Thursday, 02 January 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asad Ur Rehman Aasi
  4. Azad Riyasat Ke Ghulam Log

Azad Riyasat Ke Ghulam Log

آزاد ریاست کے غلام لوگ

حالیہ دنوں کھادر کے قریب ایک بھٹہ سے 20 مقید مزدوروں، جن میں خواتین اور بچے شامل تھے، کی رہائی نے یہ ظاہر کیا ہے کہ پاکستان کی آزاد ریاست میں کمزور مزدوروں کی زندگی کتنی مشکل ہے۔

اگرچہ ریاستی قوانین اور عالمی معاہدے جبری مشقت کو ختم کرنے کے لیے نافذ کیے جاتے ہیں، لیکن بھٹوں، زراعت، گھریلو ملازمین اور ورکشاپس میں مزدوری کے مقید نظام کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ قوانین کے نفاذ کے باوجود، جبری مشقت یا جسے "غلامی" کہا جا سکتا ہے، پاکستان میں آج بھی پائی جاتی ہے۔ زیادہ تر مزدور غریب، ان پڑھ اور اپنے حقوق سے بے خبر ہوتے ہیں، یا پھر قوانین کے ناقص اطلاق کی وجہ سے ان کے مسائل حل نہیں ہوتے۔

مزدور زیادہ تر قرضوں کے جال میں پھنس جاتے ہیں کیونکہ مالکان اور بعض اوقات ٹھیکیدار انہیں سود پر قرض دیتے ہیں جسے وہ اپنی محنت سے ادا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ان قرضوں کو پیشگی کہا جاتا ہے، جو ایک نہ ختم ہونے والی رقم بن جاتی ہے اور اگلی نسل کو وراثت میں منتقل ہو تی جاتی ہے۔

پاکستان نے عالمی ادارہ محنت کے کنونشز کی تو ثیق کر رکھی ہے جس میں کنونشن نمبر 29 (جبری مشقت کنونشن، 1930): جوکسی بھی شکل میں جبری مشقت کو ختم کرنے کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔

جبکہ کنونشن نمبر 105 (جبری مشقت کے خاتمے کا کنونشن، 1957): منافع کمانے کے لیے جبری مشقت پر پابندی عائد کرتا ہے۔

پاکستان میں جبری مشقت نظام خاتمہ ایکٹ 1992 کے تحت جبری مشقت غیر قانونی قرار دی گئی ہے اور اس نظام کے تحت بنائے گئے کسی بھی معاہدے کو قانونی طور پر کالعدم قرار دیا گیا ہے۔ لیکن قوانین کے اطلاق کے لیے موجود کمزور نظام کی وجہ سے یہ عمل ابھی تک بے قابو ہے۔

جبری مشقت محض روزگار کا مسئلہ نہیں، بلکہ یہ معاشی اور سماجی نابرابری کی واضح تصویر ہے۔ یہ غربت، ناخواندگی اور پسماندگی کے ماحول میں پروان چڑھتی ہے، جہاں کمزور طبقات معاشرتی دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔

بھٹہ مزدوروں، زراعت اور دیگر شعبوں میں کام کرنے والے مزدوروں کو انسانی حیثیت کے بجائے ایک استعمال کی چیز کی طرح سمجھا جاتا ہے۔ بہت سے مالکان دولت مند اور سیاسی طاقت رکھتے ہیں، جو قانونی نکات اور غریبوں کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھا کر انہیں غلام بنا لیتے ہیں۔ پاکستان میں مزدور یونینز کئی سالوں سے اس ناانصافی کے خلاف آواز اٹھا رہی ہیں اور بہتر اجرت، مناسب کام کے حالات اور اجتماعی سودا کاری کے حقوق کا مطالبہ کر رہی ہیں۔

یہ بات واضح ہے کہ جبری مشقت کا تسلسل صرف حکومتی اور سیاسی ناکامی کا نتیجہ نہیں بلکہ سماجی مسئلہ بھی ہے۔ یہ اس لیے جاری رہتی ہے کیونکہ معاشرہ ان کمزور حالات میں مبتلا افراد کے استعمال کا عادی ہو چکا ہے۔ خواتین اور بچے، جو جبری مشقت کا حصہ بنتے ہیں، اضافی استحصال کا شکار ہوتے ہیں، جن میں ہراسانی اور بنیادی انسانی حقوق، جیسے تعلیم اور صحت، سے محرومی شامل ہیں۔

اگرچہ سیاسی اور صنعتی تعلقات عام طور پر منظم مزدور قوتوں کے ذریعے اٹھائے جاتے ہیں، لیکن یہ مسئلہ تمام سماجی اسٹیک ہولڈرز کی شمولیت کا متقاضی ہے۔ حکومت کو جبری مشقت کے خلاف اقدامات کو مزید مؤثر بنانا ہوگا اور نجی شعبے کو استحصالی عمل کے لیے جوابدہ ٹھہرانا ہوگا۔

مزدور یونینز اس جدوجہد میں بنیادی کردار ادا کرتی رہیں گی، مظلوموں کے لیے آواز اٹھائیں گی اور ان کے حقوق کا تحفظ کریں گی۔ اگر سماج کے تمام عناصر متحد ہو کر اس مسئلے کو حل کریں، تو جبری مشقت کے خاتمے اور ایک ایسے معاشرے کی تشکیل ممکن ہو سکتی ہے، جہاں مزدور اپنی تقدیر پر خود اختیار رکھ سکیں۔

Check Also

Pachtawe Ki Taqat

By Asif Masood