Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zubair Aslam Baloch
  4. Osho, Sheela Aur Rajneeshpuram

Osho, Sheela Aur Rajneeshpuram

اوشو، شیلا اور راجنیش پورم

کبھی کبھی وقت خود کو دہراتا ہے، مگر چہرے بدل لیتا ہے۔ کبھی فرعون کی صورت، کبھی نمرود اور کبھی ایک مسکراتے ہندو گرو کی شکل میں جو سفید داڑھی، ریشمی چوغہ اور سکون بخش لب و لہجے میں کہتا ہے: "خدا مر چکا ہے، اب صرف خوشی باقی ہے"۔ لیکن اس "خوشی" کی قیمت کیا ہے؟"وائلڈ وائلڈ کنٹری" صرف ایک ڈاکیومنٹری نہیں بلکہ ان آنکھوں پر پڑے پردے کو چاک کرتی ہے، جو اوشو کے پیروکاروں نے نجات کے نام پر اوڑھ رکھے تھے۔ اس پردے کے پیچھے جس قدر اندھیرا تھا، اتنی ہی چمک اس کی جھوٹی روشنی میں چھپی ہوئی تھی۔

اوشو، بظاہر ایک فلسفی، ایک معلم اور روحانیت کا نجات دہندہ اندر سے ایک ایسا کاریگر تھا جس نے انسانی نفسیات، عقیدت اور تنہائی کو سمجھ کر اسے اپنے استعمال میں لایا۔ اس نے سادہ ذہنوں کو خواب دکھائے، جنسی آزادی کو نجات کا زینہ قرار دیا اور مذہب و اخلاقیات کو بوسیدہ نظریات کہہ کر اپنے لیے راہ ہموار کی۔ وہ کہتا تھا، "میں مذہب کے خلاف ہوں، مگر مذہب کی بنیاد پر ہی میرا آشرم کھڑا ہے"۔ یہی تضاد اس کے فلسفے کا وہ زہر تھا جو شہد کی بوتل میں بند کرکے پلایا گیا۔

اوشو کے دعوے فلسفے میں لپٹے، مگر ان کا لب لباب یہی تھا کہ انسان کو مکمل آزادی دی جائے۔ اس آزادی میں اخلاقیات، حدود، معاشرتی ذمہ داریاں اور ریاستی قوانین سب رکاوٹیں ہیں۔ ایک فرد جو اپنی بیوی سے وفادار ہے، اوشو کی نظر میں غلام ہے۔ ایک لڑکی جو شرم و حیا میں لپٹی ہے، اوشو کے نزدیک قید میں ہے۔ وہ محبت کو جنسی فعل، عبادت کو رقص اور خدا کو دیوانگی سے تعبیر کرتا تھا۔ ایسی بے لگام فکر، جب ہزاروں مریدوں میں منتقل ہوئی، تو اس کا فطری نتیجہ راجنیش پورم کی صورت میں سامنے آیا، ایک ایسی ریاست جو امن کے لباس میں ایک خودمختار عسکری گروہ بن چکی تھی۔

راجنیش پورم، جسے دنیا ایک روحانی بستی سمجھتی رہی، دراصل جدید دور کی وہ سلطنت تھی جو نہ صرف ریاستی قوانین کو چیلنج کرتی تھی بلکہ انسانی اخلاقیات کو بھی پامال کرتی تھی۔ اس شہر کے اندر ایک ایسی ثقافت پروان چڑھی جہاں جنسی اجتماع، ننگے مراقبے اور آدھی رات کے رقص عبادت کے زمرے میں آتے تھے۔ مریدوں کو ان کے ناموں سے نہیں، مخصوص رنگ کے لباسوں سے پکارا جاتا۔ ان کے شعور کو اس طرح قابو میں رکھا گیا کہ وہ اپنی آزادی کو غلامی سمجھنے لگے اور اوشو کے اشارے کو وحی کا درجہ دینے لگے۔

