China Ka Bharat Ki Taraf Jhukao Aur Pakistan Ki Kharja Policy Ka Kirdar
چین کا بھارت کی طرف جھکاؤ اور پاکستان کی خارجہ پالیسی کا کردار

دنیا کی سفارت کاری ہمیشہ بدلتی رہتی ہے۔ یہ کبھی کسی کے لیے جامد اور مستقل نہیں رہی۔ طاقت کے مراکز اپنی ترجیحات کے مطابق اپنے رویے بدلتے ہیں، پرانی دشمنیاں نئی دوستیاں جنم دیتی ہیں اور پرانے دوست اکثر وقتی مفاد کی خاطر پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں اس وقت جو کھیل کھیلا جا رہا ہے وہ بھی اسی اصول کی ایک جھلک ہے۔ چین کے وزیرِ خارجہ کا بھارت کا دورہ بظاہر ایک سفارتی عمل ہے، لیکن دراصل یہ کئی نئے سوالات کو جنم دیتا ہے۔ پاکستان کے لیے یہ سوالات اور بھی اہم ہیں کیونکہ ہماری پوری سفارت کاری دہائیوں سے چین کے گرد گھومتی رہی ہے۔
بھارت اور چین کے درمیان تعلقات کی کہانی تضادات سے بھری پڑی ہے۔ 1962 کی جنگ نے دونوں ممالک کے درمیان دشمنی کی لکیر کھینچ دی تھی، جس کے بعد لداخ، سکم اور اروناچل پردیش کی برفانی وادیوں میں فوجی چوکیاں ہمیشہ کشیدگی کی علامت بنی رہیں۔ لیکن دوسری طرف تجارتی تعلقات کی حقیقت یہ ہے کہ آج بھارت اور چین کے درمیان سالانہ تجارت سینکڑوں ارب ڈالر کو چھو رہی ہے۔ چین بھارت کی سب سے بڑی درآمدی منڈی ہے اور بھارت میں استعمال ہونے والی بیشتر الیکٹرانکس، مشینری اور موبائل فونز چین ہی سے آتے ہیں۔ اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ بھارت نے اپنی سرحدوں پر دشمن کھڑا ہونے کے باوجود اپنی مارکیٹ کو اس کے لیے بند نہیں کیا۔ یہی وہ نکتہ ہے جو پاکستان کی خارجہ پالیسی کے لیے ایک بڑا سبق ہے۔
بھارت کے لیے چین کے وزیرِ خارجہ کا دورہ ایک سفارتی کامیابی ہے۔ اس دورے نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ چین بھارت کے ساتھ تعلقات مکمل طور پر توڑنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ چین کو بھارت کی منڈی کی ضرورت ہے اور بھارت کو چینی سرمایہ اور ٹیکنالوجی کی۔ یہ باہمی ضرورت دونوں کو بار بار ایک دوسرے کے قریب لے آتی ہے۔ بھارت نے اس حقیقت کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کیا ہے۔ وہ امریکہ کے ساتھ بھی تعلقات رکھتا ہے، روس سے بھی تیل اور ہتھیار خریدتا ہے، یورپ کے ساتھ تجارتی معاہدے کرتا ہے، خلیجی ممالک سے سرمایہ کاری لیتا ہے اور ساتھ ساتھ چین کے ساتھ تعلقات کے دروازے بھی کھلے رکھتا ہے۔ یہی کثیر الجہتی خارجہ پالیسی بھارت کو مضبوط بنا رہی ہے۔
سب سے بنیادی سوال یہ ہے کہ پاکستان کہاں کھڑا ہے؟ پاکستان کی خارجہ پالیسی ہمیشہ یک رخی رہی۔ پاکستان نے اپنی امیدیں زیادہ تر چین اور خلیجی ممالک سے باندھیں۔ امریکہ کے ساتھ تعلقات کبھی گرم جوشی پر تھے تو کبھی سرد مہری پر۔ یورپ کے ساتھ تعلقات زیادہ تر تجارتی رعایتوں تک محدود رہے۔ روس کے ساتھ قربت کبھی حقیقی معنوں میں نہیں بڑھ سکی۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج پاکستان عالمی سیاست میں محدود دائرہ کار رکھتا ہے۔ اگر چین بھارت کی طرف جھکتا ہے تو پاکستان کے پاس متبادل سفارتی آپشنز بہت کم ہیں۔
پاکستان پر اس کے اثرات براہِ راست معیشت پر پڑیں گے۔ سی پیک پاکستان کے لیے ایک امید کی کرن تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کا بیشتر حصہ ابھی تک مکمل نہیں ہوا۔ سرمایہ کاری رک گئی، منصوبے سست روی کا شکار ہوئے اور سیاسی عدم استحکام نے اس کے فوائد کو کم کر دیا۔ اگر چین بھارت کے ساتھ اپنی توانائی اور سرمایہ زیادہ لگا دیتا ہے تو پاکستان کے پاس محض خواب باقی رہ جائیں گے۔ پاکستان کو اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ صرف ایک ملک پر انحصار کرنا معاشی خودکشی کے مترادف ہے۔
پاکستان اور بھارت کی خارجہ پالیسی کا تقابل کریں تو واضح فرق نظر آتا ہے۔ بھارت نے ہمیشہ توازن کی پالیسی اپنائی۔ وہ امریکہ کو اپنا پارٹنر بناتا ہے لیکن روس کو دشمن نہیں بناتا۔ وہ اسرائیل کے ساتھ بھی تعلقات رکھتا ہے لیکن ایران کے ساتھ بھی روابط قائم رکھتا ہے۔ وہ خلیجی ممالک سے سرمایہ لیتا ہے اور ساتھ ساتھ مغرب کو اپنی آئی ٹی انڈسٹری کی وجہ سے اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ دوسری طرف پاکستان نے خود کو محدود کر لیا ہے۔ امریکہ کے ساتھ تعلقات زیادہ تر سیکیورٹی اور افغانستان تک محدود رہے، یورپ کے ساتھ تعلقات صرف جی ایس پی پلس اسٹیٹس تک اور روس کے ساتھ تعلقات محض بیانات تک۔ نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان عالمی سیاست میں تنہائی کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔
بھارت کا وزیرِ خارجہ چندر شیکھر ایک نہایت زیرک سفارت کار ہے۔ اس نے بھارت کو ایک ایسے وقت میں لیڈ کیا ہے جب دنیا میں طاقت کے نئے توازن قائم ہو رہے ہیں۔ وہ جانتا ہے کہ امریکہ اور چین دونوں کو ساتھ لے کر چلنا بھارت کے مفاد میں ہے۔ وہ چین کو مکمل دشمن نہیں بناتا بلکہ مذاکرات کے دروازے کھلے رکھتا ہے۔ اس کا یہی رویہ بھارت کو سفارتی محاذ پر کامیاب بنا رہا ہے۔
پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی کو بہتر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ سب سے پہلے معیشت کو مستحکم کرنا ہوگا۔ دنیا میں کوئی ملک کمزور معیشت کے ساتھ مضبوط خارجہ پالیسی نہیں چلا سکتا۔ بھارت کی طاقت اس کی معیشت ہے۔ پاکستان کو اپنی برآمدات بڑھانی ہوں گی۔ آج بھارت 770 ارب ڈالر کی برآمدات کر رہا ہے جبکہ پاکستان بمشکل 32 ارب ڈالر تک محدود ہے۔ بھارت آئی ٹی، فارماسیوٹیکل، انجینئرنگ، زرعی مصنوعات اور دفاعی سازوسامان برآمد کرتا ہے۔ پاکستان کی برآمدات زیادہ تر ٹیکسٹائل تک محدود ہیں۔ جب تک پاکستان اپنی معیشت کو متنوع نہیں بنائے گا، اس کی خارجہ پالیسی کمزور ہی رہے گی۔
