Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Aaghar Nadeem Sahar
  3. Mushaire

Mushaire

مشاعرے

میں نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ کی، پوسٹ میں ایسے کرداروں، شاعروں اور دانش وروں کے خلاف احتجاج ریکارڈ کروایا جنھوں نے نہ صرف ادبی تقاریب اور مشاعروں کا ماحول آلودہ کر رکھا ہے بلکہ وہ لوگ نجی دعوتوں پر بھی جائیں تو اپنی حرکتوں اور بدتہذیب رویے سے باز نہیں آتے۔ ان لوگوں کے خلاف احتجاج ریکارڈ کروانا اس لیے بھی اہم ہوگیا تھا کہ مشاعرے اور ادبی تقاریب جو ہماری تہذیب اور ثقافت کا ایک اہم حصہ ہوا کرتے تھے، جہاں عوام اس لیے شریک ہوتے تھے کہ ہمیں کچھ سیکھنے کو ملے گا، وہ مشاعرے اور ادبی تقاریب اب سیاسی جلسے بنتے جا رہے ہیں۔

انتہائی سینئرز قلم کار جنھوں نے پوری زندگی اسٹیجوں پر گزاری، سینکڑوں یادگار مشاعرے پڑھے، درجنوں تقاریب منعقد کروائیں، وہ بھی اس مہم میں پیش پیش ہیں، مہم کیا ہے، ایک پراپیگنڈا ہے جس کے زیر سایہ ادبی ماحول کو آلودہ کیا جا رہا ہے اور ایسے درجنوں نوجوانوں کو پوری منصوبہ بندی سے لانچ کیا گیا جن کے پاس نہ شعر تھا اور نہ شعری تربیت۔ محض اس لیے کسی خاتون یا نوجوان کو اسٹیج پرکھڑا کر دینا کہ کل یہی نوجوان مجھے مشاعروں میں بلائیں گے، جامعات میں میرے لیے"واہ واہ"کا انتظام کریں گے، میری لابی یا ٹیم کا حصہ بنیں گے اور میرے اعزاز میں مشاعروں کا بندوبست کریں گے، انتہائی کم ظرف رویہ ہے۔ اگر کسی سینئرز شاعر کا بیس پچیس یا تیس سال شعر سنا کر بھی پیٹ نہیں بھرا تو اس کا مطلب ہے اس کا ہاضمہ خراب ہے اور اسے کسی ایسے سنیاسی حکیم سے رابطہ کرنا چاہیے جو اس کی اس بیماری کا دائمی علاج کر سکے اور اگر یہ بیماری لا علاج ہو جائے تو ایسے سینئرز کو خلوت کی طرف جانا چاہیے تاکہ خدا کا قرب پا سکیں۔

پوسٹ میں اس چیز کی طرف اشارہ کیا گیا تھا کہ ادبی تقاریب میں اگر کوئی شاعر اپنی "واہ واہ "یا اپنے نام کے نعروں کے لیے بیس پچیس بچونگڑے ساتھ لے جاتا ہے تو ایسے شاعروں کو مشاعروں میں نہیں، سیاسی جلسوں میں پرفارم کرنا چاہیے، وہاں نعرے لگانے والے بھی مل جاتے ہیں اور ساتھ بھنگڑا ڈالنے والے بھی، بلکہ مجھے یاد آیاایک انڈین شاعر کے بارے مشہور ہے کہ وہ مشاعروں میں اپنے ساتھ ایک ڈھول والا بھی لے کر جاتا ہے، جب جب وہ شاعر شعر سناتا ہے، عوام تالیاں بجاتے ہیں اور ڈھول والا ڈھول، اس پر وہ شاعر مزید پرجوش ہو جاتا ہے۔

پاکستان میں بھی ہونے والے مشاعرے ایسی ہی صورت حال سے دوچار ہیں، یہ صورت حال اگرچہ انتہائی تکلیف دہ ہے مگر ہمارے بہت سے میزبان مجبور ہیں، انھیں لگتا ہے کہ اگر ایسے پرفارمر کو نہیں بلائیں گے تو شاید ہمارے مشاعرے ناکام ہو جائیں گے یا پھر ہمیں سامع نہیں ملیں گے۔ مجھے اس سے قطعاً اعتراض نہیں کہ پرفارمر کیوں بلائے جاتے ہیں، میرا اعتراض تو یہ ہے کہ وہ مشاعروں میں کیوں بلائے جاتے ہیں، مشاعروں کو بالکل مختلف اور منفرد ہونا چاہیے مگر صد حیف! ایسا نہیں رہا۔

