کہیں آگ نہ لگ جائے
سعودی عرب کی مشہور تیل کمپنی سعودی آرامکو کی کہانی ہی موجودہ سعودی عرب کی کہانی ہے، تیل کی دریافت سے پہلے سعودی عرب نام کا کوئی ملک نہیں تھا۔ جزیرۃ العرب کئی چھوٹی بڑی ریاستوں میں بٹا ہوا تھا۔
دور دراز سے آنے والے حجاج اپنا راشن ساتھ لے کر چلتے تھے اور اِسی راشن میں سے مقامی آبادی کو بھی حصہ مل جاتا تھا۔ جدہ کی بندرگاہ پر جہاز لنگر انداز ہوتا اور حاجی اُترتے تو مقامی آبادی کے مردو زن، بچے بوڑھے گیت گاتے ہوئے استقبال کو موجود ہوتے تا کہ انھیں کچھ معاوضہ مل جائے۔ 1902 میں سعود بن محمد بن مقرن نے ریاض پر قبضے سے اپنی سلطنت کا آغاز کیا، پھر نجد اور حجاز پرکنٹرول مکمل کر کے 1932 میں جزیرۃ العرب کو آلِ سعود کی مناسبت سے سعودی عرب کا نام دے دیا۔ اسِی دوران وہاں تیل دریافت ہوا۔ آرامکو کا قیام عمل میں آیا۔ دولت کی ریل پیل ہوئی اور ملک تیزی سے ترقی کرنے لگا۔
ہفتہ چودہ ستمبر کی صبح سعودی آرامکو کی سب سے بڑی آئل ریفائنری البقیق میں ڈرونز سے حملہ کیا گیا۔ البقیق ریاض سے تین سو تیس کلو میٹر دور ہے اِس کی ریفائنری میں روزانہ سات ملین بیرل تیل صاف کرنے کی گنجائش ہے۔ یہ سب سے بڑی آئل ریفائنری دنیا میں توانائی کی ضروریات پورا کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اُسی دن یعنی ہفتے ہی کی صبح دوسرا حملہ خُریس میں تیل کی تنصیبات پر ڈرون سے کیا گیا۔ یہاں روزانہ ایک ملین بیرل تیل صاف کیا جاتا ہے۔ یمنی حوثی قبائل نے اِس حملے کی ذمے واری قبول کرلی۔ سرکاری سعودی عرب خبر رساں ایجنسی نے خبر کی تصدیق کر تے ہوئے کہا ہے کہ اس سلسلے میں تفتیش کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
سعودی عرب اور حوثی قبائل کے درمیان یہ تنازعہ 2015 میں اُس وقت شروع ہوا جب حوثیوں نے یمن کے دارالحکومت صنعاء پر قبضہ کر کے اُس وقت صدر منصور ہادی کو سعودی عرب میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا۔ سعودی حکومت نے صدر منصور ہادی کی حمایت کے لیے حوثیوں کے خلاف ایک بڑے عسکری محاذ کی تشکیل کی جس میں مصر، مراکش، اُردن، سوڈان، متحدہ عرب امارات، قطر، بحرین، کویت شامل ہیں۔ جبوتی، اریٹیریا اور صومالیہ نے اپنی فضائی اور بحری تنصیبات اس اتحاد کی مدد کے لیے دے رکھی ہیں تاہم پاکستان نے اس اتحاد کا حصہ بننے سے گریز کیا۔
حوثی قبائل یمن میں جاری اس جنگ میں ابتداء سے ہی ڈرون کا استعمال کر رہے ہیں لیکن اب ان کے ڈرون ایڈوانس ٹیکنالوجی سے لیس نظر آتے ہیں۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ حوثی اتنے چھوٹے ڈرون سے حملہ آور ہو رہے ہیں کہ میزائل شیلڈ ان کا سراغ لگانے اور پیچھا کرنے سے قاصر ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ایک ادارے کا اندازہ ہے کہ ان ڈرونوں کی رینج پندرہ سو کلومیٹر ہے۔ سعودی عرب اور ایران دونوں یمن میں ایک دوسرے کی خلاف پراکسی جنگ لڑ رہے ہیں۔
یمن دو حصوں پر مشتمل ہے، جنوبی یمن جس کا سب سے بڑا شہر مشہور بندر گاہ عدن ہے، اس خطے میں تیل، گیس، سونا اور دوسری معدنیات کے ذخیرے پائے جاتے میں لیکن ابھی تک ان سے خاطر خواہ فائدہ نہیں اُٹھایا جا سکا۔ جنوبی یمن کی آبادی بہت تھوڑی ہے۔ 1993کی خانہ جنگی میں جنوبی یمن کو شکست ہوئی۔ شمالی یمن جنوبی یمن کے مقابلے میں کثیر آبادی والا خطہ ہے، یہاں تیل اور دوسرے معدنی ذخائر ابھی دریافت نہیں ہوئے ہیں۔ جنوبی اور شمالی یمن 1967میں الگ ہو کر دو ملک بن گئے لیکن 1990میں دوبارہ اتحاد ہو گیا۔
شمالی یمن میں مسلمانوں کی اکثریت زیدی شیعہ ہیں جب کہ جنوبی یمن میں مسلمانوں کی زیادہ آبادی سلفی سُنی ہیں۔ یہاں القاعدہ بہت مضبوط ہے، حوثی زیدی شیعہ شاید دنیا میں صرف شمالی یمن میں ہی پائے جاتے ہیں۔ یہ امام زین العابدین علی بن حسین ؑ کے بیٹے زید بن علی بن حسین ؑ کے ماننے والے ہیں۔
حملے کی ذمے واری حوثی قبائل نے ایک ٹیلوائزڈ پیغام میں قبول کی۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ ان حملوں کے لیے انھیں سعودی عرب کے اندر سے بھی حمایت حاصل ہے۔ اگر یہ سچ ہے تو سعودی حکومت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ یمن میں جاری جنگ کے نتیجے میں اس کی کل آبادی کا دو تہائی حصہ مختلف اداروں سے ملنے والی امداد پر گزارا کر رہا ہے، بہت سے علاقے قحط جیسی صورتحال سے دو چار ہیں۔ اس جنگ کی وجہ سے بد ترین انسانی المیہ جنم لے چکا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق جنگ اور قحط سے ابتک کوئی نوے ہزار افراد لقمہء اجل بن چکے ہیں۔
یمن اس وقت مشرقِ وسطیٰ کا غریب ترین ملک بن چکا ہے۔ سعودی عرب کی تیل تنصیبات پر اِن حملوں سے علاقائی کشیدگی بڑھ گئی ہے۔ سعودیہ کی تیل پیداوار بہت متاثر ہوئی ہے جس سے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں کو پر لگ گئے ہیں۔ سعودی تیل کی پیداوار میں کمی سے پاکستانی معیشت جو پہلے ہی بہت خراب ہے اب زیادہ مہنگے تیل کی وجہ سے مزید دباؤ میں آئے گی۔ امریکا اور اسرائیل جو ایران کے خلاف ادھار کھائے بیٹھے ہیں اس موقع سے فائدہ اُٹھا کر ایران پر دباؤ میں اِضافہ کی کوشش کر رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے واضح انداز میں ایران کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں پتہ ہے کہ حملہ کس نے کیا ہے، انھوں نے کہا ہے کہ ہم تیار ہیں صرف سعودی عرب کے فیصلے کا اِنتظار ہے۔
امریکی وزیرِ خارجہ نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ ایران نے مشرقِ وسطیٰ میں تیل کی ترسیلات پر براہِ راست حملے شروع کر دئے ہیں۔ ایک اور بیان میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ وہ نہ تو ایران سے جنگ چاہتے ہیں اور نہ ہی امریکا نے سعودی عرب کے دفاع کا وعدہ کر رکھا ہے اس بیان سے ایسا لگتا ہے کہ سعودی عرب، امریکا اور اسرائیل کی مرضی پر ایران سے جنگ شروع کرنے میں ہچکچا رہا ہے۔ ادھر ایرانی سپریم لیڈر جناب خامنہ ای نے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران امریکی دباؤ میں ہرگز نہیں آئے گا۔ اقوامِ متحدہ کے ایک مندوب نے صورتحال کو انتہائی خطرناک گردانتے ہوئے کہا ہے کہ خطے میں جنگ کے امکانات بڑھ گئے ہیں اور کوئی چھوٹا سا غلط فیصلہ جنگ کی آگ لگا سکتا ہے۔