Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zubair Aslam Baloch
  4. Jurm Jo Kabhi Hua He Nahi

Jurm Jo Kabhi Hua He Nahi

جرم جو کبھی ہوا ہی نہیں

بارش کے بعد کی گیلی دوپہر تھی۔ گلی کے نکڑ پر چائے والے ڈھابے پر چند مرد بیٹھے تھے۔ کپ سے اٹھتی بھاپ میں گپ شپ کا دھواں ملا ہوا تھا۔ ایک چائے کا گھونٹ لے کر بات شروع کرتا ہے، وہ نجمہ ہے نا، پانچ سال ہو گئے شادی کو، ابھی تک ماں نہیں بنی، کچھ تو گڑبڑ ہے۔ دوسرا قہقہہ لگا کے کہتا ہے ارے، عورت ہے ہی اس لیے کہ بچے پیدا کرے، ورنہ کس کام کی؟

اسی لمحے، ڈھابے کے برابر سے نجمہ خود گزر رہی ہوتی ہے۔ سفید دوپٹے کے نیچے اس کی آنکھیں بھیگ جاتی ہیں اور نمی کی ایک تہہ صاف نظر آتی ہے۔ اس نے سنا بھی اور نہ سننے کا ڈھونگ بھی کیا۔ دل کے اندر کانٹے کی طرح یہ الفاظ اتر گئے۔ گھر جا کر وہ خاموشی سے کمرے کا دروازہ بند کرتی ہے اور بستر پر گر کر رونے لگتی ہے۔ یہ آنسو کسی غلطی کے اعتراف میں نہیں تھے، یہ تو اس جرم کی سزا کے آنسو تھے جو اس نے سرے سے کیا ہی نہیں تھا۔

بانجھ عورت کا درد ایسا ہے جو دکھائی نہیں دیتا، مگر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ نجمہ نے ڈاکٹرز کے چکر کاٹے، دواؤں کے ڈبے بھرے، بزرگوں کے بتائے تعویذ گلے میں ڈالے، ہر نماز کے بعد ہاتھ اٹھائے، مگر بے سود۔ محلے کی عورتوں کے طنز، ماں کی فکرمند آنکھیں اورسسرال کے طعنے اس پر بجلی کی طرح گرتے۔ اپنی کوکھ کے خلا کو وہ جانتی ہے، مگر معاشرہ اسے عیب سمجھتا ہے۔

گلی کے دوسرے کونے میں حارث رہتا ہے، بیروزگاری کے درد کو سہتے ہوئے ڈیپریشن کا مریض ہے۔ روز صبح تیار ہو کر نکلتا ہے۔ قمیص استری کی ہوئی، جوتے پالش، ہاتھ میں ایک فائل۔ جس میں اس کے تعلیمی اسناد اور تجربے کے کاغذ ہیں۔ اس کے چہرے پر تھکن، آنکھوں میں شکست اور جیب میں کرایے کے پیسے۔ شام کو وہی فائل لئے وہ بس سٹاپ پر کھڑا ہے، پیچھے سے دو پرانے دوست آتے ہیں۔ ایک طنزیہ لہجے میں کہتا ہے۔ "یار حارث، نوکری ملی یا ابھی بھی موجیں کر رہے ہو؟" حارث ہنسنے کی کوشش کرتا ہے، مگر وہ ہنسی اس کے دل کے اندر زہر بن کر اتر جاتی ہے۔

گھر میں بیوی خاموش بیٹھی ہے۔ بیٹی آکر کہتی ہے۔ بابا، اسکول میں فیس دینی ہے، نہیں دی تو ٹیچر کل کلاس میں نہیں بیٹھنے دیں گی۔ حارث کے گلے میں جیسے کانٹے اٹک جاتے ہیں۔ وہ بیٹی کو گلے لگاتا ہے مگر آنکھوں میں آنسو نہیں چھپ سکتے۔ وہ جانتا ہے یہ سب اس کی کاہلی نہیں، بلکہ بے رحم حالات کا نتیجہ ہے، مگر معاشرہ اس فرق کو سمجھنے پر آمادہ نہیں۔

