Thursday, 02 January 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saira Kanwal
  4. Jawab e Jahilan

Jawab e Jahilan

جواب جاہلاں

فارسی زبان کا یہ خوبصورت محاورہ زبان زدعام ہے۔ مجھ جیسے کم فہم اور جاہل لوگ جب دوسروں سے مقصد اور دلیل سے خالی بحث میں ہار جائیں۔ تو دل میں جواب جاہلاں خاموشی باشد کہہ کر اٹھ جاتے ہیں۔

ہمارے پنجاب میں بڑے بوڑھے فرمانبردار بچوں کو لڑائی جھگڑے سے بچانے کے لئے اک چپ تے سو سکھ، کا سبق پڑھاتے تھے۔

خود میری والدہ مرحومہ نے مُجھے ہمیشہ یہ درس دینے کی ناکام کوشش کی۔ والدہ مرحومہ ہمیشہ کہتی تھیں، لڑکی ہو چپ رہا کرو، بھائیوں اور والد سے بحث نا کیا کرو۔ مخلوط تعلیم کا الزام بھی بارہا سنا کہ اسی وجہ سے زبان دراز ہوگئی ہے۔

جوش جزبات میں ہم کہتے تھے۔ چپ وہ ہوتا ہے، جس کے پاس بولنے کے لیے الفاظ اور بحث میں لاجواب کرنے کے لیے دلیل نا ہو۔ لیکن وقت کے ساتھ انسان کی سوچ میں تبدیلی آ جاتی ہے۔ ہر ذی شعور انسان کی زندگی میں ایک وقت ایسا آتا ہے۔ جب وہ قرآن کریم کی اس آیت پر عمل کرنا، دلیل دینے سے بہتر سمجھتا ہے۔

"اور رحمان کے بندے وہ ہیں، جو زمین پر عاجزی سے چلتے ہیں اور جب ان سے جاہل لوگ بات کریں تو کہتے ہیں سلام ہے"۔ سورہ الفرقان آیت نمبر63۔

اس آیت کے نزول وجہ سے چند لمحوں کے لیے صرف نظر کریں اور ظاہری مفہوم پر نظر ڈالیں۔ تو پتا چلتا ہے کہ دین اسلام میں جاہلوں سے بحث کرنا منع فرمایا ہے اور انھیں سلام کہہ کر اپنا راستہ پکڑنے کا کہا گیا ہے۔

گفتگو کرنا اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کائنات کی کل مخلوقات میں سے یہ شرف صرف انسان کو بخشا ہے کہ وہ الفاظ کا استعمال کرکے اپنا مافی الضمیر سمجھا سکتا ہے۔ سوچ سکتا ہے، اچھے برے کی تمیز کر سکتا ہے۔ نئی ایجادات کر سکتا ہے۔ دوسروں کے جذبات کا احساس کر سکتا ہے۔ جانتی ہوں ان صفات میں سے بہت سی عادتیں جانوروں میں بھی مل جاتی ہیں۔

مگر لفظوں کو سوچ کر تحریر میں ڈھالنا صرف انسان کی ہی خوبی ہے۔ جو اللہ رب العزت کی عطا کردہ ہے اور اس کی ابتدا گفتگو ہی سے ہوتی ہے۔

میرا ماننا ہے کہ تحریر بھی گفتگو کی ہی ایک شکل ہے۔ انسان کے لفظ بولتے ہیں۔ لیکن کیا ہو، جب آپ کسی سے تحریر کے زریعے گفتگو کر رہے ہوں اور وہ تحریر کے زریعے ہی بد زبانی کرنا شروع کر دے؟ کیا وہاں بھی تحریری خاموشی اختیار کر لینی چاہیے؟

اختلاف بہت خوبصورت رویہ ہے۔ نقاد ایک نعمت ہیں۔ اگر ہم اختلاف برداشت نہیں کر سکتے یا تنقید ہمیں ناگوار گزرتی ہے تو ہم کسی بھی اعلیٰ مقام کے اہل نہیں اور اگر ہم خود خاموش رہ کر سستے پیڈ کارکنان کو جواب دینے کے لیے آگے کر دیں۔ تو ہمیں اپنے اعلیٰ عہدے کو تدفین کرنے کی رسومات کا آغاز کر دینا چاہیے۔ کیوں کہ اس تقریب کا انعقاد کسی بھی وقت ہو سکتا ہے۔

ہمارے حکمران دوسروں کی غلطیوں سے دور کی بات اپنی غلطیوں سے بھی نہیں سیکھتے۔ یاد رکھیں ناقد کو جواب دیا جاتا ہے۔ جب تک ملکی سالمیت کا معاملہ درپیش ناہو، ناقد کی تنقید کو خاموش نہیں کروایا جاتا۔

ورنہ ناقد آپ کو سلام کرکے آگے بڑھ جائیں گے اور آپ وقت کے گول پہیے کے سبب گھومتے گھومتے ماضی کے اس مقام پر پہنچ جائیں گے۔ جہاں سے ہر مرتبہ یہ سفر شروع ہوتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہوگا کہ آپ ہمیشہ سے زیادہ تنہا ہوں گے۔

Check Also

Shafeeq Ghazali

By Rauf Klasra