ادبی تقاریب کے میزبان بھی کڑے امتحان سے گزر رہے ہیں، وہ اگر کسی ایسے شاعر کو مشاعروں یا نجی محافل میں بلا لیں، جس نے اپنا "ادبی گینگ"بنا رکھا ہے، سخت پریشانی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ شاعر صاحب پہلے تو یہ دبائو ڈالتے ہیں کہ میرے بچونگڑوں کو بھی پڑھایا جائے، جب وہ پڑھ لیتے ہیں تو پھر پچھلے نشستوں پر بیٹھ کر گپوں، جگتوں اور شاعروں کے اشعار کا مذاق بنانے میں لگ جاتے ہیں، جونہی ان کے گینگ کا سرغنہ(استاد جی)، مائیک پر آتا ہے، وہ دوبارہ الرٹ ہو جاتے ہیں اور پھر داد، نعرے، قہقہے، تالیاں اور فرمائشیں شروع ہو جاتی ہیں اور جب یہ سرغنہ پڑھ چکتا ہے، وہ بچونگڑے دوبارہ تتر بتر ہو جاتے ہیں۔

کھانے کے دوران بھی یہی صورت حال دیکھی جاتی ہے، میزبان بے چارے نے محض چند مہمان شعرا کے لیے کھانے کا اہتمام کر رکھا ہوتا ہے، وہاں سینئر شاعر صاحب اپنے پورے گینگ کے ساتھ پہنچ جاتے ہیں اوروہ گینگ روٹی پر یوں دھاوا بولتا ہے جیسے پہلی دفعہ روٹی دیکھ رہے ہوں، ایسے میںمیزبان شرم کا مارا خاموش ہو جاتا ہے کہ اب ان سب سے کیا کہے۔ ہمارے ایک دوست ہر ماہ چند دوستوں کو کھانے پر بلاتے ہیں، یہ محفل انتہائی نجی نوعیت کی ہوتی ہے، میں نے ایک مرتبہ ان سے بھی اس دکھ بھری روداد کو سنا، کہنے لگے اب کسی دوست کو کھانے پربلائیں تو پہلے کہنا پڑتا ہے کہ" یہ دعوت ایک بندے کے لیے ہے"۔

ادبی تقاریب اور مشاعروں کی ادبی فضا تو آلودہ تھی ہی، ایسے کرداروں نے نجی نوعیت کی محافل کی رونقوں کو بھی برباد کر دیا ہے، اب کوئی اس ڈر سے دعوت نہیں رکھتا کہ کہیں مہمان صاحب درجن بھر لوگوں کے ساتھ پہنچ نہ جائیں۔ اسی طرح کا ایک شکوہ ایک مشہور میزبانِ مشاعرہ نے بھی کیا، وہ دوست بڑی نوعیت کے مشاعرے کرواتا ہے، ایک دن کہنے لگا کہ یار یہ فلاں (ایک مشہور سینئر شاعر)کو نہ جانے کیا بیماری ہے، جب بھی اسے مشاعرے کے لیے فون کریں، وہ پہلے تو ایک فہرست تھماتا ہے کہ میرے ساتھ فلاں فلاں شاعر کو بھی بلائیں، پھر ان کا اعزازیہ بھی خود طے کرتا ہے اور ظلم یہ کہ بعد میں ہماری بنائی ہوئی فہرست پر اعتراض بھی لگاتا ہے کہ یہ بندہ ٹھیک نہیں، یہ شاعر ٹھیک نہیں، اس کی ڈریسنگ ٹھیک نہیں ہوتی، یہ ہمارے حلقہ احباب میں نہیں آتا، وغیرہ وغیرہ۔

اسی سے ملتی جلتی صورت حال کا سامنا بیرون ملک مشاعروں کے منتظمین کو بھی ہے، وہ بے چارے خود فیصلہ نہیں کرتے کہ کسے بلانا چاہیے بلکہ پاکستان میں بیٹھے دو تین لوگ انھیں فہرست دیتے ہیں اور ساتھ سپانسر دینے کا لالچ بھی دیتے ہیں تاکہ فہرست میں ردوبدل نہ ہو سکے۔ سب جانتے ہیں کہ ایسا ہو رہا ہے، مگر بولنا، احتجاج ریکارڈ کروانا اور ایسے کرداروں کا بائیکاٹ کرنا ایک مشکل کام ہے، جو کم لوگ کرتے ہیں۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari