Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zubair Aslam Baloch
  4. Kothay Ka Pujari

Kothay Ka Pujari

کوٹھے کا پجاری

رات کی بانہوں میں لپٹی طوائف کے کوٹھے پر جلتی مدھم بتی ایسے لگ رہی تھی جیسے اندھیرے کے سینے پر آخری شعلہ تھرک رہا ہو۔ باہر گلی میں کتوں کی بھونک سنائی دے رہی تھی اور اندر وہ طوائف گلاب کے پھولوں سے مہکنے والی عورت، مگر کانٹوں سے بھرے بستر پر سوئی ہوئی۔

کوٹھے کے کونے میں لگی ہوئی اس کی پرانی تصویریں، جن میں وہ کبھی ہنستی، کبھی ناچتی نظر آتی تھی، آج دیوار پر یوں ٹنگی تھیں جیسے اپنے ہی جنازے کی تصویریں دیکھ رہی ہو۔ اس کی آنکھوں میں نمی نہیں تھی، کیونکہ آنسو بہت پہلے ختم ہو چکے تھے۔ اب صرف اک عادت بچی تھی زندہ رہنے کی۔

اسی رات، مندر کی گھنٹیاں زور زور سے بج رہی تھیں۔ پجاری ایک عمر رسیدہ، بھاری پیٹ والا آدمی، دھوتی سنبھالتا، دیوتا کے سامنے ماتھا ٹیک رہا تھا۔ لبوں پر مقدس منتر، مگر دل میں گناہ کی فہرست۔

پوجا ختم ہوئی تو پجاری نے دیا بجھایا اور چپ چاپ مندر کے پچھلے دروازے سے نکلا۔ وہی گلی، وہی اندھیرا اور وہی کوٹھا جہاں ایک طوائف اپنی قسمت کے کفن میں لپٹی پڑی تھی۔

دروازہ کھلا۔

پجاری نے قدم رکھا۔

طوائف نے اسے دیکھا اور ہلکا سا مسکرا دی۔

"پجاری جی، آج پھر دیوتا ناراض ہیں کیا؟"

پجاری نے ہنستے ہوئے کہا، "نہیں، دیوتا ناراض نہیں، وہ تو ہمیشہ رحم دل رہتے ہیں، مگر انسان کی بھوک کبھی ختم نہیں ہوتی"۔

طوائف نے آہ بھری، "اور تم بھی تو انسان ہی ہو نا، پجاری جی؟"

پجاری نے آنکھیں چمکائیں، "ہاں، مگر میں تو بھگوان کا آدمی ہوں"۔

"پھر تمہارا یہ آنا؟" طوائف نے تلخی سے پوچھا۔

پجاری نے جواب دیا، "میں پاپ دیکھنے آتا ہوں، تاکہ کل پوجا میں اس کا کفارہ دے سکوں"۔

باہر آسمان پر چاند تھا، مگر اندر دونوں کے چہروں پر اندھیرا۔

بستر پر وہ جسم تھے جو سماج نے اپنے اپنے مذہب، اپنی اپنی عزت کے نام پر الگ الگ خانوں میں رکھ چھوڑے تھے۔

ایک طرف "پوجا" تھی، دوسری طرف "پاپ" مگر حوس نے دونوں کے بیچ فرق مٹا دیا تھا۔

صبح ہوئی۔ مندر کی گھنٹیاں پھر بجنے لگیں۔

پجاری دیوتا کے سامنے ننگے پیر کھڑا تھا۔ منہ پر تلک، ہاتھوں میں پھول اور زبان پر بھجن۔

لوگ آ رہے تھے، ماتھا ٹیک رہے تھے، پجاری کے قدم چوم رہے تھے۔

اور وہ، اندر سے خالی پیالے کی طرح بج رہا تھا۔

ادھر طوائف اپنے بستر سے اٹھی، آئینے میں دیکھا۔ چہرہ وہی، مگر روح تھکی ہوئی۔

اس نے لپ اسٹک لگائی، بال سنوارے اور ہلکا سا پرفیوم چھڑک کر خود سے کہا: "چلو، آج پھر عزت داروں کی عزت بچانے کا دن ہے"۔

شام ڈھلی۔ پجاری نے دیوتا کے سامنے دیا جلایا اور آہستہ سے بولا: "پرکاش، سچ بتا! تو کہاں ہے؟ تیرے مندر میں یا طوائف کے بستر پر؟"

ہوا میں گھنٹی کی مدھم آواز گونجی اور شاید کسی نے جواب دیا۔

"میں ہر اُس جگہ ہوں، جہاں انسان اپنی سچائی چھپاتا ہے"۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali