Siasi Jamaton Ki Dauren Aur Jatan
سیاسی جماعتوں کی دوڑیں اور جتن
پاکستان میں معیشت کی بد حالی کی وجہ سے ملک میں کوئی بھی کاروبار منافع بخش نہیں رہا، کاروباری طبقہ ہو، ملازمت پیشہ ہو یا مزدور سب ہی پریشان ہیں، کئی لوگ اپنے کاروبار بند کرکے بیٹھ گئے ہیں یا پھر بیرون ملک سکونت پذیر ہو رہے ہیں، جو ایک کاروبار اس وقت عروج پر ہے وہ سیاست ہے، جس نے اس وقت اس سے جڑے افراد میں ایک بار پھر جان ڈال دی ہے۔
سیاست علاقائی ہو یا قومی سطح کی، اس میں نہ چاہتے ہوئے بھی ہر مکتبہ فکرکے شہری دلچسپی ضرور لیتے ہیں ان سیاستدانوں کے لئے یہی لوگ اس کاروبار کی کموڈیٹی یعنی جنس ہے جو اسے بار بار بیچ کر یہ کاروبار جاری رکھتے ہیں گو آج کے دور میں سیاست کرنا بھی جان جوکھوں کا کام ہے مگر کیا کیا جائے یہ وہ نشہ جو منہ کو لگ جائے تو چھٹکارا پانا آسان نہیں۔
اب تو ہر کوئی دولت، شہرت اور اعلی حیثیت حاصل کرنے کے لئے سیاست کو بہترین شارٹ کٹ سمجھتے ہیں، بات یہاں تک پہنچ گئی کہ جو پچھلے انتخابات میں اپنی ضمانت ضبط کروانے سے نہ بچا سکا اب وہ بھی ایوانوں میں پہنچنے کا خواب دیکھ رہاہے، گو یہ ان کا جمہوری حق ہے لیکن عوام میں پذیرائی نہ رکھنے والے جب ان کے نمائندے بن جاتے ہیں تو وہاں سے مسائل کا آغاز ہوتا ہے مگر انہیں کیا یہ حق مل جائے تو ستے خیراں۔
ہماری سیاست میں کیا ہونے والا ہے، اس کا سب کو انتظار ہے کونسی سیاسی جماعت اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے گی، اس کے آثار اگر مگر کے ساتھ سب کو نظر آہی رہے ہیں تشویشناک صورتحال تو یہ ہے کہ ہمارے مستقبل کے یہ فیصلے پاکستان میں عوام نہیں کر رہی ہے بلکہ دبئی میں بیٹھ کر وہ اشرافیہ کر رہی ہے جس کو کسی کی آشیرباد حاصل ہے۔ عالی شان محلوں میں بیٹھ کر جب ریوڑیاں بانٹی جائیں گی تو یہ کیسی عوامی حکومت ہوگی۔
24 کروڑ عوام کا ملک ایک بار پھر پر اسرار فیصلوں کے بھینٹ چڑھ رہاہے جس سے ملک میں ترقی کی امید پیدا ہونے کی بجائے مایوسی جنم لے رہی ہے مینڈیٹ حقداروں کو نہ ملے تو ملک کی بنیادیں کو کھوکھلی ہو تی ہیں اور پہلے سے تباہ شدہ معیشت مزید تباہی کے دہانے پر کھڑی ہو جاتی ہے۔
دبئی میں یقینا بے کس اور بے بس عوام کے مستقبل کا فیصلہ نہیں بلکہ اپنے مستقبل کے فیصلے کئے جا رہے ہیں۔ نوجوانوں کو اپنا مستقبل تاریک نظر آرہا ہے ہر جانب مایوسی ہے سیاستدان اپنی باری کے چکر میں ملکی مستقبل کو داو پر لگائے ہوئے ہیں جو حالات پیدا کر دیئے گئے ہیں اس میں کسی بہتری کی امید رکھنا دانشمندی نہیں قدرتی وسائل سے مالا مال ملک اب 3 ارب ڈالر کا محتاج ہے۔
یہی سیاستدان دبئی میں بیٹھ کر عام انتخابات جیتنے، نواز شریف کی واپسی دو صوبوں میں نشستوں کی بندر بانٹ کرکے پورے ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کے طریقے سوچے جا رہے ہیں۔
دونوں جماعتوں کی جانب سے پہلے ہی یہ دعوے کئے جا رہے ہیں کہ وزیراعظم ان دو میں سے ہی ایک ہوگا آصف زرداری ایک زیرک سیاستدان ہیں اس لئے وہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر نواز شریف کوقائل کرکے دراصل جنوبی اور سنٹرل پنجاب میں اپنی جڑیں مضبوط کرنے کی کوشش میں ہے جس کا فائدہ انھیں ہو نہ ہو مگر یہ ن لیگ کے لئے گھاٹے کا سودا ضرور ہوگا۔
پیپلزپارٹی پنجاب میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے بدلے سندھ میں مسلم لیگ ن کو موقع دے گی ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا کیونکہ مسلم لیگ ن کراچی سے تو ایک آدھ سیٹ نکال سکتی ہے مگر اندرون سندھ وہ ایک گمنام جماعت ثابت ہوگی۔ ن لیگ جو بھی ایڈجسٹمنٹ کرتی ہے اور جیسے بھی کرتی ہے حکومت بنانے کے لئے اسے جہانگیر ترین کا سہارا لینا ہوگا جو ایک پریشر گروپ کے طور پر ابھرے گی۔
آصف زرداری تو بلاول بھٹو کو وزیر اعظم بنانے کےلیے اپنا فریم ورک تشکیل دے چکے ہیں، سیاست کے بادشاہ کو اب دبئی میں کامیابی ملتی یا نہیں سب کی نظریں اسی پر ہیں، ان تمام معاملات کے بعد نواز شریف دبئی سے براستہ سعودی عرب سے لندن جائیں گے اور وہیں سے رخصت سفر باندھ کر سیدھے پاکستان آئیں گے، مریم نواز بھی نواز شریف کے ہمراہ ہیں اور سعودیہ میں اہم ملاقاتیں ہوں گی، دبئی میں ہونے والی ملاقاتوں کے حوالے سے لگتا ہے کوئی اہم بیٹھک ہونے والی ہے، دیکھنا تو یہ ہے کہ سعودیہ میں ملاقاتیں کس کے مستقبل کی راہ ہموار کرتی ہیں۔
دبئی میں ہونے والے فیصلوں میں نگران سیٹ اپ کتنے عرصے کے لیے آتا ہے یہ بھی سوالیہ نشان ہے، شنید تو یہ بھی ہے کہ انتخابات کے انعقاد میں دیر بھی ہو سکتی ہے جس کے لئے دبئی میں پہلے سے لائحہ عمل حفظ ما تقدم کے طور پر بنایا جاچکا ہے۔ بہرحال اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اس کا اندازہ اگلے چند دن میں واضح ہو جائے گا جب میاں نواز شریف کی واپسی کی تاریخ سامنے آئے گی۔