اسی محلے میں ایک بوڑھا شخص بھی رہتا ہے۔ کبھی محلے کا سب سے محنتی مزدور تھا، جوانی میں دن رات اینٹیں ڈھوتا، گرمی میں پسینہ بہاتا، سردی میں ہاتھ جم جانے کے باوجود کام چھوڑتا نہیں تھا۔ مگر اب اس کے ہاتھ کانپتے ہیں، کمر جھک گئی ہے، سانس پھولتا ہے۔ بیٹا اور بہو اکثر آپس میں کہتےہیں کہ ابا جی کا علاج بہت مہنگا ہے، دوائی پر اتنا خرچ کہاں سے آئے گا؟ وہ یہ سب سن لیتا ہے۔ مگر کچھ کہتا نہیں۔ اس کی آنکھوں میں صرف ایک سوال گردش کرتا ہے۔ کیا وہ واقعی بوجھ بن چکا ہے؟ وہ بستر پر لیٹے اپنے ماضی کو یاد کرتا ہے اور سوچتا ہےکہ یہی ہاتھ، یہی جسم کبھی ان کے لیے سب کچھ تھا اور آج صرف بوجھ۔

اور اسی گاوں میں ایک چھ سال کا بچہ ہے، آنکھوں میں معصومیت اور دل محرومی کا سمندر ہے۔ اسکول کے فنکشن میں سب بچوں کے والدین آئے ہیں۔ ایک بچہ اس سے مخاطب ہے کہ تمہارے ابو کیوں نہیں آئے؟ وہ نظریں جھکا کے نم آنکھوں سے کانپتی آواز میں کہتا ہے کہ اس کے بابا اس سے بہت دور ہیں۔ حقیقت یہ تھی کہ اس کے بابا دنیا سے جا چکے تھے اور ماں بیمار تھی۔ محلے کے کچھ لوگ ترس کھاتے، کچھ دور رہتے اور کچھ اس کے کپڑوں، جوتوں اور چیزوں کو دیکھ کر جملے کستے کہ بیچارہ یتیم ہے نا، کہاں سے اچھی چیزیں آئیں گی؟

یہ لفظ یتیم اس کےدل میں خنجر کی طرح اترتا ہے۔ لیکن وہ چپ چاپ اپنے لمحوں کو قربان کئے جا رہا ہے۔

یہ چاروں کردار دراصل ہمارے معاشرے کا آئینہ ہیں۔ ہم سب ان کے آس پاس رہتے ہیں، مگر ہم انہیں دیکھتے نہیں، یا دیکھ کر بھی دیکھنا نہیں چاہتے۔ ہم بانجھ عورت کو دعا دینے کے بجائے طعنے دیتے ہیں، بیروزگار مرد کو سہارا دینے کے بجائے مذاق بناتے ہیں، بیمار بوڑھے کی خدمت کے بجائے اسے اکتاہٹ سے دیکھتے ہیں اور یتیم بچے کو گلے لگانے کے بجائے اس سے فاصلہ رکھتے ہیں۔

ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ زندگی کا ہر موڑ انسان کے اختیار میں نہیں۔ کوئی بیماری خود نہیں بلاتا، کوئی بانجھ پن کو پسند نہیں کرتا، کوئی یتیم ہونے کا فیصلہ خود نہیں کرتا اور کوئی بیروزگار رہنے کی خواہش نہیں رکھتا۔ مگر ہم سب ایسے رویے اپناتے ہیں جیسے یہ سب ان کے ذاتی جرائم ہوں۔

کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ اگر کل قسمت نے ہمیں انہی صفوں میں کھڑا کر دیا تو کیسا لگے گا؟ اگر ہماری بیٹی کو بانجھ کہہ کر اس کی ہنسی چھین لی جائے؟ اگر ہمارا بیٹا بیروزگار ہو کر روز طعنے سنے؟ اگر ہمارا بیمار باپ بستر پر پڑا اکیلا رہ جائے؟ یا اگر ہمارا بچہ یتیم ہو کر دنیا کی سنگدلی سہنے پر مجبور ہو؟

تب شاید ہم سمجھیں کہ جرم ان کا نہیں تھا، بلکہ جرم ہمارا ہے۔ ہماری بے حسی کا، ہمارے دلوں کے بند دروازوں کا۔

انسانیت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ان دروازوں کو کھولیں۔ نجمہ کے خالی آنگن کو دعا سے بھر دیں، حارث کو موقع اور سہارا دے کر اس کی خودی بحال کر دیں، اس بیمار بوڑھےکی خدمت کو فرض سمجھیں اور اس یتیم بچے کو اپنی گود میں لے کر یہ احساس دلائیں کہ دنیا میں ابھی محبت زندہ ہے۔ کیونکہ اصل انسانیت یہی ہے کہ کسی کو اس جرم کی سزا نہ دی جائے جو اس نے کیا ہی نہیں۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari