یکم مئی کو بھی مزدوروں نے مزدوری کی
یکم مئی مزدوروں کا عالمی دن ہے، پوری دنیا میں ہر سال یہ دن امریکہ کے شہر شکاگو کے محنت کشوں کو یاد کرتے ہوئے منایا جاتا ہے۔ شکاگو کے محنت کشوں اور مزدوروں نے اپنے حقوق کی خاطر اپنی جان کی بھی پروا نہ کی، ہر طرح کی بربریت اور ظلم و ستم برداشت کیا مگر اپنے مطالبات سے پیچھے نہ ہٹے۔ یہ دن دنیا بھر کے ان مزدوروں کے نام جنھوں نے اپنے حق کے لیے صدائے احتجاج بلند کی اور دنیا کو یہ پیغام دیا کہ آزادی اور اپنا حق حاصل کرنے کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہیے۔
یکم مئی انسانی تاریخ میں محنت و عظمت اور جدوجہد سے بھرپور استعارے کا دن ہے۔ 1886میں شکاگو میں سرمایہ دار طبقے کے خلاف اٹھنے والی آواز، اپنا پسینہ بہانے والی طاقت کو خون میں نہلا دیا گیا مگر ان جاں نثاروں کی قربانیوں نے محنت کشوں کو توانائی بخشی، انھیں اس چیز کا احساس دلایا کہ محنت ہی میں عظمت ہے اور جدوجہد کرنے والا ہی زندہ رہنے کا حق دار ہے۔ یورپ اور امریکہ میں جب سرمایہ دار انہ نظام نے سر اٹھایا تو اس کا سارا نزلہ محنت کش مزدوروں پر گرا، مزدوروں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا جانے لگا اور ان سے کام کے اوقات بھی طے نہ کیے گئے، کبھی ان سے بارہ گھنٹے تو کبھی چودہ اور اٹھارہ گھنٹے ملوں اور فیکٹریوں میں کام لیا جانے لگا۔ اس پر ستم یہ کہ کہ انھیں چھٹی بھی کرنے کی اجازت نہیں تھی جس کی وجہ سے مزدور بیمار پڑجاتے اور یوں ایک دن انھیں نوکری سے ہاتھ دھونا پڑتا۔
مزدوروں کے ساتھ اس قدر غیر انسانی رویہ روا رکھا گیا کہ انسانیت بھی رو پڑے، دو وقت کی روٹی اور پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں تھا۔ فیکٹریوں اور ملوں کا گندا پانی پینے پر مجبور مزدور طبقہ انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگیا، جہلم سے تعلق رکھنے والے مزدور شاعر تنویر سپرا کا شعر یاد آ گیا۔
آج بھی سپراؔ اس کی خوشبو مل مالک لے جاتا ہے
میں لوہے کی ناف سے پیدا جو کستوری کرتا ہوں
شکاگو میں مزدوروں پر جب ظلم کے پہاڑ ٹوٹے تو ان میں اپنے حقوق کو حاصل کرنے کی جدوجہد پیدا ہوئی اور انھوں نے اس ظالمانہ نظام سے بچنے کے لیے تحریک شروع کر دی۔ یہ 1886ء کی بات ہے جب یکم مئی کو وہ مزدور جو برسوں سے سرمایہ دار کی بربریت کا نشانہ بن رہے تھے، انھوں نے پر امن ہڑتال کا فیصلہ کیا، تین مئی تک یہ ہڑتال پر امن رہی لیکن پولیس کو یہ پر امن ہڑتال بھی راس نہ آئی انھوں نے فیکٹری میں گھس کر ہڑتال کرنے والے مزدوروں پر فائر کھول دیے جس سے سات مزدور جاں بحق ہو گئے۔ تین مئی کو ہلاک ہونے والے مزدورں کے اور محنت کشوں سے یکجہتی کے لیے شکاگو میں پر امن ریلیاں شروع ہوگئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے پورا ملک ان ریلیوں کی لپیٹ میں آ گیا۔
