Bosa
بوسہ

بوسے کی پیدائش انسان کی طرح فطرت "سلیم" پر ہوئی۔ بوسے کو مذھبی عقیدت کے اظہار کے لیے ایجاد کیا گیا، بتوں، مورتیوں پر لب زنی کی جاتی، بادشاہ، امراء پروہتوں کے ہاتھوں پر بھی بطور تعظیم بوسہ دیا جاتا، مگر رفتہ رفتہ بوسہ خاصا بے حیا ہوتا گیا، اس کا دل مورتیوں اور مقدس پتھروں سے اکتاتا گیا، اس کی دست رازیاں بڑھتے بڑھتے جنس مخالف تک آگیں۔ holy kiss سے فرنچ کس تک کی داستان خاصی دلچسپ ہے۔
مقدس پتھروں پر بطورِ تعظیم بوسہ دینے والی ہولی کس فرانسیسی دوشیزاؤں کے ہونٹوں پر بطور شہوت لب بوسی کرنے سے فرنچ کس بن گی، فرانسیسیوں کی یہ واحد ایجاد ہے جو مجھے مرغوب ہے، جب کنوارہ پن عورتوں کا زیور ہوا کرتا تھا، فرنچ دوشیزائیں ہونٹوں کی کنوارگی کی قائل تھیں، کسی فرانسیسیی تاریخ کی کتاب میں پڑھا تھا۔
"Good girl's supposed supposed to save her lips for husband"
یہ فرانسیسیوں کا ذوق تھا، نیک چلن عورتوں کا معیار ان کے ان چھوئے ہونٹوں سے طے کیا جاتا، وگرنہ ہمارے والے پردہ بکارت کی کنوارگی کے بغیر نہیں ٹلتے، خدا کہا سنا معاف کرے، کئی دفعہ سننے میں آتا ہے، شادی کی پہلی رات ہی دلہن کو شوہر نے طلاق دے دی، ایمان بالغیب والے کنوارے پن پر ایمان بالدلیل پر آجاتے ہیں۔ کاش ان مطلقہ عفیفاوں کو فرنچ دولہے ٹکرے ہوتے۔
فن بوسہ میں تو یہاں کے دولہے کورے ہیں، بوسے کی اعلی ترین تعریف جو نظروں سے گزری ہے وہ clement Wood کی آرٹ آف کسنگ میں پڑھی، فاصل مصنف لکھتا ہے۔
"Kiss is a salute with lips"
بوسہ وہ سلامی ہے ہونٹوں سے دی جاتی ہے۔
سمجھ نہیں آتی بندہ جامعیت کی داد دے یا الفاظ کی۔ کیا بوسے کی تعریف کی ہے، جو اکیس توپوں کی سلامی کے قائل ہوں و بھلا دو ہونٹوں کی سلامی کی لذت کو کیا جانیں۔ مگر مُجھے حیرانگی تو پنڈت کوکا پر ہوتی ہے، موصوف نے ہندوستان کی سب سے جامع جماع گائیڈ کوک شاستر لکھ ڈالی مگر بھولے سے بھی آداب بوسہ پر نہیں لکھا۔
پنڈت کوکا کی بھی داستان سن لیجیے، ریاست کشمیر کا وزیر اعظم تھا، بدچلنی کے باعث قید ہوا، ایک دفعہ راجہ سمبھو سنگھ کے دربار میں ایک خاتون الف ننگی آئی اور درباریوں سے مخاطب کرکے بولی تم میں سے کوئی مرد ہے تو مجھے زیر کرکے دکھائے۔
درباریوں نے کہا یہ کام پنڈت کوکا ہی کرسکتا ہے، بعد ازاں پنڈت کوکا کی جنسی صلاحیتوں کی تاب نہ لاکر خاتون بے ہوش گی اور بادشاہ نے پنڈت کو کہا اپنے تجربات افادہ عام کے لیے لکھو۔
پنڈت کوکا کے ہی طریق کی بعض مسلم مصنفین نے بھی پیروی کی اور بالکان امت کی جنسی راہنمائی کی ٹھان لی۔
مگر افسوس وہاں بھی فرنچ کس تو درکنار بوسے کا ذکر مقفود تھا، ہاں پستانوں کو بوسہ دینے کا ذکر تھا مگر اس کو مکروہِ تحریمی قرار دے دیا گیا تھا۔
کاش امراہ القیس پستانوں کی عظمت پر لگے مکرہ تحریمی کے دھبے کو پڑھ لیتا، امراہ القیس عرب کا ہومر تھا، پستانوں کا شائق تھا، اپنی محبوبہ کی پستانوں کی تعریف کرتے ہوئے مصرعہ کہتا ہے۔
تمھارے پستان تو چاندنی آئینے کی طرح چمکتے ہیں۔
امرالقیس کی عربی کی پوتی زبان یعنی اُردو میں کوئی ایسا بولڈ شاعر نہ پیدا ہو سکا، میر سے لے کر فراز تک سب ہی شرعی رومانس کے قائل رہے، قزاق آنکھوں اور گلاب چہرے سے آگے کوئی نہ گیا، کسی شاعر نے چہرے سے تلے آنے کی جرات رندانہ نہ کی۔
محمد حسین آزاد نے اسی لیے اردو کو نیرنگ خیال میں مفلس زبان لکھا تھا۔ آزاد لکھتے ہیں "اُردو فارسی کے پروں سے اڑی، مبالغوں اور لفاظی کے زور سے آسمان پر چڑھ گی اور وہاں سے جو گری تو استعاروں کہ تہہ میں ڈوب گی"۔
اب ایسی معذور زبان کے شاعر بلا کب یہ جرات رندانہ کر پاتے کہ وہ امرا القیس کی طرح پستان یا ہومر کی مانند شہوانی بوسے پر لکھ پاتے۔
ویسے بھی مشرق میں جنسی تعلق بھی صرف تولید کے لیے قائم کرنے کا مزاج زیادہ نظر آتا ہے۔ فرنچ کس اور آرٹ آف کسنگ جیسے چونچلے فرنگی ہی کرتے ہیں۔ جہاں مرد قوام ہوں وہاں رومانس نہیں بس وطی ہی کی جاتی ہے۔
قوام سے مُجھے ایک جید مفتی سے کی گی ایک نشست یاد آگئی۔ میں نے شرارتا مفتی جی سے پوچھا تھا "کیا وجہ ہے کہ ایک مرد بیوی کو بستر پر بلائے اور وہ نہ آئے تو فرشتے عورت کے لئے صبحِ تک بدعا کرتے رہتے ہیں۔ عورت کو یہ اختیار کیوں نہ دیا گیا اس کے بلانے سے نہ آنے سے فرشتے شوہر کے لئے بدعا کرتے رہیں"۔
مفتی جی شرارت کو سمجھ گے اور ترکی بہ ترکی کہا "پتر، عورتوں نے اگر مردوں کو بلانا شروع کر دیا بستر پر تو بدعا دینے والے فرشتوں کے بھی "تھکے ہارے" مردوں کو بدعائیں دے دے کر گلے بیٹھ جائیں گے"۔
میں نے اس فتوی پر گرہ لگاتے ہوئے کہا "یوں کہیے نا کہ جو چیز آپ کے ہاں شادی سے پہلے زنا بالجبر کہلاتی ہے شادی کے بعد وہ جماع بالجبر بن جاتی ہے"۔
یہ کہنا تھا کہ دو خوفناک قہقوں سے دار الافتاء کے درودیوار لزر اٹھے۔