دنیا کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں کچھ بہتری آئی ہے لیکن یہ کافی نہیں۔ ترکی اور آذربائیجان کے ساتھ تعلقات مضبوط ہیں۔ قطر اور خلیجی ممالک سے سرمایہ کاری آ رہی ہے۔ چین کے ساتھ سی پیک اب بھی ایک امید ہے۔ لیکن امریکہ اور یورپ کے ساتھ تعلقات اب بھی سرد ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی سرمایہ کاری پاکستان میں نہیں آتی۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ اپنی پالیسی میں توازن پیدا کرے۔ صرف ایک ملک پر انحصار خطرناک ہے۔ اگر پاکستان چاہتا ہے کہ دنیا اسے سنجیدہ لے تو اسے اپنی سفارت کاری کو متنوع بنانا ہوگا۔
پاکستان کے لیے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا وہ اپنی خارجہ پالیسی کو ری ایکٹو سے پرو ایکٹو کیسے بنا سکتا ہے؟ اس وقت پاکستان زیادہ تر حالات کا ردعمل دیتا ہے۔ بھارت نے یہ کیا تو ہم نے یہ کہا۔ امریکہ نے یہ کیا تو ہم نے یہ بیان دیا۔ لیکن پرو ایکٹو خارجہ پالیسی یہ ہوتی ہے کہ آپ حالات کو اپنے حق میں ڈھالیں۔ آپ دنیا کو اپنی مارکیٹ، اپنی صلاحیت اور اپنے کردار سے قائل کریں۔ جب تک پاکستان اس طرزِ فکر کو نہیں اپناتا، وہ عالمی سیاست میں پیچھے ہی رہے گا۔
یہاں تاریخی پس منظر بھی اہم ہے۔ 1962 میں چین اور بھارت کی جنگ نے پاکستان کے لیے موقع پیدا کیا۔ پاکستان نے چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو اس جنگ کے بعد تیزی سے بڑھایا۔ 1971 میں بھارت کے ہاتھوں سقوط ڈھاکہ کے بعد بھی چین نے پاکستان کا ساتھ دیا لیکن وہ براہِ راست مداخلت نہیں کر سکا۔ 1998 کے ایٹمی دھماکوں کے بعد جب دنیا نے پاکستان پر پابندیاں لگائیں تو چین ہی وہ ملک تھا جس نے اس کی حمایت جاری رکھی۔ سی پیک کے آغاز نے بھی پاکستان کو امید دلائی کہ وہ خطے کا تجارتی مرکز بن سکتا ہے۔ لیکن آج حالات یہ ہیں کہ چین بھارت کے ساتھ بھی تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چین اپنی پالیسی صرف پاکستان کے گرد نہیں گھماتا بلکہ وہ اپنے وسیع تر مفاد کو سامنے رکھتا ہے۔
یہ پاکستان کے لیے سبق ہے۔ دنیا میں کوئی ملک کسی دوسرے کا مستقل دوست یا دشمن نہیں ہوتا۔ سب کچھ مفاد کے گرد گھومتا ہے۔ پاکستان کو بھی اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر پالیسی بنانی چاہیے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو آنے والے برسوں میں اس کا عالمی کردار مزید محدود ہو جائے گا۔
پاکستان کو چاہیے کہ وہ اپنی برآمدات کو بڑھائے، نئی منڈیاں تلاش کرے، یورپ، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے ساتھ تعلقات کو وسعت دے۔ اسے اپنی سفارت کاری کو صرف مذہبی یا نظریاتی بنیادوں پر نہیں بلکہ معاشی اور اسٹریٹجک بنیادوں پر استوار کرنا ہوگا۔ اگر پاکستان یہ کر لیتا ہے تو وہ دنیا میں اپنی حیثیت کو بہتر بنا سکتا ہے۔
چین کے وزیرِ خارجہ کا بھارت کا دورہ پاکستان کے لیے ایک ویک آپ کال ہے۔ یہ یاد دہانی ہے کہ دنیا مفادات کے اصول پر چلتی ہے۔ اگر پاکستان نے اپنی پالیسیوں کو حقیقت پسندانہ نہ بنایا تو مستقبل میں اس کے لیے مشکلات بڑھ جائیں گی۔ لیکن اگر اس نے اپنی معیشت کو مضبوط کیا، سفارت کاری کو متنوع بنایا اور دنیا کے ساتھ توازن قائم رکھا تو وہ خطے میں ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

