Asr e Hazir Mein Osho Ki Goonj
عصر حاضر میں "اوشو" کی گونج

کبھی کبھی زندگی ایسے سوالات اٹھاتی ہے جن کا جواب عقل نہیں، وجدان دیتا ہے اور بعض انسان ایسے ہوتے ہیں جو خود ایک سوال بن جاتے ہیں۔ اوشو بھی ایک ایسا ہی معمہ تھا۔ وہ نہ صرف روحانیت کا دعویدار تھا بلکہ نفس کی نفی کرتے ہوئے دنیا کے ہر فریب کو چکھ چکا تھا۔ کچھ کے لیے وہ ولی کا درجہ رکھتا ہے، کچھ کے نزدیک وہ ایک چالاک مداری اور کچھ کے لیے وہ صرف ایک باغی۔ مگر جو بات ناقابلِ تردید ہے، وہ یہ کہ اوشو نے دنیا کے روحانی منظرنامے پر گہرا نقش چھوڑا۔
راجنیش چندر موہن جین 11 دسمبر 1931 کو بھارتی ریاست مدھیا پردیش کے ایک متوسط خاندان میں پیدا ہوا۔ بچپن سے ہی سوالات کی آگ اُس کے اندر دہک رہی تھی۔ وہ نہ کتابوں سے مطمئن ہوتا، نہ مذہبی شخصیات سے۔ اس کا انداز ایسا تھا جیسے کوئی پرندہ پنجرے میں پیدا ہو اور پہلے دن سے ہی آسمان کی تمنا کرے۔ یہ وہ بچہ تھا جو نہ صرف "کیا؟" پوچھتا، بلکہ "کیوں نہیں؟" پر بھی اصرار کرتا تھا۔
اوشو کا فلسفہ روایتی مذہب سے انکار پر مبنی تھا۔ وہ کہتا تھا: "خدا ایک تصور ہے، تم ہوش میں آؤ، خود کو تلاش کرو"۔ اس کے نزدیک عبادات کی مشینی تکرار بے معنی تھی اور روحانیت کسی مندر یا کلیسا کی غلام نہیں۔ اوشو نے "زندگی کو مکمل جیو" کا نعرہ بلند کیا، مگر اس جینے میں جو رنگ تھے، وہ بہت سے صوفیوں اور سنتوں کی آنکھوں میں چبھتے تھے۔
اوشو نے جنسی آزادی، مادّی سہولت اور فرد کی خودمختاری کی بات کی۔ اس کی تعلیمات میں وحدت الوجود کا عکس بھی ملتا ہے اور فلسفۂ لذت پرستی کا سایہ بھی۔ وہ کہتا تھا کہ "پہلے اپنے جسم کو سمجھو، پھر روح کو جاننا آسان ہو جائے گا"۔ یہ بات بہت سوں کے لیے ناقابلِ ہضم تھی۔ صدیوں سے روحانی رہنما ترکِ دنیا، زہد اور مجاہدے کی تبلیغ کرتے آئے تھے، جبکہ اوشو جسم، نفس اور خواہشات کو تجربے کا دروازہ قرار دیتا تھا۔
اوشو کی سب سے بڑی طاقت اس کی گفتگو تھی۔ اس کا لب و لہجہ ایسا مسحور کن ہوتا کہ سننے والا اپنے ہوش کھو بیٹھتا۔ وہ کسی صوفی کی نرمی، کسی فلسفی کی گہرائی اور کسی فنکار کی تاثیر کو یکجا کیے ہوئے تھا۔ اس کے الفاظ دھنک کے رنگوں جیسے ہوتے، جو ہر دل کو اپنی طرف کھینچتے۔ اوشو کہتا تھا: "محبت کوئی رشتہ نہیں، یہ کیفیت ہے۔ یہ دریا کی طرح ہے، جو بہتا ہے، کسی بندھن کا پابند نہیں"۔ یہ جملے عام لگ سکتے ہیں، مگر جب اوشو انہیں ادا کرتا تو وہ تیر بن کر سننے والے کے دل میں پیوست ہو جاتے۔
