Pakistan Ke Naam
پاکستان کے نام

دنیا کی سیاست شطرنج کا وہ کھیل ہے جس میں صرف وہی کامیاب ہوتا ہے جو حریف کی چالوں کو پڑھ کر اپنے مہرے آگے بڑھاتا ہے۔ یہ کھیل صدیوں سے جاری ہے اور ہر دور میں کچھ کھلاڑی فاتح ٹھہرتے ہیں اور کچھ عبرت کی مثال بن جاتے ہیں۔ آج اگر ہم جنوبی ایشیا کے منظرنامے پر نگاہ ڈالیں تو صاف دکھائی دیتا ہے کہ پاکستان کی سفارتکاری ایک شاطر کھلاڑی کی مانند ہے جو نہ صرف اپنے مہرے بچا رہا ہے بلکہ حریف کے خواب بھی چکنا چور کر رہا ہے۔ دوسری جانب بھارت ہے جو اپنی ہی چالوں میں الجھ کر منہ کے بل گر رہا ہے۔
پاکستان کی خارجہ پالیسی کا تاریخی پس منظر اٹھا کر دیکھیں تو یہ ملک ابتدا ہی سے ایک بڑے جغرافیائی مقام کا حامل رہا ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے قیام پاکستان کے وقت ہی واضح کر دیا تھا کہ ہم کسی بلاک کے غلام نہیں ہوں گے بلکہ اصولی مؤقف پر چلیں گے۔ ایوب خان کے دور میں امریکہ کے ساتھ قربت بڑھی اور پاکستان نے سیٹو اور سینٹو جیسے معاہدوں میں شمولیت اختیار کی، لیکن یہی دور چین کے ساتھ تعلقات کے آغاز کا بھی تھا۔ 1965ء کی جنگ کے بعد چین نے پاکستان کے لیے جو ہمدردی دکھائی، وہ آنے والے وقتوں میں مضبوط دوستی میں بدل گئی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے امریکہ کو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی جرات دکھائی اور ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی، جبکہ چین کے ساتھ تعلقات کو مزید وسعت دی۔ ضیاء الحق نے افغان جنگ کے دوران امریکہ کو اپنی ضرورت منوائی، مگر پاکستان کی قیمت پر۔ پرویز مشرف نے نائن الیون کے بعد امریکہ کا ساتھ دیا لیکن اس کے باوجود امریکہ نے ہمیشہ پاکستان کو شک کی نگاہ سے دیکھا۔
اسی پس منظر میں اگر ہم غور کریں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ پاکستان نے ہمیشہ عالمی طاقتوں کے درمیان بیلنس قائم رکھنے کی کوشش کی ہے، لیکن موجودہ دور میں شہباز شریف کی قیادت میں یہ بیلنس ایک نئی شکل اختیار کر چکا ہے۔ آج پاکستان نہ تو امریکہ کا محتاج ہے اور نہ ہی چین کا غلام۔ بلکہ پاکستان دونوں کے ساتھ توازن رکھتے ہوئے اپنی شرائط پر تعلقات قائم کر رہا ہے۔ شہباز شریف نے حالیہ عالمی سمٹ میں یہ پیغام نہایت وضاحت سے دیا۔ جب وہ دنیا کے رہنماؤں کے ساتھ ہنسی خوشی بات کر رہے تھے اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی ایک کونے میں تنہا، اداس اور خاموش بیٹھے تھے، تو یہ منظر دنیا کے میڈیا نے بھی نوٹ کیا اور عالمی رہنماؤں نے بھی۔
مودی کی ناکامیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ انہوں نے دس سال تک یہ پروپیگنڈا چلایا کہ پاکستان دہشت گردی کا گڑھ ہے، پاکستان دنیا میں تنہا ہو چکا ہے، کوئی پاکستان سے ہاتھ ملانے کو تیار نہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان آج عالمی سیاست میں ایک مثبت کردار کے طور پر ابھر رہا ہے جبکہ بھارت اپنے ہی پروپیگنڈے کے بوجھ تلے دب چکا ہے۔ کشمیر میں مظالم، کسانوں کی تحریک، اقلیتوں پر ظلم، مسلمانوں پر پابندیاں، میڈیا پر قدغن اور سیاسی مخالفین کو جیلوں میں ڈالنے کی پالیسی نے بھارت کے چہرے سے نقاب کھینچ دیا ہے۔ دنیا نے دیکھ لیا ہے کہ بھارت سب سے بڑی جمہوریت نہیں بلکہ سب سے بڑی منافقت ہے۔
مودی نے جب سرجیکل اسٹرائیکس کا ڈرامہ رچایا تو دنیا ہنس پڑی۔ جب پلوامہ کے بعد پاکستان پر الزام لگایا تو خود بھارتی صحافیوں نے پول کھول دیا کہ یہ اندرونی سازش تھی۔ جب لداخ میں چین نے بھارتی فوجیوں کی ٹھکائی کی تو مودی نے زبان ہی بند کر لی۔ جی-20 اجلاس کے موقع پر جب کشمیر میں تقریب منعقد کرنے کی کوشش کی گئی تو دنیا کے بڑے رہنما شریک ہی نہ ہوئے۔ یہ وہ ذلتیں ہیں جو بھارت نے خود اپنے لیے خریدی ہیں۔ پاکستان نے ان سب مواقع پر سکوت اور حکمت عملی اختیار کی اور دنیا کو حقیقت خود دیکھنے دی۔ یہی اصل سفارتکاری ہے کہ دشمن اپنی حرکتوں سے خود ہی ذلیل ہو جائے۔
امریکہ اور چین کے درمیان پاکستان کا کردار کسی تعریف سے کم نہیں۔ یہ دونوں طاقتیں ایک دوسرے کے حریف ہیں، لیکن پاکستان نے دونوں کو ساتھ لے کر چلنے کا کمال دکھایا۔ چین کے ساتھ سی پیک منصوبہ پاکستان کی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی ہے۔ سڑکیں، ریلویز، توانائی کے منصوبے اور صنعتی زونز اس ملک کو ترقی کی نئی راہ پر ڈالنے جا رہے ہیں۔ دوسری طرف امریکہ کے ساتھ تعلقات بھی بدستور قائم ہیں، دفاعی تعاون ہو یا تجارتی مواقع، پاکستان نے امریکہ کو یہ باور کرا دیا ہے کہ ہم کسی کی کٹھ پتلی نہیں بلکہ خودمختار ملک ہیں۔ یہ توازن کوئی آسان کام نہیں، لیکن شہباز شریف کی سفارتکاری نے یہ کر دکھایا۔
عالمی سمٹ کا منظر ذہن میں لائیں۔ شہباز شریف ایک طرف ترکی کے صدر سے بات کر رہے ہیں، دوسری طرف سعودی ولی عہد سے ہنس کر گفتگو ہو رہی ہے، یورپی رہنما ان کے گرد جمع ہیں اور وہ ایک خوشگوار ماحول میں سب کو ساتھ لیے ہوئے ہیں۔ اب کونے میں تنہا بیٹھے نریندر مودی کو دیکھیں، جو اپنے وفد سمیت ادھر اُدھر نظریں دوڑا رہا ہے، مگر کوئی اس کے پاس جانے کو تیار نہیں۔ یہ وہ لمحہ تھا جس نے دس سالہ بھارتی پروپیگنڈے کو دفن کر دیا۔ دنیا کو صاف دکھائی دیا کہ پاکستان تنہا نہیں بلکہ دنیا اس کے ساتھ ہے اور بھارت ہی اصل میں اکیلا ہے۔
شہباز شریف نے مشرقِ وسطیٰ کے تنازعات میں بھی پاکستان کی غیرجانبداری کو مؤثر انداز میں پیش کیا۔ ایران اور سعودی عرب کے درمیان جب تعلقات میں بہتری آئی تو اس کے پس منظر میں پاکستان کی کوششیں بھی شامل تھیں۔ یمن کے مسئلے پر پاکستان نے فریق بننے سے انکار کیا اور امن کا بیانیہ پیش کیا۔ یہ وہ پالیسیاں ہیں جنہوں نے پاکستان کو ایک معتبر ثالث بنایا ہے۔ بھارت آج تک کسی تنازعے میں ثالث نہیں بن سکا بلکہ ہر جگہ نفرت اور انتشار پھیلانے والا ملک ثابت ہوا ہے۔
پاکستان کی کامیاب خارجہ پالیسی نے دنیا کو یہ واضح پیغام دیا ہے کہ ہم امن کے خواہاں ہیں، ترقی کے خواہاں ہیں اور دنیا کے ساتھ مل کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ اس کے برعکس بھارت کی ناکامیاں اسے مسلسل ذلت دلا رہی ہیں۔ دنیا نے دیکھ لیا ہے کہ پاکستان ایک ذمہ دار ریاست ہے جبکہ بھارت ایک ضدی اور متکبر ملک ہے جو اپنے ہی بوجھ تلے دب چکا ہے۔
یہ کہنا بالکل اصولی ہوگا کہ پاکستان کی سفارتکاری آج اپنی بلندیوں پر ہے۔ شہباز شریف نے دنیا کو دکھا دیا کہ ایک ملک اپنی حکمت عملی، اصولوں اور توازن کے ذریعے بڑے سے بڑے حریف کو شکست دے سکتا ہے۔ مودی اور بھارت کا بیانیہ زمین بوس ہو چکا ہے، ان کا پروپیگنڈا خود انہی کے گلے کا پھندا بن گیا ہے۔ پاکستان نے شطرنج کی یہ بازی جیت لی ہے اور اگر یہ پالیسی اسی طرح جاری رہی تو آنے والے وقت میں پاکستان صرف خطے ہی نہیں بلکہ دنیا کی سیاست میں ایک فیصلہ کن کردار ادا کرے گا۔ دنیا کے شطرنج کے بورڈ پر پاکستان کا ہاتھ مضبوط ہے اور بھارت کے مہرے ایک ایک کرکے گر رہے ہیں۔

