Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zubair Aslam Baloch
  4. Jab Tum Ne Mujh Se Choti Baat Poochi Thi

Jab Tum Ne Mujh Se Choti Baat Poochi Thi

جب تم نے مجھ سے چھوٹی بات پوچھی تھی

جس وقت تم نے مجھ سے قوم، قبیلہ، ذات، زبان اور مسلک کی بات پوچھی، اُس لمحے میں کچھ اور سوچ رہا تھا۔ بہت بڑا، بہت وسیع، بہت بے کنار۔ میں انسان سوچ رہا تھا، انسانی ذات بلکہ پوری کائنات سوچ رہا تھا۔ میں اس مٹی کے ذرے میں چھپی وہ کہکشاں سوچ رہا تھا جسے ہم نے محض نسل، قبیلے اور شناخت کے خولوں میں قید کر دیا۔ میں انسان کی اساس، اس کا احساس، اس کے جذبات، اس کی بھوک، اس کی بے بسی، اس کے ظرف و ضمیر بلکہ اس کی پوری اوقات سوچ رہا تھا۔ تم نے چھوٹی بات پوچھی تھی، میں بہت بڑا سوچ رہا تھا۔

انسان کا مسئلہ یہ نہیں کہ وہ جانتا نہیں، بلکہ یہ ہے کہ وہ جاننے کے باوجود چھوٹی باتوں میں گم رہتا ہے۔ سقراط نے کہا تھا: "انسان خود کو جانے تو خدا کو جان لے گا"۔ مگر انسان نے خود کو جاننے کی بجائے قبیلوں اور شناختوں کی دیواریں کھڑی کر لیں۔ وہ اپنی ذات کے اندر جھانکنے سے ڈرتا ہے۔ وہ دوسروں کو ناپنے کے پیمانے تو بناتا ہے مگر خود کا وزن کرنے سے گھبراتا ہے۔

میں جب انسان کے بارے میں سوچتا ہوں تو مجھے آدم یاد آتا ہے، وہ پہلا انسان جس نے مٹی سے اٹھ کر آسمان کو چُھو لیا۔ قرآن کہتا ہے: "وَنَفَخُتُ فِيهِ مِنُ رُوحِي" میں نے اس میں اپنی روح پھونکی۔

یہی وہ لمحہ تھا جب انسان میں خدائی امانت رکھی گئی۔ مگر آج کا انسان اپنی روح بھول گیا ہے، صرف جسم رہ گیا ہے۔ وہ جسم جو برانڈز پہچانتا ہے مگر دلوں کے زخم نہیں۔ وہ زبانوں کے فرق جانتا ہے مگر احساسات کے رنگ نہیں۔

میں نے تاریخ کے اوراق پلٹے۔ دیکھا کہ جب بھی انسان نے اپنی انسانیت کو بھلا دیا، تہذیبیں ریت کے ٹیلوں کی طرح بکھر گئیں۔ نمرود نے اپنے بت بنائے، فرعون نے خدائی کا دعویٰ کیا، ہٹلر نے نسل کی برتری کا نعرہ لگایا اور آج ہم نے اپنی "شناختوں" کو بت بنا لیا ہے۔

ہم اب بھی چھوٹی باتیں پوچھتے ہیں۔ قوم کیا ہے؟ زبان کیا ہے؟ مسلک کیا ہے؟ اور بھول جاتے ہیں کہ انسان ہونا سب سے بڑی قومیت ہے۔

ارسطو کہتا ہے: "انسان ایک سماجی حیوان ہے"۔ مگر شاید وہ بھول گیا کہ انسان محض سماجی نہیں، روحانی حیوان بھی ہے۔ سماج اس کے جسم کو پناہ دیتا ہے، مگر روح کی پناہ محبت، رحم اور احساس میں ہے۔ جب یہ ختم ہو جائیں تو معاشرے آباد مگر انسان ویران ہو جاتے ہیں۔

میں نے جب رومی کو پڑھا تو وہ دل کے اندر بول اٹھے۔ "میں نہ عیسائی ہوں، نہ یہودی، نہ مجوسی، نہ مسلمان۔ میں صرف عشق ہوں"۔ یہ عشق، یہ محبت، یہی وہ فلسفہ ہے جو سب شناختوں سے بلند ہے۔ انسان کا اصل مذہب انسانیت ہے، اس کے بعد سب کچھ تفصیلات ہیں۔ لیکن ہم نے تفصیلات کو اصل بنا لیا۔ ہم نے سوال چھوڑ دیے اور فتوے اُٹھا لیے۔ ہم نے مکالمہ چھوڑ دیا اور مقابلہ شروع کر دیا۔

میں سوچتا ہوں۔ انسان کتنا چھوٹا ہوگیا ہے۔ ایک وقت تھا جب وہ ستاروں سے باتیں کرتا تھا۔ ایک وقت تھا جب وہ روح کی بھوک مٹانے کو نکلتا تھا، آج وہ جسم کے فیشن میں الجھا ہوا ہے۔

اقبال نے کہا تھا۔ "تُو رازِ کن فکاں ہے، اپنی آنکھوں پہ عیاں ہو جا۔ خودی کا راز داں ہو جا، خدا کا ترجماں ہو جا"۔

مگر ہم نے خودی کو بیچ دیا، ترجمانی چھوڑ دی۔

میں جب قوم کی بات سنتا ہوں تو دل ہنس دیتا ہے۔ کون سی قوم؟ وہ جو سرحدوں سے بنی یا وہ جو دلوں سے جڑی؟ کیا اقبال نے یہ قوم بنائی تھی جو رنگ، زبان، یا نسل پر بٹ جائے؟ یا وہ قوم جو ایک رب، ایک مقصد اور ایک احساس سے جڑی ہو؟ قومیں نقشوں سے نہیں بنتیں، کردار سے بنتی ہیں۔

تاریخ نے ثابت کیا کہ جن قوموں نے انسان کو مقدم رکھا، وہ زندہ رہیں اور جنہوں نے نفرت، نسل اور تعصب کو اوڑھ لیا، وہ فنا ہوگئیں۔ روم، بابل، اسپین، مصر سب انسانیت بھول کر برباد ہوئے۔ میں سوچتا ہوں، کاش تم نے مجھ سے وہ سوال نہ پوچھا ہوتا۔ قوم، قبیلہ، ذات، مسلک یہ سب چھوٹی باتیں ہیں۔

میں اُس وقت انسان کی بھوک سوچ رہا تھا، جو صرف روٹی کی نہیں۔ میں اُس بھوک کی بات کر رہا تھا جو روح کو کھا جاتی ہے۔ جب انسان سے احساس چھن جائے، تو وہ مرتا نہیں، بس چلتا پھرتا خالی ظرف رہ جاتا ہے۔

اور یہی آج کا انسان ہے۔ جسے ہر چیز کا علم ہے، مگر دل کے اندر اندھیرا ہے۔ نطشے نے کہا تھا: "خدا مر گیا۔ "مگر اصل میں مرنے والا انسان تھا۔ جب انسان نے اپنے اندر کے خدا کو مار دیا۔ احساس، رحم، انصاف، محبت یہ سب دفن ہو گئے۔ اب اس کے ہاتھ میں طاقت ہے مگر دل میں روشنی نہیں اور طاقت جب دل کے بغیر ہو، تو وہ ظلم بن جاتی ہے۔

میں سوچتا ہوں۔ کاش انسان رکتا، سوچتا، خاموش ہوتا۔

خاموشی بھی ایک عبادت ہے۔ رومی نے کہا تھا: "خاموشی، روح کی زبان ہے"۔ مگر ہم نے شور میں جینا سیکھ لیا۔ ہم بولتے زیادہ ہیں، سنتے کم۔ ہم فیصلے زیادہ کرتے ہیں، فہم کم۔ ہم رائے دیتے ہیں، مگر غور نہیں کرتے۔

اور میں سوچ رہا تھا۔ انسانوں کے ظرف، ان کے ضمیر، ان کے خواب۔ کتنی آنکھیں ہیں جو صرف خواب دیکھتی ہیں مگر جاگتی نہیں۔ کتنے دل ہیں جو دھڑکتے تو ہیں مگر محسوس نہیں کرتے۔ کتنے لوگ ہیں جو جیتے تو ہیں مگر زندہ نہیں۔ میں ان سب پر سوچ رہا تھا، جب تم نے مجھ سے چھوٹی بات پوچھی تھی۔

تم نے کہا تمہارا مسلک کیا ہے؟ میں نے چاہا کہ کہہ دو کہ میرا مسلک محبت ہے۔ میرا مذہب احساس ہے۔ میری زبان خاموشی ہے۔ میری قوم انسانیت ہے۔ مگر میں چپ رہا، کیونکہ تم ابھی سننے کے قابل نہیں تھے۔

تاریخ کے سارے پیغمبر، صوفی، فلاسفر اور مفکر ایک ہی بات کہتے گئے۔ کہ انسان اپنے اندر جھانک لے، تو سارے سوال ختم ہو جائیں۔ قرآن نے کہا: "وَفِي أَنفُسِكُمُ أَفَلَا تُبُصِرُونَ؟" اور تمہارے اپنے اندر نشانیاں ہیں، کیا تم نہیں دیکھتے؟ لیکن ہم باہر کی جنگوں میں لگے ہیں، اندر کے جہاد کو بھول گئے۔ ہم ظاہری دشمنوں سے لڑتے ہیں مگر اپنے باطن کے شیطان سے ہار جاتے ہیں۔

میں سوچ رہا تھا۔ انسان کی اوقات، اس کی کمزوری، اس کا غرور۔ ہم خاک سے بنے ہیں، مگر غرور آسمان کا کرتے ہیں۔ ہم فنا کے مسافر ہیں، مگر گفتگو ہمیشہ بقا کی کرتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ سب ختم ہو جانا ہے، پھر بھی دنیا کو آخرت سے بڑا مان لیتے ہیں۔ یہی تو المیہ ہے انسان سب جانتا ہے مگر کچھ نہیں سمجھتا۔

مگر پھر، اسی سوچ کے بیچ، امید کی ایک کرن بھی تھی۔

کیونکہ میں نے دیکھا کہ ہر تاریکی کے اندر ایک چراغ ضرور ہوتا ہے۔ کچھ لوگ اب بھی ہیں جو ذات نہیں، انسان دیکھتے ہیں۔ جو رنگ نہیں، دل دیکھتے ہیں۔ جو مسلک نہیں، عمل دیکھتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دم سے دنیا ابھی باقی ہے۔ یہی وہ نبیوں کے وارث ہیں جن کے چہروں پر روشنی ہے، جن کے دلوں میں خدا بستا ہے اور میں ان کی وجہ سے ابھی بھی پر امید ہوں۔

رومی نے کہا تھا "جب دل پاک ہو جائے تو سب مذاہب ایک ہو جاتے ہیں" اور اقبال نے لکھا۔۔

دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے

یہی دل کی بات، یہی احساس، یہی روشنی انسان کو انسان بناتی ہے۔

اس لیے میں اب بھی سوچ رہا ہوں کچھ بڑا، کچھ وسیع، کچھ روشن۔ میں اب بھی انسان سوچ رہا ہوں۔ کیونکہ جب تم نے مجھ سے چھوٹی بات پوچھی تھی، میں اُس وقت پوری انسانیت سوچ رہا تھا۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari