خواجہ رفیق شہید کی برسی کا مستقل سوال
میں مال روڈ کے بڑے ہوٹل کے بڑے ہال میں خواجہ رفیق شہید کے 52 ویں یوم شہادت پر قومی سیمینار میں ہال کو کھچاکھچ بھرا دیکھ رہا تھا بلکہ سینکڑوں واپس جا رہے تھے کیونکہ وہاں کھڑے ہونے کی بھی جگہ نہیں بچی تھی۔ اس کی واحد وجہ یہ تھی کہ لاہور کے لوگ خواجہ رفیق شہید کے بیٹوں خواجہ سعد رفیق اور خواجہ سلمان رفیق سے محبت کرتے ہیں، وہ اسے ایک جینوئن سیاسی کارکن اور محب وطن پاکستانی سمجھتے ہیں۔
خواجہ رفیق شہید فائونڈیشن کے پلیٹ فارم سے ہربرس کی طرح اس برس بھی وہی سوال سامنے رکھا گیا تھا، بحرانوں سے گھرا پاکستان، اصلاح احوال کیسے ہو؟ میری پوری زندگی گزر گئی اور ہم اسی ایک سوال کے گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں۔ خواجہ سعد رفیق یہ سوال اس وقت بھی پوچھتے ہیں جب وہ اپوزیشن میں ہوتے ہیں، مشکل میں ہوتے ہیں اور اس وقت بھی جب وہ حکومت میں ہوتے ہیں اور آج ایک تیسری صورت ہے ان کی پارٹی کی حکومت ہے مگر وہ خود حکومت سے باہر ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ خواجہ سعد رفیق کو ان کے حلقے سے ہروانے کا فیصلہ واقعی ان کے ووٹرز کا تھا یا اسٹیبلشمنٹ کا مگر جس کا بھی تھا وہ جمہوریت کے لئے نامناسب اور ملک کے لئے نقصان دہ تھا۔
میرے پاس موجود اطلاعات کے مطابق رانا ثناء اللہ خان کے ساتھ ساتھ خواجہ سعد رفیق کو بھی حکومت کا حصہ بننے کی پیشکش کی گئی تھی مگر انہوں نے اسے قبول نہیں کیا۔ ان کے پاس اس پیشکش کو قبول نہ کرنے کی اپنی وجوہات اور دلائل بھی موجود ہیں اور متبادل مصروفیات بھی۔ سٹیج پروہ لوگ موجود تھے جن کے نکتہ نظر اور طریقہ کار سے اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر ان کی وطن سے محبت پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا جیسے جناب مجیب الرحمان شامی اور برادرم سہیل وڑائچ۔ سٹیج پر وہ رہنما بھی موجود تھے جن کی زندگی ہی سیاست کے خارزار میں گزری، حقیقی سیاسی اورجمہوری رہنما جیسے سردار ایازصادق، خواجہ آصف، رانا ثناء اللہ اور لیاقت بلوچ۔
قومی سیمینار میں پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات ہی سب سے بڑااور اہم موضوع رہے۔ جناب مجیب الرحمان شامی اور سہیل وڑائچ مذاکرات کی حمایت کرتے ہیں بلکہ ان کی ہی کیوں بات کی جائے، مذاکرات کے حامیوں میں پی ٹی آئی دور کی لمبی جیل کاٹنے والے خود خواجہ سعد رفیق اورسب سے سخت جیل کاٹنے والے رانا ثناء اللہ خان بھی ہیں لیکن سردار ایاز صادق اور خواجہ آصف جو سوال اٹھاتے ہیں وہ بہت اہم ہیں۔
سردار ایاز صادق نو مئی کا ذکر کرتے ہیں اور خواجہ آصف کہتے ہیں کہ پندرہ دنوں میں کیا ہوگیا کہ پونے چار برس تک مذاکرات سے انکار کرنے والی پی ٹی آئی مذاکرات کے لئے تائولی ہوگئی۔ مؤخر الذکر رہنمائوں کے الفاظ میں شکوک وشبہات نظر آتے ہیں مگر وہ ان پر زور نہیں دیتے، بہت خوبصورتی کے ساتھ ان کی جھلک دکھاتے ہوئے گزر جاتے ہیں، شائد وہ ڈرتے ہیں کہ اگر مذاکرات ناکام ہوگئے تو یہ ذمے داری ان پر نہ ڈال دی جائے۔
سردار ایاز صادق حقیقی معنوں میں بھلے آدمی ہیں، میں نے انہیں کبھی سخت بات کہتے ہوئے نہیں سنا۔ وہ بطور سپیکر بھی اپنے مقام اور ذمے داریوں سے آگاہ ہیں سو وہ کھل کے کہتے ہیں کہ مذاکرات میں ان کاکام صرف ایک سہولت کار کا ہے۔ خواجہ آصف تو کھل کے کہتے ہیں کہ وہ مذاکرات پر کچھ نہیں کہنا چاہتے۔ میرے خیال میں اگر خواجہ سعد رفیق اور رانا ثناء اللہ خان پی ٹی آئی سے مذاکرات کے حامی ہیں تو پھر کسی دوسرے کو اس کی مخالفت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
اگر ہم مذاکرات کے بارے غور کریں تو اس کمیٹی کے سربراہ اسحق ڈار ہیں اور عرفان صدیقی ترجمان، جس سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ اس کمیٹی کو میاں نواز شریف کی منظوری ہی نہیں بلکہ سرپرستی بھی حاصل ہے لہٰذا اگر نواز شریف بھی پی ٹی آئی سے مذاکرات کی اجازت دے رہے ہیں تو وہ نفع نقصان ہم سے بہتر سمجھتے ہوں گے کیونکہ ان لوگوں سے زیادہ شائد ہی کوئی پی ٹی آئی کی طرف سے اس کے دور حکومت میں ستایا گیا ہوگا۔
لیکن سوال تو اٹھانے ہوں گے اور وہ دونوں بنیادی سوال، کیا نو مئی کو فراموش کر دیا جائے؟ میرے خیال میں سیاسی حکومت کے پاس یہ مینڈیٹ اور اختیار ہی نہیں ہے کہ وہ نو مئی کے واقعات کو معاف کر سکے۔ میں نے اب تک پاک فوج کے ترجمان کی جتنی گفتگو سنی ہے یا جتنی پریس ریلیزیں دیکھی ہیں ان میں صاف ظاہر ہوتاہے کہ فوج نو مئی ہی نہیں بلکہ چھبیس نومبر کا ماسٹرمائنڈ عمران خان کو ہی سمجھتی ہے۔ یہ بانی پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا ٹرولز ہی ہیں جو اس وقت فوجی فلاحی اداروں کی کمرشل پراڈکٹس کے بائیکاٹ کی مہم چلا رہے ہیں۔
صورتحال یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے بانی نے جلسے جلوس ہی نہیں بلکہ ان میں خیبرپختونخوا کی حکومت کے وسائل سے وفاق پر باقاعدہ حملے کرکے بھی دیکھ لئے مگر فوج اور حکومت کی پالیسی تبدیل نہیں کروا سکے۔ معاملہ کچھ یوں نظر آتا ہے کہ جو کام وہ گریبان پر ہاتھ ڈال کر نہیں کروا سکے وہی اب مذاکرات کی بھیک کے ذریعے کروانا چاہتے ہیں یعنی اپنی رہائی۔ اس میں خواجہ آصف کی یہ تشویش سوفیصد بجا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مسلم لیگ ن استعمال ہوجائے۔
میں پہلے لکھ چکا کہ عمران خان اوراس کی پارٹی نے نواز شریف کو بہت دُکھ دئیے ہیں۔ شائد اس وقت ماحول ہی ایسا نہیں کہ مذاکرات کی پیشکش کو قبول نہ کرکے ماحول کو ٹھیک نہ کرنے کی ذمے داری اپنے اوپر لاد لی جائے۔ ویسے بھی مسلم لیگ نون کا مسئلہ یہ ہے کہ لوگ چاہے اسے جو مرضی کہتے رہیں اسے ہر موقعے پر اچھا بننے کا بہت شوق ہوتا ہے جبکہ پی ٹی آئی کے ساتھ یہ معاملہ ہرگز نہیں ہے۔
میں جانتا ہوں کہ حکومتی سیاستدان ہرگز بچے نہیں ہیں۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ پی ٹی آئی، شہباز شریف اور آصف زرداری کو بھنگ کے لڈو کھلا کے ٹھگی کر جائے مگر اس کے باوجود اس وقت پی ٹی آئی سے اس وقت مذاکرات غیر ضروری ہیں جب تک وہ نو مئی کی ذمے داری قبول نہ کرے، اس کی معافی نہ مانگے۔ یہ بات میں فوج کو خوش کرنے کے لئے ہرگز نہیں کر رہا بلکہ اس لئے کر رہا ہوں کہ واضح، ثابت شدہ، بھیانک جرائم کی سزا سے بچنا ان کے غرور اور تکبر کو بڑھا دے گا۔ یہ مزید فرعون ہوجائیں گے۔
میں نہیں جانتا کہ خواجہ رفیق شہید زندہ ہوتے تو ایک اور شیخ مجیب بننے کا خواب دیکھنے والے کے ساتھ کیا سلوک کرتے مگر میں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ مجرموں سے مذاکرات نہیں ہوا کرتے، ان سے آئین اور قانون کے مطابق ہی نمٹا جاتا ہے۔ رسمی اور کتابی باتیں اپنی جگہ مگرسیاق و سباق سمجھیں، پی ٹی آئی فائنل کال کی ناکامی کے بعد مذاکرات پر آمادہ ہوئی یعنی جس سانپ کے زہر والے دانت نکال دئیے گئے اب اس نے مذاکرات کی جپھی ڈال کے جان لینے کا فیصلہ کیا ہے۔