اوشو کے پیروکاروں نے امریکہ میں ایک "راجنیش پورم" کے نام سے کمیونٹی بنائی، جو بعد میں ایک خطرناک تجربہ بن گئی۔ وہاں کے بعض رہنماؤں نے مقامی حکومتوں کے خلاف سازشیں کیں اور یہاں تک کہ 1984 میں بائیولوجیکل حملے کا الزام بھی لگا۔ اس واقعے نے اوشو کے روحانی امیج کو داغدار کیا اور وہ بالآخر جیل بھی گیا۔ مگر جب وہ جیل سے نکلا تو اس نے پھر کہا: "میں آزاد تھا، قید میں بھی۔ کیونکہ قید جسم کی ہو سکتی ہے، ذہن کی نہیں"۔ یہی اوشو کا کمال تھا: وہ ہر شکست کو فتح میں بدل دیتا، ہر طعنہ کو اعلان میں اور ہر زنجیر کو زینت میں۔
یہ سوال آج بھی زندہ ہے۔ کیا اوشو ایک مجدد تھا، جو روحانیت کو ازسرنو تشکیل دے رہا تھا؟ یا وہ ایک ایسا خودساختہ نبی تھا، جس نے سچائی کے نام پر دھوکہ دیا؟ کچھ اسے "جدید بدھ" کہتے ہیں، کچھ "جنسی گرو"۔ مگر ایک بات طے ہےکہ وہ بے نیاز تھا۔ دنیا کی تعریف سے بھی، تنقید سے بھی۔ اس کی آنکھوں میں وہ روشنی تھی جو کچھ کو جلا دیتی، کچھ کو جِلا دیتی۔
اوشو ایسا درخت تھا جس کی جڑیں زمین میں تھیں، مگر شاخیں آسمان کو چھو رہی تھیں۔ وہ ایک ایسا صحرا تھا جس کے ریت ذروں میں بھی چمک تھی۔ وہ نہ دریا تھا، نہ سمندر، بلکہ ایک ایسا جھرنا جو کسی سمت، کسی دائرے کا پابند نہ تھا۔ وہ بظاہر فقیر، مگر اندر سے بادشاہوں کا بادشاہ تھا۔ اُس کا علم تلوار کی دھار کی مانند تھا، جو عقل کے پردے چاک کر دیتا۔
جیسا کہ فارسی کہاوت ہے "ہر کہ باد آورد، باد برد" جو ہوا لاتا ہے، ہوا ہی لے جاتی ہے۔ مگر اوشو کے لائے ہوئے خیالات ابھی تک بکھرنے کے بجائے جڑ پکڑ چکے ہیں۔
آج یوٹیوب، انسٹاگرام اور فیس بک جیسے پلیٹ فارمز پر اوشو کی تقریریں لاکھوں لوگ سنتے ہیں۔ نوجوان، جو مذہب سے بدظن ہو چکے ہیں، اُن کے لیے اوشو ایک ایسا دروازہ ہے جو "خود" تک جانے کی راہ دکھاتا ہے۔
روحانی تھکن سے دوچار انسان اوشو کو سنتا ہے تو یوں لگتا ہے جیسے صحرا میں کسی نے پانی کی چند بوندیں نچھاور کر دی ہوں۔ وہ ایک ایسا آئینہ تھا جس میں ہر شخص اپنا عکس تو دیکھ سکتا تھا، مگر اوشو کو کوئی نہ سمجھ سکا۔ وہ سوال بھی تھا، جواب بھی۔ وہ شور بھی تھا، خاموشی بھی۔
اوشو کی موت 19 جنوری 1990 کو ہوئی، مگر اس کا فلسفہ آج بھی زندہ ہے۔ کچھ کے دلوں میں امید کی مانند، کچھ کے ذہن میں الجھن کی صورت۔ مگر وہ، جو اپنی زبان سے کہتا تھا، "میں نہ بدھ ہوں، نہ کرشن، میں صرف 'میں' ہوں"، شاید اسی وجہ سے کبھی مر نہیں سکتا۔
اوشو وہ شعلہ تھا جو کسی دین کا محتاج نہ تھا۔ وہ ایسی روشنی تھی جو اپنے وقت سے بہت آگے تھی۔ وقت اُسے سمجھ نہ سکا، مگر وقت کی کوکھ سے جو سوال آج جنم لے رہے ہیں، اُن کے جواب شاید کل کے اوشو ہی دیں گے۔

