Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zubair Aslam Baloch
  4. Amanullah Khan Ko Khiraj e Tehseen (1)

Amanullah Khan Ko Khiraj e Tehseen (1)

امان اللہ خان کو خراج تحسین (1)

"اگر غربت نہ ہوتی، تو شاید میں جگت باز نہ بنتا، میں نے ہنسنا سیکھا بھوک کو منہ چڑاتے ہوئے"۔

امان اللہ خان کا یہ جملہ ان کی پوری ابتدائی زندگی کا خلاصہ ہے۔ وہ صرف ایک فنکار نہ تھے، وہ اس دھرتی کے ان بے آواز لوگوں کی آواز تھے جن کے پاس نہ دولت ہوتی ہے، نہ طاقت، مگر وہ مسکرانا نہیں بھولتے۔

امان اللہ خان 1950ء کے عشرے کے آخر یا 60ء کے اوائل میں گجرانوالہ میں پیدا ہوئے۔ یہ وہ شہر تھا جو ابھی ثقافتی اور تہذیبی طور پر ایک گاؤں کی شکل رکھتا تھا۔ گلیوں میں خاک اڑتی تھی، چھوٹے چھوٹے گھروں میں کئی کئی خاندان بستے تھے اور زندگی سخت تھی، بہت سخت۔ یہی وہ دھرتی تھی جس نے پاکستان کے سب سے بڑے مزاح نگار کو جنم دیا۔

امان اللہ کا بچپن آسان نہ تھا۔ ان کے والد ایک چھوٹے درجے کے مزدور تھے۔ ماں ایک سادہ گھریلو خاتون، جن کی تعلیم صفر، لیکن مزاج میں شفقت کا سمندر۔ غربت کی انتہا یہ تھی کہ امان اللہ نے باقاعدہ اسکول کبھی نہیں دیکھا۔ ان کی زندگی کا پہلا "مدرسہ" لاہور کی گلیاں تھیں اور پہلا "نصاب" زندگی کی تلخیاں۔

وہ خود بتاتے تھے، "ہم تو پتنگ بیچتے تھے، کبھی لوگ ہنستے تھے، کبھی پتنگ لے کر بھاگ جاتے تھے، مگر میں نے ہارنا سیکھا نہیں تھا"۔

امان اللہ کے قہقہے کی بنیاد بچپن کی بھوک تھی۔ جب دوسروں کے گھروں سے سالن کی خوشبو آتی تو ان کے گھر میں چپاتیاں بھی بانٹ کر کھائی جاتیں۔ ماں اگر دو چپاتیاں بناتی تو ایک بچے کو اور دوسری ماں خود نہ کھاتی تاکہ باقی بچوں کا پیٹ بھرے۔ انہی دنوں امان اللہ نے سیکھا کہ "دوسروں کو خوش دیکھنا" اصل دولت ہے۔

امان اللہ کے اندر مزاح کا بیج بچپن سے ہی موجود تھا۔ وہ اپنی گلی کے بچوں کو جمع کرتا، کوئی کردار ادا کرتا، کوئی پرانی فلم کی نقل کرتا، کبھی کوئی لطیفہ، تو کبھی کوئی محاورہ الٹا کرکے سناتا۔ لوگ ہنستے اور وہ اس ہنسی کو اپنی کامیابی سمجھتا۔

مگر فن کو سمت دینے والا کوئی نہ تھا۔ زندگی ایک اندھیری سرنگ کی طرح چل رہی تھی، جس کے اختتام پر روشنی دکھائی نہیں دیتی تھی۔ ایسے میں ایک واقعہ پیش آیا جو ان کی زندگی کا پہلا بڑا موڑ تھا۔

لاہور کے ایک چھوٹے تھیٹر "نیلا گنبد" میں ایک دن ایک فنکار نہیں آیا۔ وہاں موجود کسی بندے نے مذاق میں امان اللہ سے کہا، "اوئے تو آجا، جگتیں ہی تو کرنی ہیں"۔

امان اللہ نے بغیر جھجک اسٹیج پر قدم رکھا اور پہلے ہی دن اس نے سامعین کے قہقہے لوٹ لیے۔ وہاں موجود ہدایتکار حیران رہ گیا۔ اس نے فوراً امان اللہ کو اپنے اگلے ڈرامے میں کاسٹ کر لیا۔

یہ وہ لمحہ تھا جب "امان اللہ" صرف ایک بچہ نہیں رہا، وہ "امان اللہ خان" بن گیا۔

مگر اس راہ میں مشکلات کم نہ تھیں۔ تھیٹر کی دنیا اُس وقت بدنام تھی۔ خاص طور پر مزاح نگار کو کمتر سمجھا جاتا تھا۔ لوگ کہتے، "یہ وہی لڑکا ہے نا جو نچلے درجے کے اسٹیج پر جگتیں کرتا ہے؟"

مگر امان اللہ نے یہ طعنے کبھی دل پر نہ لیے۔ وہ کہا کرتا، "او بھائی، میں تمہیں ہنسا رہا ہوں، یہ کام سب کے بس کا نہیں"۔

یہی غیرت، یہی عزتِ نفس، امان اللہ کا اصل سرمایہ تھا۔ وہ محض جگت باز نہیں تھا، وہ ایک معمار تھا۔ مسکراہٹوں کا معمار۔

ان کے ابتدائی ڈرامے جیسے "جی کردا اے"، "بیگم ڈش انٹینا" اور "آلو کے پراٹھے" وغیرہ نے لوکل سٹیج پر دھوم مچا دی۔ ان ڈراموں میں امان اللہ نے ایسے کردار نبھائے جو ناظرین کے دلوں کو چُھو گئے۔ وہ کبھی محلے کا سادہ سا شوہر بنتا، کبھی نوکر، کبھی ٹانگے والا اور ہر کردار میں ایسا رنگ بھر دیتا کہ اصل معلوم ہوتا۔

امان اللہ کی خاص بات یہ تھی کہ وہ سکرپٹ سے زیادہ اپنی حاضر دماغی پر انحصار کرتا تھا۔ وہ اسٹیج پر جملے گھڑتا تھا، سچ بولتا تھا، مزاح میں کڑوا سچ شامل کرتا تھا۔ مثلاً ایک بار ڈرامے میں کسی کردار نے کہا۔

"روٹی نہیں مل رہی"

امان اللہ نے فوراً کہا۔

"ساہنوں کی، ویسے ایداں تے حکومتاں نوں وی فکر نہیں"۔

یہ طنز، یہ جملہ، وہی بول سکتا تھا جو خود غربت کی آگ میں جلا ہو۔

اسی دور میں امان اللہ نے لاہور کے مختلف تھیٹروں میں پرفارم کرنا شروع کیا۔ ریگل، الفلاح، ناز، تماثیل، ہر اسٹیج پر وہ چھا گیا۔ لوگ اس کے نام پر ٹکٹ خریدتے، لائنوں میں کھڑے ہوتے۔

"امان اللہ آج ڈرامے میں ہے؟"

"ہاں جی، تو پھر دو ٹکٹ دے دو"۔

یہ تھی اس کی مقبولیت۔

اس کا پہلا کمرشل بریک "ڈبہ نمبر 8" سے آیا۔ اس ڈرامے میں امان اللہ نے عام پاکستانی کی نمائندگی کی۔ سادگی، مزاح، جفاکشی اور بے بسی، یہ سب اس کے کردار میں نظر آیا۔ یہی وہ ڈرامہ تھا جس نے اسے "عوامی فنکار" بنا دیا۔

اسی زمانے میں اس کے مداحوں میں ایک اضافہ ہوا غریب مزدور، رکشہ ڈرائیور، دکان دار، فیکٹری ورکر، وہ سب جو خود کو امان اللہ میں دیکھتے تھے۔

امان اللہ کہتا تھا "میں جگت نہیں مارتا، میں لوگوں کی آنکھوں سے درد پڑھ کر بات کرتا ہوں اور وہ ہنسی میں ڈھل جاتی ہے"۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan