Aagahi Kahan Tak Nemat Hai Aur Kab Wabal e Jan Ban Jati Hai?
آگہی کہاں تک نعمت ہے اور کب وبالِ جان بن جاتی ہے؟

زندگی کی سب سے بڑی نعمت کیا ہے؟ اگر یہ سوال کیا جائے تو شاید کوئی کہے صحت، کوئی کہے محبت، کوئی علم کو سب سے بڑا انعام سمجھے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان سب سے اوپر ایک اور شے ہے جو بظاہر بہت حسین لگتی ہے مگر اپنی شدت اور بے انتہا موجودگی میں زہر بھی بن سکتی ہے اور وہ ہے "آگہی"۔ آگہی کو عام طور پر روشنی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ شعور ہے، یہ آنکھ کی بینائی ہے، یہ ذہن کی بیداری ہے، یہ حقیقت کے پردے کو اٹھا کر دیکھنے کی صلاحیت ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جب یہ آگہی اپنی حدوں کو توڑ کر انسان پر غالب آتی ہے تو کیا ہوتا ہے؟ کیا یہ وہی روشنی رہتی ہے جو اندھیروں کو بھگاتی ہے یا پھر سورج کی تیز دھوپ کی طرح آنکھوں کو خیرہ کرکے بینائی چھین لیتی ہے؟
آگہی کی دو صورتیں ہیں، ایک وہ جو انسان کو راستہ دکھاتی ہے، اسے زندگی کے دھوکے، بیماریوں، ظلم اور جہالت سے نجات دلاتی ہے۔ دوسری وہ جو انسان پر اتنی زیادہ بوجھ ڈال دیتی ہے کہ وہ سانس لینا بھی دشوار سمجھنے لگتا ہے۔ مثال کے طور پر کسی عام آدمی کو اگر یہ علم ہو کہ دنیا میں روزانہ کتنے لوگ سرطان یا دل کے دورے سے مر رہے ہیں، کتنے بچے غذائی قلت کا شکار ہو رہے ہیں، یا کتنے حادثے پلک جھپکتے میں جان لے لیتے ہیں، تو وہ علم اگر اس کی قوتِ عمل کو بڑھائے تو رحمت ہے، لیکن اگر وہ اسے ذہنی مریض بنا دے، اسے ہر لمحہ خوف اور وہم میں مبتلا کر دے تو یہی آگہی زہرِ قاتل بن جاتی ہے۔
میڈیکل سائنس میں ہم روزانہ ایسے مریض دیکھتے ہیں جو گوگل یا یوٹیوب پر بیماریوں کے بارے میں پڑھ کر یا ویڈیوز دیکھ کر خود کو ہر مرض میں مبتلا سمجھ لیتے ہیں۔ انہیں سردرد ہو تو وہ سمجھتے ہیں شاید برین ٹیومر ہے، پیٹ میں گڑبڑ ہو تو کینسر کا شک کرتے ہیں۔ یہ کیفیت "سائبرکونڈریا" کہلاتی ہے۔ یعنی آگہی کا ایسا زہر جو علاج کی بجائے بیماری کو مزید بڑھا دیتا ہے۔ مریض کا اصل مرض دس فیصد ہوتا ہے لیکن اس کے ذہن میں آگہی سے پیدا ہونے والا خوف نوّے فیصد ہوتا ہے۔ چنانچہ ڈاکٹر کو دوائی سے زیادہ تسلی اور نفسیاتی علاج دینا پڑتا ہے۔
یہی معاملہ روزمرہ زندگی میں بھی ہے۔ فرض کریں کسی شخص کو یہ پتہ چل جائے کہ انسان کی زندگی میں ہر لمحے درجنوں بیکٹیریا اور وائرس اس پر حملہ آور ہو رہے ہیں، اس کا کھانا کتنے جراثیم لیے ہوئے ہے، اس کا پانی کتنے کیمیکلز سے آلودہ ہے، یا اس کے کپڑے کتنی بار باریکی سے صاف ہونے چاہییں تو وہ شخص نارمل زندگی گزار ہی نہیں سکتا۔ وہ ہر چیز کو مائیکروسکوپ سے دیکھنا شروع کر دے گا اور آہستہ آہستہ اس کا دماغ وسوسوں میں پھنس جائے گا۔ یہی وہ لمحہ ہے جب آگہی ضرورت سے بڑھ کر خطرناک بوجھ بن جاتی ہے۔
تاریخ کے اوراق پلٹے جائیں تو معلوم ہوگا کہ کئی بڑے فلسفی اور دانشور اپنی حد سے زیادہ آگہی کی وجہ سے پاگل پن، ڈپریشن اور تنہائی کا شکار ہوئے۔ یونانی فلسفی سقراط نے کہا تھا کہ "حد سے زیادہ آگہی انسان کو زندگی سے بیزار کر دیتی ہے"۔ وہ جانتا تھا کہ حقیقت کے تمام پردے اگر ایک ساتھ ہٹا دیے جائیں تو انسان کے پاس جینے کا جواز باقی نہیں رہتا۔ فریڈرک نطشے نے بھی یہی لکھا کہ "زیادہ شعور انسان کو یا تو "صوفی" بنا دیتا ہے یا مجنون"۔ تاریخ میں ایسے کئی اہلِ علم دفن ہیں جو اپنی دانش کی بھٹی میں جل کر خاک ہو گئے۔
اگر ہم آگہی کو مثبت رخ سے دیکھیں تو یہ زندگی کی اصل طاقت ہے۔ یہی شعور انسان کو جاہلیت سے نکال کر علم کی شاہراہ پر لے کر آیا۔ بیماریوں کی آگہی نے ہی ویکسینز کو جنم دیا، امراض کی آگہی نے ہی سرجری، اینٹی بایوٹکس اور جدید ادویات کی ایجاد ممکن بنائی۔ ماحول کی آگہی نے ہی ماحولیاتی قوانین اور گلوبل وارمنگ پر قابو پانے کی تحریکیں پیدا کیں۔ لیکن یہی آگہی اگر بے قابو ہو جائے تو انسان کو اتنے خوف میں مبتلا کر دیتی ہے کہ وہ جینے کے بجائے مرنے کے بارے میں سوچنے لگتا ہے۔
طبی حوالے سے دیکھا جائے تو بلڈ پریشر کی آگہی بہت ضروری ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص دن میں پانچ بار اپنا بلڈ پریشر چیک کرے، ذرا سا بڑھ جائے تو ڈر کے مارے ایمرجنسی بھاگ جائے، تو وہ مریض بلڈ پریشر کا نہیں بلکہ اپنی آگہی کا قیدی ہے۔ یہی حال شوگر کے مریضوں کا ہے۔ اگر وہ ہر نوالے کے بعد شوگر چیک کریں اور ہر دوست کے سامنے اپنے مرض کے قصے سنائیں تو وہ مریض اپنی زندگی کو ناقابلِ برداشت بنا لیتے ہیں۔ ایسے مریضوں کو بیماری کم اور آگہی زیادہ نقصان پہنچا رہی ہوتی ہے۔
روزمرہ زندگی میں بھی ایک عام انسان اگر ہر وقت اخبارات، ٹی وی اور سوشل میڈیا کی خبروں میں ڈوبا رہے تو اس کا ذہن ہر وقت خوف میں مبتلا رہتا ہے۔ دہشت گردی، مہنگائی، حادثات، سیاست کے انتشار کی خبریں اگرچہ سچ ہیں مگر ان کی زیادہ آگہی انسان کو مفلوج بنا دیتی ہے۔ ایسا شخص مثبت سوچ اور عملی اقدامات کرنے کے بجائے مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس لئے یہ بات دھیان میں رہے کہ "آگہی ایک تلوار ہے، اسے احتیاط سے پکڑو ورنہ یہ تمہیں ہی کاٹ ڈالے گی"۔
اب سوال یہ ہے کہ آگہی کب خطرناک ہو سکتی ہے؟ اس کا جواب آسان ہے، جب یہ عمل کو ختم کر دے۔ جب یہ خوف میں بدل جائے۔ جب یہ امید چھین لے۔ جب یہ انسان کو دوسروں سے کاٹ کر تنہائی میں دھکیل دے۔ جب یہ وسوسوں کی آگ میں جھونک دے۔ جب یہ انسان کو ہر وقت بیماری، موت اور ناکامی کا قیدی بنا دے۔ تب یہ زہر ہے، زہر بھی ایسا جو جسم کو نہیں بلکہ روح کو مارتا ہے۔
اگر ہم اقوام عالم کی تاریخ پہ غور کریں تو یہ حقیقت کھلتی ہے کہ قومیں بھی کبھی کبھی زیادہ آگہی کی وجہ سے مفلوج ہو جاتی ہیں۔ پہلی جنگِ عظیم کے بعد دنیا کو یہ آگہی ہوگئی تھی کہ بڑی جنگوں میں کروڑوں لوگ لقمۂ اجل بن جاتے ہیں۔ یہ آگہی اتنی شدید تھی کہ یورپ کے کئی ملکوں نے اپنی فوجی طاقت بڑھانے کے بجائے سکون اور بے عملی کو ترجیح دی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دوسری جنگِ عظیم میں ہٹلر جیسا شخص یورپ پر چھا گیا۔ یعنی خوف کی آگہی نے ایک طرف کو اندھا اور دوسری طرف کو بے قابو کر دیا۔
اسی طرح برصغیر کی تاریخ دیکھیں تو تقسیم ھند کے وقت عام لوگوں کو یہ آگہی تھی کہ دوسری طرف کے لوگ ان کے دشمن ہیں۔ اس آگہی نے لاکھوں قتل و غارت کو جنم دیا۔ یعنی آگہی اگر تعصب اور خوف پر مبنی ہو تو یہ انسانیت کے لیے زہر بن جاتی ہے۔
اب یہ کہ اس آگہی کے ساتھ جینا کیسے ہے؟ کیا ہمیں کم علم رہنا چاہیے؟ نہیں۔ جہالت کسی بھی حال میں فضیلت نہیں۔ اصل نکتہ یہ ہے کہ آگہی کو توازن کے ساتھ اپنایا جائے۔ ایک ڈاکٹر جانتا ہے کہ بیماری کیا ہے مگر وہ ہر مریض کو صرف خوفزدہ نہیں کرتا بلکہ علاج اور امید بھی دیتا ہے۔ ایک استاد علم دیتا ہے مگر ساتھ ہمت بھی دیتا ہے۔ ایک طرف والدین بچے کو خطرات سے آگاہ کرتے ہیں مگر ساتھ اعتماد بھی پیدا کرتے ہیں۔ یہی اعتدال اصل کمال ہے۔
حد سے زیادہ آگہی اس بچے کی مانند ہے جو اندھیرے کمرے میں موم بتی لے کر نکلتا ہے اور پھر روشنی سے اپنی ہی پرچھائی دیکھ کر ڈر جاتا ہے۔ اصل عقل یہ ہے کہ روشنی کو اتنا بڑھایا جائے کہ راستہ نظر آئے، مگر اتنا نہ بڑھایا جائے کہ آنکھیں خیرہ ہو کر راستہ بھول جائیں۔ آگہی وہ سمندر ہے جس میں رہنے کیلئے تیراک ہونا ضروری ہے، لیکن اگر آپ اس میں ڈوب گئے تو یہی سمندر آپ کی قبر بھی بن سکتا ہے۔ زندگی کا راز یہی ہے کہ علم کو اپنے قابو میں رکھا جائے، علم آپ کو قابو نہ کر لے۔ یہی اعتدال انسان کو نہ صرف باشعور بلکہ اشرف المخلوقات بھی بناتا ہے۔