ریلیوں اور احتجاج میں شامل ہر شہری کا ایک ہی تقاضا تھا کہ مزدوروں کے اوقات طے کیا جائیں اور ان کی مزدوری میں اضافہ بھی کیا جائے اور ایک تاریخ مقرر کی جائے جب مزدور کو مزدوری دی جائے۔ شکاگو میں عین اس وقت جب ریلی سے مزدور رہنما تقاریر کر رہے تھے، پولیس نے دوبارہ غنڈہ گردی کا مظاہرہ کیا اور مزدوروں پر بے تحاشا ظلم کیا، سرمایہ دار کی سرمایہ داری نے پولیس کو خریدا اور یوں پولیس مزدور ریلیوں پر برس پڑی۔ سرمایہ دار کا پلان کسی حد تک کامیاب ٹھہرا اور پورے ملک بالخصوص شکاگو میں ہونے والے مظاہرین کو مشتعل کیا گیا اور ان پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے۔ پولیس نے بم پھینکے جس سے ایک پولیس والا بھی ہلاک ہوا مگر اس کا الزام مزدوروں کے سر تھوپ دیا گیا، املاک کو نقصان پہنچایا گیا، مزدوروں پر پٹرول چھڑکا گیا، ہڑتال میں شریک مزدوروں پر اندھا دھند گولیاں برسائی گئیں جس کے نتیجے میں سینکڑوں مزدور زخمی ہوئے اور لاتعداد ہلاک ہو گئے۔ فرش خون سے سرخ ہوگیا، فضا میں اداسی چھا گئی، تاریخ بتاتی ہے ان میں سے ایک شخص نے اپنی خون میں ڈوبی ہوئی قمیض ہوا میں لہرائی جس کے بعد سرخ رنگ مزدوروں کا علامتی رنگ بن گیا۔
شکاگو میں مزدوروں پر جیسے زندگی تنگ کی گئی اور جس طرح کا تشدد کیا گیا، سوال یہ ہے کہ ان کا قصور کیا تھا، یہی کہ وہ اپنا حق مانگ رہے تھے، حق مانگنے والوں کو سزائیں دینے کی ریت صدیوں پرانی ہے، تاریخ ایسے واقعات اور حادثات سے بھری پڑی ہے۔ نومبر 1887ء کو ایک مزدور رہنما کو پھانسی کی سزا بھی سنائی گئی جس کے بعد یہ تحریک دنیا بھر میں مقبول ہوگئی۔ 1889ء میں ریمنڈ لیون کی تجویز پر 1890ء میں پہلی مرتبہ یکم مئی کو مزدوروں کے نام سے یاد کیا جانے لگا۔
اس دن کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ ہم مزدور کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کریں، ہر اس سرمایہ دار کے خلاف آواز بلند کریں جو مزدور کے حق پر شب خون مار رہا ہے۔ کوئی ادارہ ہے یا نجی افسر، کوئی فیکٹری مالک ہے یا کسی نجی تعلیمی ادارے کا سربراہ، اگر اپنے ملازمین کو وقت پر تنخواہ نہیں دے رہا اور ان کے حقوق کی پاسداری نہیں کر رہا تو اس سرمایہ دار اور جاگیر دار کے خلاف کم از کم یکم مئی کو صدائے احتجاج ضرور بلند کریں۔ کیسے دکھ کی بات ہے کہ آج یکم مئی پوری دنیا میں مزدور ڈے منایا جا رہا ہے مگر پوری دنیا کے مزدور آج بھی کام پر ہوں گے، وہ جانتے ہیں کہ آج کام سے چھٹی کر لی تو ہمارے بچے روٹی کہاں سے کھائیں گے۔ ہم سب مزدور کے نام پر نیند پوری کریں گے لیکن ہمارے علاقے کے مزدور آج بھی مختلف چوکوں اور چوراہوں میں امیر زادوں کے منتظر ہوں گے جو ان کے بچوں کی روٹی کا وسیلہ بن سکے۔
بقول افضل خان۔
لوگوں نے آرام کیا اور چھٹی پوری کی
یکم مئی کو بھی مزدوروں نے مزدوری کی