دو قومی نظریہ صحیح ثابت ہوگیا
1947ء میں برِصغیر کی تقسیم اس اصول پر ہوئی کہ وہ علاقے جہاں ہندوؤں کی اکثریت ہے وہ علاقے بھارت کا حصہ ہوں گے اور وہ علاقے جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہ پاکستان کا حصہ بنیں گے۔
ہمارے دور اندیش قائد محمد علی جناح نے اس وقت کشمیری مسلمان قیادت سے کئی بار رابطہ کیا تاکہ ان کو قائل کیا جاسکے کہ کشمیریوں کا مستقبل پاکستان سے وابستہ ہے لیکن اس وقت کی کشمیری قیادت اور بھات کے اندر بہت سے مسلمانوں کو قائد کی بات کے مقابلے میں سیکولر انڈیا زیادہ بھلا لگا، وہ اس وقت ہندو ذہن صحیح طور پر پڑھنے میں کسی حد تک چوک گئے۔ ایک شاعر نے بہت خوب کہا ہے کہ:
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی
امیت شاہ بھارتی وزیرِ داخلہ اور صدر بی جے پی نے بھارتی عام انتخابات سے پہلے کولکتہ میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ بھارت صرف ہندوؤں کا ہے، مسلمانوں کو یا توبھارت سے جانا ہو گا یا پھر وہ مذہب تبدیل کر کے ہندو دھرم میں آ جائیں۔ لبِ لباب یہ ہے کہ اس وقت تمام بی جے پی قیادت ہندو انتہا پسندہے، امیت شاہ نے 5 اگست 2019ء کو راجیہ سبھا اور اس سے اگلے دن لوک سبھا میں تین بہت ہی اہم دستاویزات متعارف کروا کے مقبوضہ جموں کشمیر کی مخصوص علیحدہ حیثیت ختم کر دی۔ بھارت کے اس اقدام سے برِصغیر کا منظر نامہ ہی نہیں بدلابلکہ دو قومی نظریہ کی افادیت ایک دفعہ پھر ابھر کر سامنے آ گئی۔
اس سے دس دن پہلے بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں مزید فوج داخل کر دی، مواصلات کے ذرایع منقطع کر دیے، ایل او سی پر بمباری شروع کر دی، تعلیمی اداروں میں چھٹیاں کر دیں، تمام ہوٹلز سیاحوں سے خالی کر ا دیے گئے حتیٰ کہ امر ناتھ یاترا روک دی گئی۔ تمام مغربی ممالک دہشت گردی کے خلاف نعرے کی طرف بہت گرمجوشی سے مائل ہوتے ہیں اور بھارت اس کو بہت ہوشیاری سے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتاہے اور یہی اس نے اس بار بھی کیا۔
ہم نے بھی پاکستان میں یہ سمجھا کہ انڈیا کوئی بڑی فوجی کارروائی کا ارادہ رکھتا ہے اور ہم نے کلسٹر بم کے استعمال پر دہائی دینی شروع کر دی لیکن بھارت نے ہماری توجہ بھٹکا کر مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر کی اسپیشل حیثیت ختم کرنے کا بِل پہلے راجیہ سبھا میں پیش کر کے اس کو پاس بھی کر ا لیا۔ اگلے دن یہ بل لوک سبھا سے بھی پاس ہو گیا جس سے پتہ چلتا ہے کہ بھارتی حکومت کی کافی لمبے عرصے سے تیار تھی اور ہم یا تو اس کو بھانپ نہیں سکے یا ضروری اقدامات نہیں اٹھا سکے۔ بھارت میں عمومی طور پر جشن کا سماں ہے، یہ سمجھا جا رہا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس یکطرفہ غیر آئینی، غیر قانونی اور غیر اخلاقی اقدام سے حل ہو گیا ہے۔
بھارتی اقدام تین اہم دستاویزات Documents پر مشتمل ہے، پہلی دستاویز انڈین صدر کا حکم نمبر 272 ہے جس سے باقی دونوں دستاویزات اتھارٹیٰ حاصل کرتی ہیں۔ دوسری دستاویز وہ سٹے چیوٹریقرارداد ہے جس کے ذریعے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کو بدل دیا گیا اور تیسری دستاویز وہ بل ہے جس کے ذریعے مقبوضہ ریاستِ جموں و کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کر کے دو علیحدہ وفاقی اکائیاں بنا دی گئی ہیں۔ جموں کشمیر قانون ساز اسمبلی کے ساتھ ایک اکائی اور لداخ بغیر قانون ساز اسمبلی ایک دوسری وفاقی اکائی یا علاقہ۔