اسی شہر میں ابھری ما آنند شیلا اوشو کی دائیں ہاتھ والی، جو ظاہری طور پر وفاداری کی مجسم تصویر، مگر درحقیقت اقتدار کی پیاسی، سازشی اور آمر مزاج خاتون تھی۔ شیلا نے اپنی طاقت کو صرف انتظامی نظم تک محدود نہیں رکھا، بلکہ ریاستی قوانین کو بلڈوز کرتے ہوئے اپنے راستے خود تراشے۔ اس نے میڈیا، مقامی حکومت، حتیٰ کہ وفاقی اداروں تک کو دھوکہ دیا اور راجنیش پورم کو امریکہ کے سینے میں ایک چھوٹے مگر طاقتور سرطان کی طرح پیوست کر دیا۔

شیلا کا طرزِ عمل صرف اقتدار کے نشے کی جھلک نہیں دیتا، بلکہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ جب کسی فرد کو بلا روک ٹوک اختیار ملتا ہے، تو وہ فرعون کی پیروی کرنے لگتا ہے۔ اس نے مخالفین کو زہر دیا، اداروں کی ٹیلی فون کالز ریکارڈ کروائیں، اپنے ہی مریدوں پر شک کرکے انہیں قید کیا اور راجنیش پورم کو ایک جمہوری امریکہ کے اندر روحانی آمریت میں بدل دیا۔ راجنیشیوں نے مذہب کے نام پر دنیا کی سب سے پہلی بایو ٹیرررزم کی واردات کی، جس میں سالمونیلا وائرس کے ذریعے سینکڑوں شہریوں کو بیمار کیا گیا۔ اس حملے کا مقصد محض انتخابات میں مداخلت نہیں تھا، بلکہ یہ ثابت کرنا تھا کہ ہم چاہیں تو سب کو جھکا سکتے ہیں۔

اور اس تمام طوفان کا مرکز کون تھا؟ اوشو، جو اس تمام عرصے میں خاموشی کی چادر اوڑھے ہوئے غور و فکر میں مصروف تھے۔ یہ کیسی روحانیت ہے جسے اپنے ہی آشرم کی حرکات کا علم نہیں؟ یا شاید یہ علم تھا، مگر خاموش تائید کی صورت میں؟ اوشو نے شیلا کے فرار کے بعد جو بیانات دیے، وہ خود تضاد کا پلندہ تھے۔ ایک طرف وہ اسے شیطانہ سازش کار کہتے ہیں، دوسری طرف اس کی قربانیوں کو سراہتے ہیں۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ آپ کے علم میں کچھ نہ تھا؟ تو اس نے کہا "میں مراقبے میں تھا"۔ کیا یہ مراقبہ ریاستی قوانین، انسانی جانوں اور اخلاقی ذمے داریوں سے بالاتر ہو سکتا ہے؟ یا یہ صرف پردہ پوشی کی کوشش تھی؟

اوشو کی زندگی خود تضاد، فریب اور خبطِ عظمت کی جھلک سے بھرپور تھی۔ ایک طرف وہ مادی دنیا کو حقیر جانتا تھا، دوسری طرف اس کے پاس رولز رائس کاروں کا قافلہ تھا۔ ایک طرف وہ غرور اور انا سے انکار کرتا تھا، دوسری طرف اپنے لیے مخصوص سلامی، درباری لب و لہجہ اور "گرو جی مہاراج" جیسے القاب پسند کرتا تھا۔ اس کا لباس شاہانہ، نشست بادشاہوں جیسی اور طرزِ تخاطب ایسا جیسے دنیا اس کے بغیر ادھوری ہو۔ وہ اپنی تحریروں میں سادہ الفاظ میں گہری بات کرتا تھا، مگر یہی سادگی ایک جال تھی جس میں الجھنے والا خود کو آزاد سمجھتا، مگر درحقیقت وہ اوشو کے خیال کی غلامی میں بندھا ہوتا۔

بعض لوگ اوشو کو روحانی شیکسپیئر کہتے ہیں، مگر تاریخ یہ کہتی ہے کہ جس فکر میں خود احتسابی نہ ہو، وہ خواہ کتنی ہی خوش گفتار ہو، بالآخر زوال کا شکار ہوتی ہے۔ اوشو کا فلسفہ شاید ذہنوں کو متاثر کرتا ہو، مگر دلوں کو مطمئن نہیں کرتا۔ اس کی آزادی کی تعبیر فطرت سے بغاوت ہے اور اس کی روحانیت معاشرتی نظم کی نفی۔ اس نے انسان کو جسمانی خواہشات کی تکمیل کو نجات قرار دیا اور نفسانی آزادی کو روحانی بیداری کا متبادل سمجھا۔

یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں کہ اوشو کے آشرمز میں جنسی طور پر منہ زور آزادی کو فروغ ملا اور کئی خواتین بعد ازاں ذہنی استحصال اور جذباتی غلامی کی شکایت کرتی رہیں۔ ان کے آشرمز کو جنسی کارخانوں سے تشبیہ دی گئی، جہاں مراقبےکے نام پر حدود پامال کی گئیں۔ اوشو نے مذہب کو نفسیاتی تجربے میں بدلا اور خدا کو محض اندر کی توانائی قرار دیا، جس کا کوئی اخلاقی یا اجتماعی شعور نہ ہو۔ یہ نظریہ فرد کو معاشرے سے کاٹ کر صرف میں کے گرد گھما دیتا ہے جو انسانی فطرت میں خود غرضی، انارکی اور بے لگامی کو جنم دیتا ہے۔

شیلا کی قید، راجنیش پورم کا انہدام اور اوشو کی ملک بدری، یہ سب قدرت کا وہ انصاف تھا جو خاموشی سے، مگر لازماً انجام کو پہنچا۔ یہ واقعہ نہ صرف مذہب کے غلط استعمال کی علامت ہے بلکہ یہ ایک عبرت بھی ہے کہ جب روحانیت کو اقتدار کا زینہ بنایا جائے تو نتیجہ وہی نکلتا ہے جو راجنیش پورم کا نکلا: کھنڈر، سازش اور شرمندگی۔

یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ اوشو کی کتابیں آج بھی بک رہی ہیں، ان کے ویڈیوز یوٹیوب پر لاکھوں لوگ دیکھ رہے ہیں اور ان کے ماننے والے آج بھی انہیں عصرِ جدید کا گوتم سمجھتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم سچ کو شخصیت کے خول سے الگ کرکے دیکھنے کی جرات رکھتے ہیں؟ کیا اوشو محض ایک دانا شخص تھا جس کی تعلیمات کو غلط سمجھا گیا، یا وہ جان بوجھ کر اندھوں کی ایک فوج تیار کر رہا تھا تاکہ خود کانا بن کر ان کا راجہ کہلا سکے؟

کسی بھی نظریے کی سچائی اس کے اثرات سے ماپی جاتی ہے، نہ کہ اس کے الفاظ کی چمک سے۔ اوشو، شیلا اور راجنیش پورم ایک ایسا عکس ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب سچائی کو خواہشات کے رنگ میں رنگ دیا جائے، تو وہ نہ مذہب رہتی ہے، نہ فلسفہ وہ محض دھوکہ بن جاتی ہے۔

اور آخر میں، شاید سب سے ضروری بات یہ ہے کہ روحانیت وہ دریا ہے جو سچائی، عاجزی، خدمت، ضبط اور اخلاق سے بہتا ہے۔ اوشو نے اس دریا کے بہاؤ کو موڑنے کی کوشش کی، مگر نتیجہ وہی نکلا جو ہر ناقابلِ اعتبار بند باندھنے کا ہوتا ہے، سیلاب، جو سب کچھ بہا لے جاتا ہے، یہاں تک کہ دعوے، خواب اور خودساختہ خدا بھی۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan