Gandum, Nizam e Taleem, Hukumran Aur Awam (1)
گندم، نظام تعلیم، حکمران اور عوام (1)
ایک انگریزی فلم ہے انٹر سٹیلر۔ فلم کا موضوع تو کچھ اور ہے لیکن اس فلم میں ایک سب پلاٹ بھی ہے جس پر عموماً کسی کی نظر نہیں جاتی۔ فلم کے شروع میں دو بہن بھائی سپیس ایجینسی میں کام کرنے کی درخواست دیتے ہیں، دونوں کا تعلق ایک زمیندار گھرانے سے ہوتا ہے، بھائی کا ٹیسٹ پاس کرنے کا سکور بہن کی نسبت زیادہ ہوتا ہے لیکن بھائی کی درخواست مسترد جبکہ بہن کی درخواست قبول کر لی جاتی ہے۔
وجہ معلوم کرنے پر eligibility board کے جواب میں حکمت دیکھیں۔۔ لڑکے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے اسے agricultural science's کی طرف بھیج دیتے ہیں کیونکہ بچے کے آبائی کام (زمینداری) کے جینز اس میں dominant ہوتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ سپیس کی بجائے وہ اصل صلاحیت زمینداری میں استعمال کر سکے گا اور بہن گو کہ تھیوری میں اتنا اچھا پرفارم نہیں کر پائی لیکن پریکٹیکلی اسکی صلاحتیں سپیس سائنسز میں بے مثال ہو سکتی ہیں۔
چونکہ آجکل گندم کی کٹائی کا موسم ہے اور پھر سرکاری خریداری کے نرخ اور انکے procurement کو لے کر اسمبلی اور عوام میں گفتگو چل رہی ہے، اس لیے خصوصی طور پر گندم لیکن ہر شعبے میں اسے عمومی خیال ہی تصور کیا جائے۔
ہر شعبہ میں جدی پشتی کام کرنے والوں کے جینز میں اس شعبہ کی منفی مثبت پہلوؤں کو لے کر چند صلاحیتیں ایسی آ جاتی ہیں جو اسے دوسروں سے ویسے ہی ممتاز کر دیتی ہیں، یہ کوئی پتھر پر لکیر نہیں ہے کیونکہ exceptions are always there، لیکن exceptions کو کبھی بھی عمومی بات پر نہیں پرکھ سکتے۔
والد محترم ڈاکٹر تھے اور وہ کہا کرتے تھے کہ اگر تم ڈاکٹر بنو گے تو تمہاری پریکٹس ایک عام ڈاکٹر کی طرح صفر سے شروع نہیں ہوگی کیونکہ صفر سے دس تک کا سفر میں اپنے تجربہ سے پورا کر چکا ہوں اور میں آپکو اپنے تجربات ایک آدھ سال میں ہی منتقل ہو سکتا ہوں، آپکا کام دس سے آگے شروع ہوگا، اور دس تک پہنچتے پہنچتے ایک عام ڈاکٹر کو شاید پندرہ یا بیس سال لگ جائیں یا شاید ساری زندگی لگ جائے، لیکن میں ڈاکٹر نہیں بنا۔
اسی طرح ہمارے محترم ڈاکٹر سعد صدیقی صاحب کا تعلق ایک پرانے دیندار گھرانے سے ہے، وہ اپنے متعلق بتاتے ہیں کہ جب انہوں نے اپنی دینی تعلیم شروع کی تو انکے ساتھ اس وقت تقریباً دس ہزار طلبہ نے پورے پاکستان سے اسکا پہلا امتحان دیا لیکن دینی اور دنیاوی ترقی اس بیچ میں سے صرف ایک ڈاکٹر صاحب اور دوسرے کراچی کے ایک اسی طرح پرانے دیندار گھرانے کے سپوت ہی حاصل کر چکے کہ ایک جامعہ کراچی اور ایک جامعہ پنجاب کے اپنے شعبوں میں ڈین بھی بنے اور منبر بھی سنبھالے رکھا۔
اسی طرح چند افراد کو نکال کر ہمارا چھوٹا یا بڑا زمیندار اپنے بچوں کو شہر بھیج کر انکا اور اپنا مسلسل نقصان کر رہا، ان بچوں کو اعلی تعلیم سے زیادہ زمیندارہ کی بہتر تکینک سیکھنی چاہئے تھی بجائے اسکے کہ ایسی تعلیم لے کر دھکے کھاتا پھرے جسکی اسے نوکری ہی نہ ملے۔ پھر شرم کے مارے اور معاشرتی دباؤ کی وجہ سے واپس درانتی اور بیلچا اٹھانا اپنی توہین سمجھتا ہے۔
کووڈ کے دنوں میں جب سب کچھ بند تھا اور عوام اپنے گھروں میں محصور تھی تو اس وقت گندم کی کٹائی کے لیے تھریشر چونکہ آ نہیں سکتے تھے تو زمینداروں نے سب کو کہا کہ آ کر گندم کاٹ جائیں، اپنے گھر کے لیے سال کی گندم بھی رکھ لیں لیکن عوام نے خیرات کے آٹے کی بوری لینی منظور کر لی لیکن زمین میں اتر کر کام نہیں کیا۔
ندیم افضل چن نے اس وقت اس طرف اشارہ کیا تھا کہ کووڈ کے دوران مسئلہ بے روزگاری نہیں ہے بلکہ لوگ کلف لگا کر سارا دن گاؤں میں ویلے پھرتے رہیں گے لیکن کھیت کی طرف رخ نہیں کریں گے۔
ہمارے ہاں صرف میمن، شیخ اور گجر ذات ہی ایسی ہے جنہوں نے زیادہ تر اپنے بچوں کو تعلیم سے زیادہ اپنے کام میں کھپانے کو ترجیح دی، انکی اولاد میں سے البتہ کوئی exception نکل آیا تو اسکو اسکی راہ پر چلنے دیا وگرنا اپنے اپنے شعبوں میں یہ آج بھی یکتا ہیں اور دوسروں سے زیادہ بہتر پرفارم کرنے والے ہیں۔
1967 کے پی آئی اے کے ایک اخباری اشتہار میں تین انتہائی جاذب نظر ائیر ہوسٹس دکھائی ہوئی تھیں، اس پوسٹر کے نیچے بے تحاشہ پرانے وقتوں کو یاد کرنے والے غمگین کمنٹ تھے، البتہ جس کمنٹ نے اپنی طرف مبذول کیا وہ یہ تھا "افسوس کا اصل مقام تو یہ ہے کہ یہ ابھی تک ہمارے جہاز کی ہوسٹس ہیں"۔ ہمارا نظام تعلیم 1960-70 تک updated تھا لیکن یہ کہاں کا انصاف ہے کہ اسے آج بھی رائج رکھا جائے۔
جاری ہے۔