سقراط کا معذرت نامہ (1)
افلاطون کا شمار سقراط کے ان قریبی شاگردوں میں ہوتا ہے جنھوں نے سقراط کے فلسفے کو اگلی نسلوں تک منتقل کرنے اور سقراط کو دریافت کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا، یوں تو افلاطون کے تمام مکالمات کو ہی بہت پذیرائی نصیب ہوئی مگر "ری پبلک "کے بعدافلاطون کے جو مکالمات سب سے زیادہ پڑھے گئے ان میں اپالوجی، کریٹو اور فیڈو ہیں۔ یہ تین مکالمات اس سہہ المیے کی تشکیل کرتے ہیں جس میں ایتھنز کی شہری عدالت میں سقراط کے مقدمے اور اس مقدمے میں سقراط کے لیے سزائے موت کے فیصلے سے لے کر اس سزا پر عمل درآمد تک کے تمام واقعات بیان کیے گئے ہیں۔ فکرِ انسانی کی تاریخ میں سقراط کو ایک اہم مقام حاصل رہا اور یہی وجہ ہے کہ اپنے دور کے اس عظیم فلسفی کے انجام کی یہ دکھ بھری روداد سقراط کے مداحین کے لیے ہمیشہ دل چسپی کا باعث رہی۔
مکالماتِ افلاطون میں پہلا مکالمہ "اپالوجی" (معذرت نامہ) ہے جس میں سقراط اپنا دفاع کرتا ہے۔ سقراط کامؤقف ہے کہ "میں وہی کچھ کہتا ہوں جسے میں حق سمجھتا ہوں، لوگوں کی ناراضی کی وجہ سے حق اور سچ سے پہلو تہی کرنا بزدل لوگوں کا کام ہوتا ہے"۔ سقراط کہتا ہے کہ" انسان کو ہمیشہ اپنی زندگی کا ناقدانہ جائزہ لیتے رہنا چاہیے تاکہ وہ اپنی اور دوسروں کی بھلائی کاسوچ سکے، جہاں تک سزائے موت کا سوال ہے تو یہ کوئی ایسی نقصان دہ بات نہیں کہ جس کے لیے انسان حق و صداقت اورتلاش و جستجو کا راستہ چھوڑ دے"۔ پہلا مکالمہ اپالوجی، در اصل سقراط کہ وہ گفتگو ہے جو عدالت میں دوران مقدمہ کیا۔
یہ مقدمہ تین الزامات کی بنیاد پر دائر کیا گیا تھا، قومی دیوتائوں کے انکار، نئے دیوتا وضع کرنے اور نوجوانوں کو گمراہ کرنے سے متعلق تھا۔ استغاثہ تین افراد نے دائر کیا تھا، آنی ٹسن، جو ایک سیاست دان تھا، شاعر میلٹیس اور تیسرا شخص ایتھنز کا ایک مشہورخطیب لائی کون تھا۔ سقراط پر لگائے جانے والے تینوں الزامات محض بہانہ تھا، اس کا اصل جرم سیاسی تھا، وہ ایک طرف آمریت کا سخت ناقد تھا اور دوسری طرف وہ کثرت رائے کے جمہوری اصول کے مخالف تھا، اس کا خیال تھا کہ عاقل افراد کی رائے ہی قابل توجہ ہونی چاہیے خواہ کثرت کی رائے اس کے برعکس ہی کیوں نہ ہو۔
سقراط نے انتہائی ہمت و بہادری سے اپنا مقدمہ لڑا اور عدالت میں"اپالوجی"جیسے اہم موضوع پر مکالمہ کیا، اس مکالمے یا گفتگو سے صاف ظاہر ہے کہ وہ اپنے نظیرے پر بالکل بھی نادم نہیں تھا۔ سقراط کے پاس سزا کے دو آپشن تھے، جلاوطنی یا سزائے موت۔ اسے کہا گیا کہ وہ کسی ایک راستے کا انتخاب کر لے جب کہ سقراط نے مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ جب میں نے کوئی جرم ہی نہیں کیا تو سزا کیسی اور اگر میں کوئی سزا منتخب کرتا ہوں تو اس کا مطلب ہے کہ میں نے اپنا جرم تسلیم کر لیا اور میں ایسا کبھی نہیں کروں گا۔