بھارت کے آئین میں آرٹیکل 370کو بھارتی آئین میں 1949ء میں شامل کیا گیا۔ یہ آرٹیکل آئین کو ریاستِ مقبوضہ کشمیر پر لاگو ہونے میں رکاوٹ ہے۔ اس آرٹیکل کی شق 370(1)d میں قرار دیا گیا ہے کہ بھارتی صدر اس آرٹیکل میں صرف اس صورت میں تبدیلی یا ترمیم کر سکتے ہیں جب اس کو ریاستی اسمبلی اور حکومت کی تائید حاصل ہو۔ آرٹیکل کی شق 370(3) میں مزید قرار دیا گیا ہے کہ بھارت کے صدر اس آرٹیکل میں تبدیلی یا ترمیم کا اختیار صرف اس صورت میں استعمال کر سکتے ہیں جب ریاستِ مقبوضہ جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی اس کی منظوری دے چکی ہو۔ اس سلسلے میں زمینی حقیقت یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی آئین ساز اسمبلی 1957ء میں ختم ہو چکی ہے۔ چونکہ بھارتی آئین ساز اسمبلی باسٹھ سال پہلے تحلیل ہو چکی ہے، اس لیے اس آ رٹیکل کے مندرجات جو مقبوضہ کشمیر کو ایک اسپیشل حیثیت دیتے ہیں وہ ہمیشگی جاصل کر چکے ہیں۔
ہندوستان نے آئین کے آرٹیکل 367 میں ایک اضافی شق چار sub clauses کے ساتھ متعارف کرائی ہے۔ آرٹیکل 367 کی نئی کلاز کے چوتھے سب کلاز میں یہ کہا گیا ہے کہ بھارتی آئین میں جہاں کہیں بھی آئین ساز اسمبلی کا ذکر ہے اس کو قانون ساز اسمبلی پڑھا جائے۔ اس ترمیم کو متعارف کراتے ہوئے بھارت نے دستاویز میں ایک بڑا جھوٹ بولا ہے کہ یہ ترمیم مقبوضہ کشمیر کی حکومت کی منظوری سے کی جا رہی ہے۔
بی جے پی کی حکومت ایک لمبے عرصے سے یہ کارروا ئی کر کے اسپیشل حیثیت ختم کر نا چاہتی تھی لیکن اس نے یہ قدم اس وقت کیوں اٹھایا؟ یہ جاننے کے لیے حال ہی میں ہونے والے بھارتی انتخابات، افغان امن عمل، وزیرِاعظم عمران خان کے دورئہ امریکا اور گرتی ہوئی بھارتی معیشت کا جائزہ لینا ہو گا۔ حالیہ انتخابات میں بی جے پی نے اپنے مینی فیسٹو میں قرار دیا تھا کہ وہ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے ریاست کو بھارت میں ضم کر دے گی، الیکشن میں بڑی کامیابی کی وجہ سے مودی نے ایک طرف تو ایک پاپولر وعدہ پورا کر دیا تو دوسری طرف گرتی ہوئی معیشت اور اندرونی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی، دوسرا افغان امن عمل میں انڈیاکی غیر موجودگی سے انڈیا انتہائی مشتعل ہے۔
بھارت نے پچھلے چند سال میں دو ارب ڈالر افغانستان میں کھپائے ہیں لیکن اب جب کہ امریکا نے افغانستان سے نکلنے کے لیے پاکستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے تو انڈیا وہاں اپنی جگہ نہیں دیکھتا۔ عمران خان کے دورے کے دوران صدر ٹرمپ نے کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کی تو بھارت کے کان کھڑے ہو گئے۔ بھارت کو ٹرمپ پر تو پورا اعتماد ہے لیکن بات آگے بڑھنے پر اگر چین اور دوسرے بڑے ممالک ثالثی میں آ جائیں تو کچھ بھی ہو سکتا ہے اس لیے ثالثی والے معاملے کو یہیں ختم کرنا ضروری تھا۔ بھارت امریکا کو یہ بھی باور کرانا چاہتا ہے کہ اگر اس کے مفادات کا خیال نہ رکھا گیا تو وہ پورے خطے میں آگ لگا سکتا ہے۔
بھارت کے اس اقدام سے مقبوضہ ریاست جموں و کشمیرکی اسپیشل حیثیت ختم ہو چکی ہے، ریاست کا اپنا پرچم ختم ہے، اب انڈین پرچم ہی ریاستی پرچم ہے، اب نان کشمیری ریاست میں زمین خرید سکتے ہیں اور ریاستی شہری بن سکتے ہیںاس طرح ریاست میں مسلمان اکثریتی آبادی کو اقلیت میں تبدیل کرنے کا عمل شروع ہو گیا ہے۔ اللہ ہمارے کشمیری بہن بھائیوں کی غیب سے مدد کرے۔ قائدِاعظم نے فرمایا تھا کہ جو پاکستان کی مخالفت کر رہے ہیں، وہ اور ان کی آنے والی نسلیں پچھتائیں گی اور اپنی بقیہ زندگی بھارت سے وفاداری ثابت کرنے میں گزار دیں گے، اب 5 اگست کو بھارت نواز محبوبہ مفتی نے اقرار کیا کہ 1947 ء میں دو قومی نظریہ مسترد کر کے بھارت کے ساتھ شمولیت کا فیصلہ آج الٹا پڑا۔
آئیے خراجِ تحسین پیش کریں قائدِاعظم اور مشاہیر ِپاکستان کی فہم و فراست کو، ان لاکھوں مجاہدینِ آزادی، ماؤں، بہنوں بیٹیوں کو جن کی قربانی ہمیں ایک آزاد اور محفوظ وطن عطا کر گئی۔ آئیے سلام پیش کریں کشمیری مجاہدین، کشمیری ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کو جنھوں نے اپنی جنت نظیر وادی کی آزادی کے لیے سب کچھ لٹانے کا عزم کر رکھاہے۔ اﷲ ان کی مدد اور حفاظت فرمائے۔ ( آمین)