Sunday, 29 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zubair Hafeez
  4. Etedal Syndrome

Etedal Syndrome

اعتدال سینڈروم

کتابیں پڑھنے والے اور گھر میں شاندار لائبریری بنانے والے حضرات جب چالیس کی عمر کو کراس کر جاتے ہیں تو انھیں اور بہت سی بیماریوں کے ساتھ ایک بیماری اعتدال کی بھی چمٹ جاتی ہے۔ معتدل ہونا اچھی بات ہے مگر ایک حد سے زیادہ معتدل ہونا بذات خود اعتدال کے بر خلاف ہے، یہ "معتدل" لوگ آپ کو بتائیں گئے ہمیں کسی نظریے کے خلاف نہیں بولنا چاہئے، کسی عقیدے کے خلاف نہیں لکھنا، انھیں ہر بولڈ لکھنے والا معتصب اور جذباتی لگتا ہے، یہ بڑے خشوع وخضوع ہمیں بتائیں گے۔

"دیکھو برخوردار بات یہ ہے کہ اپنا عقیدہ چھوڑو نہیں اور دوسرے کا چھیڑو نہیں"۔

اگر کوئی لونڈا ان کی نمائشی بزرگی کے رعب میں آیا ہو تو وہ سر دھنتا رہ جاتا ہے کیا ہی اعلی بات کہی ہے حضرت نے۔ یہی تو علم کا ہمہ اُوست ہے جو حضرت ارشاد فرما رہے ہیں اپنا عقیدہ چھوڑو نہیں اور دوسرے کا چھیڑو نہیں۔ مگر درحقیقت اعتدال سینڈروم کے شکار بزرگ نے بونگی وجائی ہے۔ اس سے بڑی فکری بزدلی اور کیا ہوگئی انسان کو اپنا آبائی نظریہ چھوڑنے کی ہمت نہ ہو۔

میرا ماننا ہے کہ پہلے ہم اپنے آبائی عقیدے کو چھوڑیں اور پھر دوسروں سے چھیڑ چھاڑ کرتے رہیں، فکری ارتقاء کے لیئے یہ چھیڑ چھاڑ ضروری ہوتی ہے۔ اگر ہم یہ اصول اپنا کر بیٹھ جاتے تو سارے پھر تھانوی صاحب کے مرید ہی جنم لیتے۔ دنیا کے اندر جتنے بھی فکری انقلاب آئے ہیں، سائنسی دریافتیں ہوئی ہیں، سیاسی انقلاب آئے ہیں۔ ان سب نے پہلے اپنا آباء، معاشرے یا فرقے کے تھوپے گئے عقائد کو تیاگا پھر دوسروں سے چھیڑ چھاڑ کی ہے، تب جا کہ ایک نئی فکر منظر شھود پر آئی ہے، ایک نئی ایجاد ہوئی ہے، اگر مارٹن لوتھر کیتھولک چرچ کی طرح جنت کی ٹکٹیں ہی بیچتا رہتا اور کلیساء سے ٹکر نہ لیتا تو کیا اتنا بڑا انقلاب آسکتا تھا، اگر گلیلو بھی پادریوں کے رٹائے گئے سبق کے مطابق زمین کو ساکن سمجھتا رہتا تو آج اعلی حضرت احمد رضا خان کی طرح وہاں بھی زمین ساکن ہے کورس کی کتابوں میں پڑھایا جا رہا ہوتا۔ گلیلو نے مارٹن لوتھر نے، آئن سٹائن نے، نیوٹن نے، سقراط نے، ان سب نے شکر ہے اشرف علی تھانوی کا قول نہیں پڑھا تھا اپنا چھوڑو نہیں اور دوسرے کو چھیڑو نہیں۔

سارے انبیاء کی زندگی اس اصول کے عین الٹ گزری ہے ہر نبی اپنے آبائی عقیدے کا ناقد تھا، اس نے اس آبائی عقیدے کو چھوڑا صرف چھوڑا ہی نہیں بلکہ اس آبائی یعنی بت پرستی یا شرک عقیدے کے خلاف تبلیغ بھی کی۔ جسے آپ چھیڑنا کہہ رہے ہیں۔

یہ تو بہت بڑی فکری بزدلی ہے کہ آپ اعتدال کے نام پر کنویں کے مینڈک بن کر رہ جائیں، اپنے خیالات کا اظہار بھی نہ کر پائیں تو پھر کتابوں کا کباڑ پڑھنے کا کیا فائدہ، جب کسی میں جرات نہیں ہوتی کہ وہ مسلط کی گئی سوچ کو للکار سکے تو وہ اپنی بزدلی چھپانے کے لیے اعتدال میں پناہ لیتا ہے۔ جب آپ بات کریں گے نہ چاھتے ہوئے اس سے کوئی نہ کوئی اختلاف کرے گا، آپ نہ بھی چاہیں کوئی نہ کوئی چھڑے گا، اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ غنے بن کر بیٹھ جائیں، معتدل لوگ بہت زیادہ میکانکی ہوتے ہیں، ان کے پاس علم نہیں ہوتا بلکہ وہ معلومات کا چلتا پھرتا وکی پیڈیا ہوتے ہیں، ان کی اپنی کوئی فکر نہیں ہوتی، معلومات کا انبار تو ہوتا ہے مگر معلومات کے انبار سے علم نہیں نچوڑ سکتے۔

علم کو جذبات کا سیک چاہیے ہوتا ہے، تعصب کی تپش چاہیے ہوتی ہے، تعصب اور جذباتیت کے بغیر علم جنرل نالج کی کتاب کی طرح ہوجاتا۔ بڑی فکر اور فلسفے جذباتیت اور تعصب کی تہوں سے نکلتے ہیں، ہم کوئی روبوٹ تھوڑے ہی ہیں لکھے ہوئے کو پڑھ کر ہماری سوچ نہ ہلے، ہمارے جذبات کا لاوا ٹھاٹھیں نہ مارے ہم سے متاثر ہو کر متصب نہ ہوں۔ بغیر تعصب اور جذبات کے انسان تو خصی سانڈ کی طرح ہوتا ہے۔ تھوڑی بہت تو تعصب کی عیاشی بھی ضروری ہوتی ہے یہی فرق ہوتا ہے جذباتی اور میکانکی یا کھوکھلے انسان میں۔

ان کھوکھلے کتابی لوگوں کو معتدل رہنے کا ہیضہ ہوجاتا ہے جو انھیں اعتدال سینڈروم کا دائمی مریض بنا دیتا ہے۔

Check Also

Beti Ka Qasoor Kya?

By Alisha Riaz