Hazrat Ibn e Arabi Ka Qazia
حضرت ابن عربیؒ کا قضیہ
اکیسویں صدی کا اکیسواں سال شروع ہو چکا ہے اور ان اکیس سالوں میں دنیا کا نقشہ یکسر طور پر بدل چکا ہے۔ ماضی کی بڑی بڑی ریاستوں کے وجود صفحۂ ہستی سے مٹ چکے ہیں۔ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا سورج پوری آب و تاب سے چمک رہا ہے۔ شرق و غرب میں نغمہ توحید گانے والوں کی بادشاہی ہے۔ اقبال نے جواب شکوہ لکھی تو امت بیدار ہو گئی اور پھر دنیا کو اپنے زور بازو سے منوا لیا۔ بیسویں صدی کی عظیم سپر پاور امریکہ، ہندوستان کے ایک نومولود ملک ماضی میں جسے پاکستان کہا جاتا تھا سے بھیجے گئے ایک لشکر جرار کے آگے گھٹنے ٹیک چکا ہے اور باقاعدہ جزیہ ادا کرتا ہے۔
پاکستان کیا ہے؟ یہ اسلامی ریاست کا دارلحکومت ہے جس کا حدود اربع دہلی سے لے کر قندھار تک اور کاشغر سے لے کر خوجوں کے گجرات تک پھیلا ہوا ہے۔ جب کہ ہندوستان اور چین کے بقیہ علاقے ریاست کے مختلف صوبوں میں انتظامی لحاظ سے شامل کر لئے گئے ہیں۔ روس کے وسیع و عریض خطے کو اسلامی لشکر کی پیشہ وارانہ مشقوں کے لئے مخصوص کر لیا گیا ہے جب کہ چین کو ایک انڈسٹریل اسٹیٹ کی حیثیت حاصل ہے اور رہے گنگا و جمنی تہذیب کے باشندے تو ان کو غلام بنا لیا گیا ہے اور باقاعدہ بیگار لیا جاتا ہے۔ اسرائیل کا صوبہ جو اسلامی نشاۃ ثانیہ سے پہلے اہل فلسطین کے لئے ایک دکھتے پھوڑے کی حیثیت اختیار کر چکا تھا اس کا وجود ختم نہیں کیا گیا بلکہ برقرار رکھا گیا ہے تاکہ بنی اسرائیل اہل فلسطین کی خدمت و چاکری کر سکیں۔
ماضی کے اوراق کھولیں تو تاج برطانیہ ایک ایسی حکومت تھی جس میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا لیکن اب اس کا اپنا سورج بھی غروب ہو چکا ہے اور اسلامی ریاست میں اس کا مقام بالکل وہی ہے جو برصغیر میں انگریزوں کے دور میں کوہ مری کو حاصل تھا۔ مسلم امراء گرمیوں میں ولایت کو سدھار جاتے ہیں اور پھر کئی ایک تو ولایت سے فیض یاب ہو کر باقاعدہ ولی بن کر ہی لوٹتے ہیں۔
بیسویں صدی میں کوئی دو سو کے لگ بھگ ریاستیں تھیں لیکن اب صرف اور صرف ایک ہی ریاست اس کرہ ارض پر موجود ہے اور وہ ہے اسلامی ریاست۔ پہلے بھی ذکر ہو چکا کہ پاکستان جس کا دارلحکومت ہے۔ زمانے کے ذہین و فطین یہاں اکٹھے ہو چکے ہیں۔ یہی لوگ ریاستی پالیسیاں اور آئندہ کا لائحہ عمل طے کرتے ہیں امیر المومنین کہ جس پر توثیق کی مہر ثبت کرتے ہیں۔
اللہ اللہ کیسا جذبہ جہاد ہے یا کہ شوق شہادت ہے۔ ساری دنیا فتح کر چکنے کے بعد بھی یہ غیور مجاہد ھل من مزید، ھل من مزید کی صدائیں بلند کر رہے ہیں۔ مجلس شوریٰ بلائی جاتی ہے دانا اکٹھے ہوتے ہیں۔ امیر المومنین خطاب کرتے ہیں اور ایک تجویز اہل دانش کے سامنے رکھی جاتی ہے کہ ہماری اگلی منزل مریخ ہونی چاہئیے۔ جسے باہمی صلاح و مشورے سے منظور کر لیا جاتا ہے۔
مریخ ایک ایسا سیارہ ہے جہاں آج سے پہلے کوئی نہیں جاسکا۔ چنانچہ تحقیق یہاں سے شروع ہوتی ہے کہ مریخ تک پہنچا کیسے جائے۔ اس عظیم مقصد کے لئے تیرہویں صدی کے ایک جید صوفی حضرت ابن عربیؒ سے مستفید ہونے کا سوچا جاتا ہے اور اس ضمن میں ان کی تصنیف "فتوحات مکیہ" پر فکری مباحث شروع کر دئیے جاتے ہیں۔ حضرت کا انتخاب اس لئے کیا گیا ہے کہ وہ مابعد الطبیعات پر گہری نظر رکھتے ہیں اور یہاں مریخ بھی ابھی تک مسئلہ مابعد الطبیعات ہی بنا ہوا ہے۔
اس علمی دور میں، ایک نوجوان بستی سے دور بہت دور دریا کے کنارے بیٹھا سوچ رہا ہے آج سے ہزار سال پہلے جب شہر بغداد میں مسلمان ایسے ہی زور و شور سے غور و فکر میں مصروف تھے تو ہلاکو خاں کی صورت میں کامیابی نصیب ہوئی اب کی بار جانے یہ سہرا کس کے سر سجے گا؟