں کا امکان ہے۔ اگلے کچھ سال بہت مشکلات کے حامل ہو سکتے ہیں۔ ہمیں بدلتے موسم کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنا ہو گا۔