اس مکالمے میں سقراط نے یہ باور کروا دیا کہ کسی قسم کے خوف یا دھمکی سے اس کی زبان و دل کی رفاقت کو ختم نہیں کیا جا سکتا اور یہ کہ حق گوئی سے اسے صرف اسی طرح باز رکھا جا سکتا ہے کہ اسے شہید کر دیا جائے۔ سقراط عدالت میں انتہائی مطمئن ہو کر اپنے اوپر لگنے والے الزامات کے جواب دیتا رہا، سقراط پر استغاثہ کے الفاظ کچھ یوں تھے، "سقراط ایک ایسا بد اندیش اور متجسس شخص ہے جو زمین کے نیچے اور آسمانوں میں چھپی ہوئی اشیاء کو تلاش کرتا ہے، وہ بد تر کو بہتر بنا کر پیش کرتا ہے اور دوسروں کو بھی انہی نظریات کی تعلیم دیتاہے"۔ سقراط نے اسے اپنی دانائی سے جوڑا، اس کا کہنا تھا کہ میں کوئی مافوق الفطرت باتیں نہیں کرتا، میں اتنا ہی دانا ہوں جتنا ہر شخص ہو سکتا ہے اور میں وہی سوال کرتا ہوں جو ایک عاقل او دانا شخص کو کرنے چاہیے۔
سقراط دوران مقدمہ اپنے مدعی میلٹیس سے گویا ہوتا ہے کہ تمہیں لگتا ہے ان نوجوانوں کو میں گمراہ کرتا ہوں، کیا ایسا ممکن ہے کہ ایک ہی شخص گمراہ کر سکتا ہوں یا ایک ہی شخص بہتر بنا سکتا ہو، کیا ایسا نہیں کہ ہم سب اپنے ماحول، معاشرے اور ہمسائیوں تک سے متاثر ہو رہے ہوتے ہیں، کیا ایتھنز کا ہر شہری انہیں بہتر بنانا چاہتا ہے اور میں اکیلا ہوں جو نوجوانوں کو خراب کر رہا ہوں، کیا میں ایسا ارادتاً کر رہا ہوں؟
سقراط نے اپنے مدعی کے متضاد رویے کو بھی منصفین کے سامنے پیش کیا، ایک طرف میلٹیس کا کہنا ہے کہ میں دیوتائوں کے وجود سے انکاری ہوں اور دوسری طرف یہ بھی تسلیم کرتا ہے کہ میں روحانی یا الوہی واسطوں پر یقین رکھتا ہوں، بقول سقراط"یہ تو ایسا ہی ہوا کہ ایک شخص انسانوں کی بنائی ہوئی چیزوں پر تو یقین رکھتا ہوں مگر انسانوں کے وجود سے انکاری ہو یا کوئی شخص گھوڑوں کے سدھائے جانے کا تو قائل ہو مگر گھوڑوں کے وجود سے انکار کرے۔ سقراط نے اپنے اوپر لگائے جانے والے الزامات کو انتہائی سنجیدگی اور توجہ سے سنا، منصفین کے سامنے اپنے دلائل رکھے اور عوام اور جیوری کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی کہ میلٹیس اور آنی ٹس کی طرف سے لگائے جانے والے الزامات انتہائی غیر سنجیدہ ہیں۔
سقراط پر نوجوانوں کا گمراہ کرنے کا الزام انتہائی شدید تھا، عوام کو سقراط سے دور کرنے اور سقراط کے بارے ایتھنز کے لوگوں میں نفرت پیدا کرنے کے لیے یہ الزام گھڑا گیا، سقراط پر الزام تھا کہ وہ نوجوانوں کو ہمارے دیوتائوں سے منتفر کر رہا ہے، ایتھنز کے نوجوان سورج اور چاندکے بارے سوالات کر رہے ہیں۔ سقراط پر پر لگائے جانے والے تینوں الزامات سنجیدہ ہوں گے مگر سقراط کا اصل جرم سیاسی تھی، وہ آمریت کا نہ صرف ناقد تھا بلکہ نام نہاد جمہوریت کے خلاف تقریریں کرتا تھا، اپنے شاگردوں کو حقیقی جمہوریت کی طرف لانے کی کوشش کرتا تھا، اس نے اپنی ستر سال کی زندگی میں ایتھنز کے لوگوں کو شعور دینے کی کوشش کی، انھیں اس سامراج کے خلاف متحد کرنے کی کوشش کی جس نے جمہوریت کا لبادہ اوڑھ کر آمریت کا پرچار کیا۔
جاری ہے۔۔