Thursday, 02 January 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashir Ali Zaidi
  4. Riyasat Qaim Rehti Hai

Riyasat Qaim Rehti Hai

ریاست قائم رہتی ہے

جب ہولوکاسٹ کی بات کی جاتی ہے تو دوستوں کو فوراََ غزہ یاد آجاتا ہے۔ آنا بھی چاہیے۔ لیکن کشمیر زیادہ قریب ہے۔ اسی کے ساتھ مختلف قومیتوں سے تعلق رکھنے والے اپنا درد یاد کرتے ہیں۔ بلوچستان ہمارا اپنا حصہ ہے۔ پشتون علاقوں میں عشروں سے خون بہہ رہا ہے۔ روہنگیا، یمن، شام، کس کس کا رونا روئیں۔

لیکن ایک منٹ۔ کیا ہولوکاسٹ سے ان کا موازنہ بنتا ہے؟ کیا انھیں نسل کشی کہا جاسکتا ہے؟

معاملات کو درست تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ ایک قتل بھی ظلم ہے اور لاکھوں افراد کا قتل بھی۔ لیکن الفاظ، اصطلاحات اور تراکیب کا درست استعمال نہ کریں تو وہ اپنی اہمیت کھو دیتے ہیں۔

ہم الفاظ کا اس قدر غلط استعمال کرتے ہیں کہ شاید ہی کوئی کرتا ہو۔ کسی علاقے میں ایک وقت پانی نہ آئے تو فوراََ کربلا سے تشبیہہ دے دیتے ہیں۔ کوئی حادثے میں مر جائے تو اسے شہید قرار دے دیا جاتا ہے۔ بغیر کچھ ایجاد کیے ایڈیسن اور بغیر کسی قید یا جدوجہد کے نیسلن منڈیلا بن جانے والے بھی آپ نے دیکھے ہوں گے۔

یہودی کیوں ہولوکاسٹ اور نسل کشی کے الفاظ پر حساس ہیں اور ان کے کہیں اور استعمال کے خلاف ہیں؟ ہمیں بات سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہودی صرف ایک مذہبی گروہ نہیں، نسلی گروہ بھی ہیں۔ وہ تبلیغ نہیں کرتے، یعنی نئے یہودی نہیں بناتے۔ نسل کا معاملہ یہ ہے کہ آپ اس میں گھس نہیں سکتے۔ آپ پنجابی ہیں تو پشتو سیکھ سکتے ہیں لیکن پشتون نہیں بن سکتے۔ فارسی سیکھ سکتے ہیں لیکن ایرانی النسل نہیں بن سکتے۔

نازی جرمنی نے یہودیوں کی نسل مٹانے کی منظم سازش کی۔ یورپ کے ہر ملک، ہر خطے میں انھیں گھیرا اور قتل کیا۔ ایسا چپ چپاتے نہیں، اعلانیہ کیا گیا۔ باقاعدہ مہم چلائی گئی کہ یہودیوں کو صفحہ ہستی سے مٹانا ہے۔ اس کے لیے پولیس اور فوج کے ساتھ شہریوں نے بھی حصہ ڈالا۔

دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر جب جرمنی کو شکست نظر آگئی تھی، تب بھی نازیوں نے کہا، ہارتے ہارتے بھی یہ کام تو کر ہی جائیں کہ جتنے یہودی مار سکتے ہیں، مار دیں۔ آخری وقت تک یہ سلسلہ جاری تھا۔

آپ کے گھر کا ایک شخص قتل کردیا جائے، آپ برسوں نہیں بھولتے۔ سنی شیعہ صدیوں پرانے مقتولین کو نہیں بھولے۔ آج بھی ان کی مجلسیں ان کا ماتم جاری ہے۔ ان یہودیوں کا سوچیں جن کی دنیا سے آدھی آبادی ختم کردی گئی۔ جو بچ گئے، ان کے خوف کا اندازہ کریں۔ سوچیں کہ وہ اپنے بچوں کی بقا کے لیے کس قدر فکرمند ہوں گے۔ کیا کیا نہ کرنا چاہیں گے۔

اسرائیلی ریاست اس مٹ جانے کے خوف، آئندہ نسل کی بقا کی سوچ کے ساتھ قائم کی گئی۔ اس میں بنیادی کردار یہودیوں کا تھا لیکن ان لوگوں نے بھی ہرممکن مدد کی جو ان کی بقا کے خواہش مند تھے۔

میں بار بار اپنے شیعہ پس منظر کا ذکر کرتا ہوں۔ ظاہر ہے کہ جو شخص جس خاندان کا ہوگا، اسی کی مثالیں دے گا۔ پاکستان میں شیعوں کے قتل کی لہر چل رہی تھی۔ مجلسوں اور جلوسوں میں دھماکے ہورہے تھے۔ تب ہر شیعہ کی خواہش تھی کہ امن ہو۔ وہ ایسی جگہ رہیں جہاں انھیں اپنے مذہب پر عمل کی آزادی ہو۔ ان کے بچے باہر جائیں تو انھیں دھڑکا نہ لگا رہے کہ جانے وہ واپس آئیں گے یا نہیں۔

یہودیوں کا بھی ایسا ہی حال تھا۔ وہ چند سو یا چند ہزار نہیں، دسیوں لاکھ کی تعداد میں قتل کیے جاچکے تھے اور ایسا پہلی بار نہیں ہوا تھا۔ تاریخ اٹھاکر دیکھیں، ایسا بار بار ہوا ہے۔ کبھی بابلیوں نے، کبھی رومنوں نے، کبھی مسلمانوں نے ان کے ساتھ یہی سلوک کیا۔

ایک بار پھر اپنے سوال کی طرف واپس آتے ہیں۔ کیا نیتن یاہو حکومت درست کررہی ہے؟

میں پاکستان اور امریکا کی حکومتوں سے خوش نہیں ہوں، اسرائیلی حکومت کی حمایت کیسے کرسکتا ہوں۔ لیکن حکومت اور ریاست میں فرق ہوتا ہے۔ حکومتیں بدل جاتی ہیں۔ پالیسیاں بدل جاتی ہیں۔ ریاست قائم رہتی ہے۔

میں جانتا ہوں کہ یہاں اسرائیلی ریاست کو ناجائز کہنے والے آجائیں گے۔ یہ تاریخ بلکہ حال سے بھی لاعلمی کا اظہار ہوگا۔ اگر تاریخ دیکھیں تو اسرائیلی ریاست نبی اللہ داود نے ہزاروں سال پہلے قائم کی تھی۔ یعنی پرانا دعوی یہودیوں کا ہے۔ اگر حال کی بات کریں تو مسئلہ فلسطین کی بنیادی فریق فلسطینی اتھارٹی ہے۔ اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی ایک دوسرے کا حق اوسلو معاہدے میں تسلیم کرچکے ہیں۔ اگر عرب اور ہمسائے اس مسئلے کے فریق ہیں تو وہ بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرکے اسے تسلیم کرچکے ہیں۔

غزہ کی جنگ کو بند ہونا چاہیے۔ لیکن لڑائی کس نے شروع کی، کس حد تک کی، جوابی کارروائی کہاں اور کیسے ہورہی ہے، ہلاکتوں کی تعداد درست رپورٹ ہورہی ہے یا مبالغہ کیا جارہا ہے، کیا امن کی خواہش کہیں موجود بھی ہے یا نہیں، اس بارے میں مزید بات جلد کریں گے۔ اسرائیل کے سفر میں اس پر کافی بات ہوئی ہے اور میں وہ سب تفصیل لکھوں گا۔

Check Also

Aurat Kya Hai

By Muhammad Umair Haidry