Buzdili Ke Bazar Mein Bahaduri Ka Khoon
بزدلی کے بازار میں بہادری کا خون

دنیا کے ہر انقلاب کو دشمن نے نہیں مارا، بلکہ ان چرواہوں نے مارا جن کے لیے بکریاں آزادی سے زیادہ قیمتی تھیں۔ ہوا کے سینے پر تیرتی ہوئی دھول میں ایک غیر واضح سا سایہ ابھرتا ہے۔ کسی پرانی داستان کا دھندلا ہوا منظر، لیکن جب قریب آتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ کہانی نہیں، حقیقت ہے اور یہ حقیقت وقت اور فاصلے کو چیرتی ہوئی ہمارے سامنے آ کھڑی ہوئی ہے۔
درختوں کے بیچ ایک چھوٹا سا چرواہا، ہاتھ میں لکڑی کی چھڑی، پیچھے بھیڑ بکریوں کا جھنڈ اور سامنے وہ شخص جو دنیا کے ہر مظلوم کے لیے آواز اٹھاتا رہا، چی گویرا۔ ہوا میں بارود کی بو نہیں، لیکن ایک خوف ضرور ہے جو چرواہے کے چہرے سے پھوٹ رہا ہے۔ کسی نے اس سے پوچھا، "تم نے اپنے محسن کا راز دشمنوں کو کیوں بتایا؟" وہ نظریں چرا کر کہتا ہے، "اس کی جنگ نے میری بکریوں کو ڈرا دیا تھا"۔
یہ جواب کسی ایک چرواہے کا نہیں، یہ صدیوں کے بزدلوں، موقع پرستوں اور تنگ نظر لوگوں کی اجتماعی آواز ہے۔ وہ لوگ جن کے دل تنگ کمروں کی طرح ہیں، جن میں نہ آزادی کی روشنی سما سکتی ہے، نہ قربانی کی گرمی۔ چی گویرا کو شاید معلوم بھی نہ تھا کہ جس کے لیے وہ جان ہتھیلی پر رکھ کر لڑ رہا ہے، وہ اپنی بکریوں کی خاطر اس کے خون کا سودا کر دے گا۔
اسی طرح کا منظر صدیوں پہلے اسکندریہ کی گلیوں میں بھی ابھرا۔ مصر کا بہادر سپوت، محمد کریم، فرانسیسی لشکرکے خلاف لڑتے لڑتے گرفتار ہوا۔ نپولین کی آنکھوں میں ایک عجیب سا احترام اور تکبر کا امتزاج تھا۔ اس نے کہا، مجھے اس بات کا افسوس ہے کہ ایک ایسے شخص کو ماروں جو اپنے وطن کا اتنا وفادار ہے۔ پھر اس نے رعایت کی کہ دس ہزار سونے کے سکے دے دو، تم آزاد ہو جاؤ گے۔ یہ وہ لمحہ تھا جہاں محبت اور وفا کا امتحان ہونا تھا۔ محمد کریم نے کہا، میرے پاس اتنے نہیں، مگر ان تاجروں پر سو ہزار سے زیادہ واجب الادا ہیں۔ جن کیلئے میں لڑا۔
تصور کریں وہ منظر، ایک قیدی، ہتھکڑیوں میں جکڑا، دشمن سپاہیوں کے پہرے میں، لیکن دل میں یہ امید کہ اپنے ہی لوگ، اپنے ہی شہر کے تاجر، اپنے ہی خون کے رشتے، اس کے لیے کھڑے ہو جائیں گے۔ وہ بازار میں پہنچا، اس کی نظریں ہر چہرے کو تلاش کر رہی تھیں جیسے کوئی پیاسا پانی کے چشمے ڈھونڈ رہا ہو۔ لیکن جواب میں صرف خاموشی ملی، وہ خاموشی جو موت سے زیادہ اذیت ناک ہوتی ہے۔ کسی نے کہا، تم نے اسکندریہ کو تباہ کیا، تم نے ہمارے کاروبار کا بیڑا غرق کر دیا۔ محمد کریم کا دل ٹوٹ گیا اور ٹوٹے دل کے ساتھ وہ نپولین کے سامنے واپس آیا۔ نپولین نے اس کی آنکھوں میں دیکھ کر کہا، میں تمہیں اس لیے قتل نہیں کر رہا کہ تم نے ہم سے جنگ کی، بلکہ اس لیے کہ تم نے اپنے آپ کو ایسی بزدل قوم کے لیے قربان کیا جن کے لیے تجارت، وطن کی آزادی سے زیادہ قیمتی تھی۔
یہ دونوں کردار دو الگ الگ زمانوں کے ہیں، لیکن ان کا خون ایک ہی رنگ کا ہے۔ ایک چی گویرا کی سرزمین پر بہا، دوسرا اسکندریہ کی مٹی میں جذب ہوا۔ دونوں میں قاتل دشمن نہیں تھے، اصل قاتل وہ خاموش اکثریت تھی جو اپنے ھیروز کو تنہا چھوڑ دیتی ہے اور پھر محمد رشید رضا کا جملہ تاریخ کی دیوار پر کندہ ہےکہ جاہل قوم کے لیے انقلاب لانے والا ایسا ہے جیسے کوئی شخص اندھے کے راستے کو روشن کرنے کے لیے اپنے جسم کو آگ لگا دے۔
یہ الفاظ محض شاعرانہ نہیں، یہ انسانی فطرت کا ننگا سچ ہیں۔ جب کوئی شخص اپنے دل میں قوم کا درد لیے میدان میں اترتا ہے، وہ سوچتا ہے کہ لوگ اس کے ساتھ چلیں گے، اس کے کندھے سے کندھا ملائیں گے، لیکن اکثر وہ پاتا ہے کہ لوگ دور کھڑے تماشا دیکھ رہے ہیں، یا بدتر، دشمن کے ہاتھ میں اس کی گرفتاری کا پتہ تھما رہے ہیں۔
لیکن یہ صرف چی گویرا اور محمد کریم کی داستان نہیں۔ تاریخ کے ہر دور میں ہمیں ایسے چرواہے، ایسے تاجر، ایسے خاموش تماش بین ملتے ہیں۔ یاد کیجئے 1857 کی جنگِ آزادی کا انجام، جب بہادر شاہ ظفر دہلی کے لال قلعے میں تنہا رہ گئے تھے۔ اپنے ہی سپاہی بکھر گئے، جاگیردار انگریزوں سے جا ملے اور وہ لوگ جن کی آزادی کے لیے یہ جنگ لڑی گئی، گھر کے دروازے بند کرکے تماشائی بن گئے۔ بہادر شاہ ظفر کو رنگون کی جلاوطنی میں بھیج دیا گیا اور ان کی قبر پر کوئی چراغ جلانے والا بھی نہ رہا۔
یہی رویہ جدید دور میں بھی نہیں بدلا۔ فلسطین کی گلیوں میں، شام کے ملبے میں، کشمیری وادیوں میں، ایسے بے شمار لوگ ہیں جو اپنے ہیرو کو سلام کرتے ہیں لیکن اس وقت نہیں جب اس کی ضرورت ہو، بلکہ بعد میں، جب وہ مر چکا ہو اور اس کی تصویر کسی بینر پر چھپ جائے۔ یہ تعریف کا سب سے بے قیمت سکہ ہے کہ مرنے کے بعد کسی یاد میں دیے جلائے جائیں۔
نفسیات ہمیں بتاتی ہے کہ انسان کی جبلّت میں ذاتی مفاد ہمیشہ سب سے آگے ہوتا ہے۔ جب تک قربانی دوسروں کی ہو، ہم نعرے لگا سکتے ہیں، جلوس نکال سکتے ہیں، تصویریں پوسٹ کر سکتے ہیں۔ لیکن جب اپنی جیب یا اپنی بکریاں داؤ پر لگتی ہیں، تو ہم نظریں پھیر لیتے ہیں۔ یہی وہ لمحہ ہے جہاں انقلاب دم توڑ دیتا ہے، جہاں خواب ٹوٹ جاتا ہے اور جہاں دشمن جیت جاتا ہے۔
اس کا سب سے بڑا ثبوت ہمیں حالیہ تاریخ میں افغانستان کی مثال سے ملتا ہے۔ سوویت یونین کے خلاف لڑنے والے مجاہدین جب فتح کے قریب پہنچے، تو اندرونی اختلافات، ذاتی مفاد اور طاقت کی ہوس نے ساری قربانیاں ضائع کر دیں۔ جن لوگوں نے ان پر بھروسہ کیا، وہی بعد میں خانہ جنگی کے عذاب میں پھنس گئے۔
یہی انسانی فطرت کا المیہ ہے کہ ہم ہیرو چاہتے ہیں، لیکن ایسا ہیرو جو ہمارے لیے سب کچھ قربان کرے اور ہم بدلے میں کچھ نہ دیں۔ ایسا ہیرو جو میدان میں مرے اور ہم گھر بیٹھے فاتحہ پڑھ لیں۔
اگر ہم سچ سننے کا حوصلہ رکھتے ہیں، تو مان لینا چاہیے کہ ہمارے معاشروں کی سب سے بڑی بیماری بے حسی ہے۔ ہم اپنے ہیروں کو اسی طرح دفن کرتے ہیں جیسے کسی گمنام سپاہی کو، چند دن کی ہلچل، پھر خاموشی۔ اس خاموشی کی قیمت صرف وہ جانتا ہے جو محمد کریم کی طرح بازار میں گھوم کر اپنے لوگوں کو تلاش کرتا ہے اور خالی ہاتھ واپس آتا ہے۔
آج کا سب سے بڑا سوال یہ نہیں کہ دشمن کتنے طاقتور ہیں، بلکہ یہ ہے کہ کیا ہمارے پاس ایسے لوگ ہیں جو اپنے ہیرو کا ساتھ مشکل وقت میں دے سکیں؟ کیا ہم میں سے کوئی اس چرواہے سے مختلف ہے جس نے بکریوں کے ڈر سے چی گویرا کو بیچا؟ کیا ہم میں سے کوئی ان تاجروں سے مختلف ہے جنہوں نے محمد کریم کو خالی ہاتھ لوٹا دیا؟
جب تک جواب ہاں میں نہیں، تب تک ہر انقلاب ادھورا ہے اور ہر قربانی رائیگاں اور اگر یہ رویہ نہ بدلا، تو آنے والے وقت میں ہم پھر کسی نئے محمد کریم، کسی نئے چی گویرا کے بارے میں یہی کہیں گے کہ اس نے اپنی جان ایسے لوگوں کے لیے دی جو اس کے قابل نہیں تھے۔

