Le Le Shabab Ya Rab De De Udhar Bachpan
لے لے شباب یارب دے دے ادھار بچپن

بچپن کی یادیں، یہ الفاظ سنتے ہی ذہن کے پردے پر دھندلا دھندلا سا منظر ابھرتا ہے۔ کچے مکانوں کے درمیان مٹی سے اٹی ہوئی گلیاں، کہیں بیل گاڑی کا پہیہ رینگ رہا ہے، کہیں بھینسوں کے قدموں سے پانی چھلک رہا ہے اور کہیں کسی گھر کے صحن سے تازہ پکی ہوئی روٹی کی خوشبو ہوا کے دوش پر تیرتی ہوئی ناک سے ٹکرا کر دل میں اتر جاتی ہے۔ میں سرائیکی وسیب کے ایک ایسے گاؤں میں پیدا ہوا اور پلا بڑھا جہاں زندگی کی سادگی اور محبت کی گرمی، آج کے مصنوعی شہروں میں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی۔ وہ گاؤں جہاں دن کا آغاز اذان کی آواز سے ہوتا اور شامیں پرندوں کے جھنڈ کے ساتھ ڈھل جاتی تھیں۔
میرے گاوں کی گلیاں مٹی کی تھیں، لیکن ان پر چلنے والا ہر قدم سونے کی چمک رکھتا تھا۔ وہ وقت جب ہر دروازہ کھلا ہوتا اور ہر شخص دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک۔ ہم بچے صبح سورج نکلتے ہی ننگے پاؤں گلیوں میں نکل جاتے اور شام تک کھیل کود میں مگن رہتے۔ سرائیکی کلچر کی وہ کھیلیں جو آج صرف یادوں کی کتاب میں محفوظ ہیں، اس وقت ہماری روزمرہ کی زندگی کا حصہ تھیں۔ میں نے کنچے کھیلے، گلی ڈنڈا کھیلا، پٹھو گرام اور چھپن چھپائی کھیلی اور کبھی کبھار گھڑ سواری کی نقل بھی کی۔ ہر کھیل میں اپنی ایک خوشبو تھی، اپنی ایک معصومیت، اپنی ایک دنیا۔
گرمیوں کی دوپہریں ہمارے لیے عذاب نہیں بلکہ جنت ہوتی تھیں۔ آم کے پیڑوں کی چھاؤں میں بیٹھ کر کچے آم توڑنا اور نمک مرچ لگا کر کھانا ایک الگ ہی مزہ دیتا تھا۔ کہیں نہر کے کنارے کپڑے دھوتی عورتوں کی گنگناہٹ، کہیں کھیتوں میں ہل چلاتے کسان کی للکار اور کہیں کہیں دور سے آتی مٹیار کی ہنسی، یہ سب ہمارے گاؤں کی موسیقی تھی۔ اس وقت ہمیں نہیں پتا تھا کہ یہ سب آنے والے وقت میں کتنی قیمتی یادیں بن جائیں گی۔
بارش کے دنوں میں گاؤں کی گلیاں کیچڑ سے بھر جاتیں، لیکن ہم بچوں کو تو جیسے اس میں چلنے کا بہانہ مل جاتا۔ ہم ننگے پاؤں گرتے پڑتے کیچڑ میں کھیلتے، پانی کے چھپڑوں میں کاغذ کی کشتیاں بہاتے اور جب گھر لوٹتے تو مائیں ڈانٹتے ہوئے بھی ہنس پڑتیں۔ وہ مائیں جن کے ہاتھوں میں محبت کا لمس تھا، جن کی دعائیں آج بھی زندگی کی ہر مشکل کو آسان کر دیتی ہیں۔
دیہات کی شامیں بھی کمال کی ہوتی تھیں۔ جب سورج کی آخری کرنیں کھیتوں پر پڑتیں تو ہر چیز سنہری ہو جاتی۔ ہم سب دوست کسی کھلی جگہ یا کسی اونچی بیٹھ پر جمع ہو کر قصے کہانیاں سنتے۔ کبھی بزرگ پرانے وقتوں کے قصے سناتے، کبھی نانیاں دادیاں اپنے بچپن کی باتیں سناتیں۔ وہ قصے صرف کہانیاں نہیں تھے بلکہ اس وسیب کی تاریخ، تہذیب اور روایات کا سرمایہ تھے۔
سردیوں کا موسم تو جیسے ہمارے گاؤں کے لیے تحفہ ہوتا۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا، دھوپ میں بچھا ہوا ٹاٹ اور اس پر بیٹھ کر مونگ پھلی، گجکیں اور گڑ کھانے کا مزہ ہی اور تھا۔ رات کو آگ تاپتے ہوئے گاؤں کے بزرگوں کے بیچ بیٹھنا، چائے کی پیالی ہاتھ میں پکڑ کر گپ شپ لگانا اور کہیں دور سے آتی بانسری یا سرائیکی لوک گانے کی آواز، یہ سب مل کر ایک ایسا ماحول بناتے جو الفاظ میں بیان نہیں ہو سکتا۔
ہمارے گاؤں کی عورتیں بھی ایک الگ دنیا تھیں۔ صبح سویرے پانی کے گھڑے سر پر رکھ کر چلتی ہوئی عورتوں کا قافلہ، ہاتھوں میں مہندی کی خوشبو اور ماتھے پر دوپٹے کا پلو، یہ سب ہمارے کلچر کی پہچان تھے۔ عید بقرعید یا شادی بیاہ کے دن تو گاؤں کی رونق ہی بدل جاتی اور شادی بیاہ کے موقعے پہ ڈھول کی تھاپ پر جھومتی لڑکیاں، گیت گاتی عورتیں اور مہمانوں کے استقبال کے لیے دسترخوان پر سجی دیسی پکوان منظر کو اور دلفریب بنا دیتے۔
دیہاتی کھیلوں میں باندر کلا ایک خاص کھیل تھا، جس میں ایک بچہ دوسرے بچوں کے جوتوں پہ پہرا دیتا، جب سارے جوتے دوسرے بچے اڑا لے جاتے تو پھر اس بچے کی شامت آ جاتی تھی۔ گلی ڈنڈا بھی ہمارے بچپن کا ایک مقبول کھیل تھا۔ ایک لمبی لکڑی اور ایک چھوٹی سی ڈنڈی کے ساتھ ہم گھنٹوں میدان میں دوڑتے پھرتے۔ کبھی کبھی بڑے بھی اس کھیل میں شامل ہو جاتے اور ہمیں چیلنج دیتے۔ ہار یا جیت کی پرواہ کم، کھیل کے مزے کی پرواہ زیادہ ہوتی۔
فصلوں کے دن تو گاؤں میں عید کا سماں ہوتا۔ گندم کی کٹائی کے وقت پورا گاؤں ایک ساتھ کام کرتا۔ کھیتوں میں عورتیں مرد سب مل کر فصل کاٹتے۔ کہیں گڑ بنتا، کہیں دودھ کی لسی تیار ہوتی اور کہیں سب مل کر کھلے آسمان تلے کھانا کھاتے۔ یہ سب وہ یادیں ہیں جو آج کے شہروں کی بند دیواروں اور بند دلوں میں کہیں کھو گئی ہیں۔
آج جب میں ان گلیوں کو یاد کرتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ وہ مٹی، وہ خوشبو، وہ رشتے، سب کسی جادو کی طرح تھے۔ وہاں کوئی دروازہ بند نہیں ہوتا تھا، کوئی پڑوسی اجنبی نہیں ہوتا تھا اور کوئی بچہ اکیلا نہیں ہوتا تھا۔ اب انہی گلیوں میں سیمنٹ کی سڑکیں آ گئی ہیں، پرانی بیٹھکیں مٹی میں دفن ہوگئی ہیں اور کھیلوں کی جگہ موبائل نے لے لی ہے۔ وہ گاؤں جہاں شام کو سب ایک دوسرے کے گھروں میں جاتے تھے، اب وہاں ہر کوئی اپنے کمرے میں قید ہے۔
میرا سرائیکی وسیب اب بھی ویسا ہی خوبصورت ہے، لیکن وہ بچپن والا خلوص اور وہ بے فکری شاید کبھی واپس نہ آئے۔ ہمارے گاوں کی گلیاں اب بھی ویسی ہی ہیں، مگر ان میں چلنے والے چہرے بدل گئے ہیں۔ وہ چہرے جو کبھی اپنائیت سے بھرے ہوتے تھے، اب اکثر اجنبی لگتے ہیں۔ شاید یہ وقت کا دستور ہے کہ بچپن واپس نہیں آتا، لیکن یادیں ہمیشہ زندہ رہتی ہیں۔
یہ یادیں ہی ہیں جو آج بھی تھکی ہوئی زندگی میں مسکراہٹ لے آتی ہیں اور دل کہتا ہے کہ کاش ایک دن کے لیے ہی سہی، ہم پھر سے انہی گلیوں میں لوٹ جائیں، جہاں ہم نے پہلی بار دوڑنا سیکھا، پہلی بار ہنسنا سیکھا اور پہلی بار جینا سیکھا۔

