بچیں گے تو سحر دیکھیں گے
یہ رائے اب زبان زدِ ماہرینِ صحت ہے کہ ہر فرد کو جلد یا بدیر کورونا وائرس کا سامنا کرنا ہے اور یہ وبا اس وقت تک پھیلتی رہے گی جب تک کل آبادی کی بڑی اکثریت اس کی لپیٹ میں نہیں آ جاتی۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ انسان ہر وقت بے شمار مضرِ صحت جراثیم اور وائرس کی زد میں ہوتا ہے۔ جونہی ہمارا امیون سسٹم immune systemکمزور ہوتا ہے یہ مضرِ صحت وائرس اور جراثیم موقع پا کر حملہ آور ہو جاتے ہیں اور ہمیں بیمار کر دیتے ہیں۔
اگر جلدی مناسب علاج نہ کیا جائے تو تمام بیماریاں مہلک ثابت ہو سکتی ہیں۔ اگر بروقت علاج شروع ہوجائے تو بہت ممکن ہوتا ہے کہ جان بچ جائے۔ آپ دل کے امراض کو دیکھ لیں۔ سرجری اور دواؤں کے بروقت اور مناسب استعمال سے ہزاروں لاکھوں جانیں بچ رہی ہیں اور اکثر مریض ایک لمبے عرصے تک نارمل زندگی گزار سکتے ہیں۔
کینسر جیسے موذی اور مہلک مرض کو دیکھ لیں، اگر مریض کا ابتدائی اسٹیج پر علاج شروع ہو جائے تو اﷲ کرتا ہے کہ زندگی بچنے کے چانسز بہت ہوتے ہیں۔ تمام بیماریوں میں کچھ لوگ مر جاتے ہیں کیونکہ ہر علاج کارگر نہیں ہوتا پھر بھی خوف اور امید ساتھ ساتھ چلتے رہتے ہیں اور یہی زندگی ہے۔ COVID-19نے بالکل نئی صورتحال پیدا کر دی ہے۔
spanish fluکے بعد کورونا وائرس پچھلے تقریباً سو سال میں ایک ایسی وباء ہے جس نے ہم انسانوں کے بس میں بہت کم رہنے دیا ہے۔ انفیکشن کے بعد چند دن بہت ہی اہم ہوتے ہیں گویا کہ مریض آناً فاناً موت کی دہلیز پر کھڑا ہو جاتا ہے۔ یہی کچھ خطرناک حادثات میں بھی ہوتا ہے۔
حادثات میں بھی موت سامنے کھڑی ہوتی ہے لیکن اگر حادثے میں موت نہ دبوچ لے تو سرجری اور دواؤں کے ذریعے زندگی کو بہتر بنا لیا جاتا ہے۔ اگر حادثے کے نتیجے میں آئی سی یو میں بھی پڑے ہوں تو آپ کے معالج، نرسز، طبی عملہ اور آپ کے لواحقین خطرے میں نہیں ہوتے وہ اپنا کام پوری دلجمعی سے کر پاتے ہیں، کورونا وائرس میں ایسا نہیں ہوتا۔ یہ بیماری مریض، مریض کے لواحقین، معالجین اور تمام عملے کے لیے خطرہ ہے۔ اگر مریض شفا یاب نہ ہو سکے اور داعی اجل کو لبیک کہہ دے تو پھر بھی شدید مشکلات جاری رہتی ہیں۔
چند دن پہلے ایک مریض جو کہ اﷲ کے فضل و کرم سے شفا یاب ہونے میں کامیاب رہا اس نے بتایا کہ کس طرح اس کی اکلوتی بیٹی کمرے کے باہر دروازے میں لگے شیشے کے ساتھ کھڑی موبائل پر اپنے پیارے ابو کی ڈھارس بھی بندھا رہی ہے اور ساتھ ہی اس کی ہچکی بھی بندھی ہوئی ہے، وہ اپنے پیارے ابو کے قریب نہیں جا سکتی اور اسے یہ بھی نہیں پتہ کہ آیا وہ اب کبھی اپنے ابو کا ہاتھ اپنے سر پر دیکھ سکے گی کہ نہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ یہ پیاری بیٹی اپنے ابو کی شفقت سے محروم نہیں ہوئی۔
مغربی ممالک کے تین سو سے زائد ماہرینِ وائرالوجی نے چند دنوں قبل بیان کیا کہ پہلے یہ جو خیال کیا جا رہا تھا کہ COVID-19 فزیکل کنٹیکٹ اور سوشل فاصلہ نہ رکھنے سے ہو سکتا ہے یہ پوری حقیقت بیان نہیں کرتا۔ ان کے تجربے میں یہ آیا ہے کہ وبائی ذرات ہوا کے دوش پر کافی دیر معلق رہتے ہیں اور گزرنے والے کو بیمار کر سکتے ہیں انھوں نے مطالبہ کیا کہ اس حقیقت کو بھی ڈبلیو ایچ او کے پلیٹ فام سے مشتہر کیا جائے۔
ماہرین کی یہ رائے ٹھیک ہے یا نہیں لیکن یہ ضرور ہے کہ یہ وباء بہت خطرناک ہے جس کے بارے میں ابھی تک کوئی حتمی رائے سامنے نہیں آئی اور کوئی علاج بھی دریافت نہیں ہوا، اس لیے احتیاطی تدابیر کے ساتھ اپنی جان بچانے میں ہی عافیت نظر آتی ہے۔ اس وباء نے یہ صورت پیدا کر دی ہے کہ اسپتالوں میں covid-19 کے علاوہ باقی بیماریوں کے مریضوں پر توجہ نہیں رہی۔
ابھی ایک مہینہ پہلے ایک خبر میں بتایا گیا کہ اٹلی کے دار الحکومت روم کے ایک اسپتال میں دل کا ایک مریض ایسی حالت میں لایا گیا جب کہ اس کی چھاتی میں شدید تکلیف تھی لیکن اسپتال کے عملے نے اسے انتظار کرنے کو کہا اور یوں وہ ابتدائی طبی امداد کے انتظار میں ہی آدھے گھنٹے بعد اسپتال کی ایمرجنسی میں فوت ہوگیا۔ اس قسم کے بے شمار کیس رپورٹ ہو رہے ہیں جہاں مریض کسی اور مرض کے لیے مشورہ اور علاج کروانے اسپتال جاتا ہے لیکن اس کو کہا جاتا ہے کہ پہلے کورونا ٹیسٹ ہوگا اور تب تک کئی مریض جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور کورونا مریض شمار کر لیئے جاتے ہیں۔
چند دن پہلے لاہور کے ایک اسپتال کے ایک نوجوان ڈاکٹر کوگھر میں پیٹ درد ہوا۔ وہ چونکہ خود ڈاکٹر اور سرجن تھے اس لیے دوائی لی اور وقتی طور پر درد جاتا رہا۔ لیکن اگلے دن پھر درد ہوا تو انھوں نے معائنہ کروایا اور ساتھ ہی کورونا کا ٹیسٹ بھی کروا لیا۔ کورونا ٹیسٹ کا رزلٹ تو منفی آیا لیکن پتہ چلا کہ ان کی چھوٹی آنت میں سوراخ ہے جس سے مواد نکل کر پیٹ میں پھیل رہا ہے۔ ان کی فیملی کوتشویش ہوئی تو انھوں نے اپنی فیملی اور بھائی کو سمجھایا کہ میں سرجن ہوں یہ ایک بہت چھوٹا سا آپریشن ہے، میں نے خود ایسے بے شمار آپریشن کیے ہیں، اس کا آپریشن ہوگا اور میں چند دنوں میں صحت یاب ہو جاؤں گا۔
ڈاکٹر صاحب نے اپنے کیریئر کی ابتدا میں ہاؤس جاب جس اسپتال میں کی تھی فیصلہ کیا کہ آپریشن وہیں سے کروایا جائے کیونکہ وہاں تعارف کروانے پر ڈاکٹرز زیادہ خیال رکھیں گے۔ وہ اپنا کورونا کا ٹیسٹ رزلٹ اور اورآنت میں سوراخ سے متعلق ریکارڈ لے کر اسپتال پہنچ گئے۔
اپنا تعارف کروایا اور کہا کہ ان کی خواہش ہے کہ بغیر کسی تاخیر کے ان کا آپریشن کر دیا جائے لیکن ان کے پسندیدہ اسپتال کے ڈاکٹروں نے کہا کہ یہ تو کورونا کیس معلوم ہوتا ہے۔ ڈاکٹر مریض نے بتایا کہ میں خود سرجن ہوں، یہ میرے پیٹ میں سوراخ سے نکل کر جمع ہونے والے مواد کا سیمپل ہے اور یہ میرے کورونا ٹیسٹ کا نیگیٹو رزلٹ ہے اس لیے جلد آپریشن کا بندوبست کیا جائے لیکن اس کی ایک نہیں سنی گئی۔ کوشش کے باوجود کوئی سینئر ڈاکٹر نزدیک نہیں آیا۔ افسوس کہ بروقت آپریشن نہ ہونے کی وجہ سے آخر کار مریض اسپتال میں ہی فوت ہوگیا اور پھر موت کے بعد میت کا تکلیف دہ حصول، اُف۔
کورونا سے موت کے بعد بھی میت کے لواحقین کا ٹرائل جاری رہتا ہے۔ مریض کی میت ورثا کے حوالے نہیں کی جاتی۔ میت کو مناسب طریقے سے غسل بھی نہیں دیا جاتا۔ میت کو پلاسٹک تھیلوں میں بند کرکے چند لوگ بظاہر جنازہ پڑھ کر گڑھے میں پھینک دیتے ہیں۔ کراچی میں کئی لواحقین کو تو اپنے مردہ عزیز کی قبر تک کا پتہ نہیں چلتا۔ یہ سب کتنا تکلیف دہ، افسوسناک اور بھیانک ہے۔
میت تو اپنے اعمال کے عوض رہن ہے۔ سانس اُکھڑنے کے بعد اس کا معاملہ اس کے کریم رب کے ہاتھ میں ہے لیکن جب میتوں کو یوں گڑھوں میں پھینکا جائے گا تو ان سہاگنوں کے احساسات کو محسوس کریں جو اپنے سہاگ کا چہرہ تک نہیں دیکھ پاتیں، ان والدین خاص کر ماؤں کے اوپر کیا گزرتی ہوگی جو اپنے بچوں کو دفنا بھی نہیں پاتیں۔ بہنوں اور بھائیوں کے دکھ کا اندازہ کریں۔ بیٹیوں کی چیخوں کو سنیں جو اپنے بابا کی میت سے لپٹ بھی نہیں سکتیں۔ کسی نے ایک خوبصورت پوسٹ بھیجی کہ حکومت کے لیے آپ بس ایک نمبر ہیں لیکن اپنے گھر والوں کے لیے آپ سب کچھ ہیں۔
عیدالاضحی کی آمد آمد ہے۔ ہم نے اپنے آپ کو بچانا ہے۔ اس دکھ، تکلیف، اذیت اور حسرت سے بچانا ہے جو اوپر بیان کی گئی ہے۔ اگر عید کے لوازمات پورے نہ ہوئے تو انشا اﷲ اگلی عید پر ہو جائیں گے۔ خدارا انتہائی شدید ضرورت کے بغیر باہر نہ نکلیں۔ ایک آگ کا دریا ہے جس سے بچ کے نکلنا ہے۔ آیئے عہد کریں کہ ہم نے covid-19 کے پھیلاؤ کو روکنے میں اپنا حصہ ڈالنا ہے کیونکہ جو بچیں گے وہی سحر دیکھیں گے۔