Khatam e Nabuwat Aur Pakistan
ختم نبوت اور پاکستان
ختم نبوت کا مفہوم یہ ہے کہ حضرت آدمؑ سے نبوت کا جو سلسلہ شروع ہوا اور ایک کے بعد دیگر کئی انبیاء آئے، کچھ کے پاس اپنی علیحدہ آسمانی کتابیں اور مستقل شریعتیں تھیں اور کچھ اپنے سے پہلے انبیاء کی کتابوں اور شریعتوں پر عمل پیرا تھے۔ یہ سلسلہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ پر آکر ختم ہوگیا۔ آپ پر ایک جامع اور ہمیشہ رہنے والی کتاب نازل ہوئی اور آپ کو ایک کامل شریعت دی گئی۔ آپ آخری نبی ہیں۔ آپ پر دین کی تکمیل ہوئی اور آپ کی شریعت نے پہلی تمام شریعتوں کو منسوخ کر دیا۔
آپ کے بعد اب کسی قسم کا کوئی دوسرا نبی نہیں آئے گا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تمام انسانوں کے لیے رسول بنا کر بھیجا ہے اور قیامت تک ہر قوم اور ہر دور کے انسانوں کے لیے آپ کی رسالت عام ہے اور سب کے لیے آپ کی تعلیم کافی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپﷺ پر دین کو مکمل کر دیا۔ آپ کی شریعت کامل ہے۔ اور آپ کی تعلیمات، ہدایت کی مکمل ترین شکل ہیں۔ اس لیے اب کسی دوسرے نبی کی کوئی ضرورت نہیں۔
اللہ تعالیٰ نے آپ پر نازل کردہ کتاب قرآن مجید کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے اور وہ کتاب چودہ سو سال گزرنے کے باوجود اس شان سے محفوظ ہے کہ اسکے ایک حرف میں بھی کوئی رد و بدل نہیں ہو سکا۔ اس کتاب کا ایک ایک حرف محفوظ ہے، کاغذ کے صفحات پر بھی اور حفاظ کے سینوں میں بھی۔ آپ کی تمام تعلیمات اپنی صحیح شکل میں محفوظ ہیں جو تمام دنیا کے لیے ہدایت کا سرچشمہ ہیں۔ اس لیے آپ کے بعد کوئی اور نبی نہیں آسکتا۔ اب ہر طالب ہدایت پر لازم ہے کہ حضرت خاتم المرسلین ﷺ پر ایمان لائے اور آپ ہی کے بتائے ہوئے طریقے پر چلے۔ عقیدۂ ختم نبوت، قرآن، حدیث اور اجماع امت تینوں سے ثابت ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلكِنْ رَسُولُ اللَّهِ خَاتمَ النبین (سورۃ الاحزاب: 40)
ترجمہ: محمد باپ نہیں کسی کا تمھارے مردوں میں سے لیکن اللہ کا رسول ہے اور مہر سب نبیوں پر۔
عربی زبان میں ختم کے معنی ہیں مہرلگانا، بند کرنا، آخر تک پہنچانا، کسی کام کو بندا کرکے فارغ ہو جاتا۔ تمام مفسرین نے اس آیت کریمہ میں خاتم کے معنی آخری نبی کے بیان کیے ہیں۔ حدیث مبارک میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بینی اسرائیل کی رہنمائی انبیاء کیا کرتے تھے۔ جب ایک نہیں وفات پا جاتا تو دوسرا نبی اُس کا جانشین ہوتا۔ مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں ایک اور حدیث میں آتا ہے حضور ﷺ نے فرمایا "میری اور مجھ سے پہلے گزرے ہوئے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے عمارت بنائی اور خوب حسین و جمیل بنائی۔ مگر ایک کنارے میں ایک اینٹ کی جگہ خالی چھوڑ دی اور وہ اینٹ میں ہوں تمام صحابہ کرام کا اس بات پر اجماع تھا کہ حضور ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق کے دور میں جن لوگوں نے دعوی نبوت کیا صحابہ کرام نے ان کے خلاف جہاد کیا۔
محمد ریاض ایڈووکیٹ اپنے تحریر "عقیدہ ختم نبوت ﷺ اور آئین پاکستان" میں کچھ یوں بیان کرتے ہیں کہ، کلمہ طیبہ کے نام پربننے والی ریاست اسلامی جمہوریہ پاکستان اپنے وجود کے پہلے30 سال تک انتہائی گھمبیر مسائل کا شکار رہی جہاں ایک طرف بنگلہ دیش کی صورت میں ملک دولخت ہوگیا تو دوسری جانب قادیانی احمدی جماعت کی وجہ سے ختم نبوت ﷺ جیسے عظیم عقیدہ پر مسلمانان پاکستان کی ناختم ہونے والی بے چینی۔
مملکت میں آئے روز فسادات، قتل و غارت جیسے واقعات ہوئے۔ حد تو یہ تھی کہ عقیدہ ختم نبوت ﷺ کی پیروی کرنے کی پاداش میں اسلامی ریاست پاکستان میں خود صحیح العقیدہ مسلمانوں کو ہی قید و بند کی صعوبیتں برداشت کرنا پڑیں۔ یہاں تک کہ جید علماء کرام کو پھانسی کی سزائیں بھی سنائی گئیں۔ بالآخر ماہ ستمبر 1974 میں پارلیمنٹ کی جانب سے آئین پاکستان میں متفقہ طور پر ترمیم کرکے اس مسئلے کو ابدی طورپر حل کردیا گیا۔ پاکستان میں عقیدہ نبوت ﷺ اور تحریک ختم نبوت ﷺ پر بہت کچھ لکھا گیا بہت کچھ سنایا گیا۔ بندہ ناچیز اپنی اس تحریر میں ریاست پاکستان کے آئین و قانون کی روشنی میں ختم نبوت ﷺ پر چند معروضات پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہے۔ پاکستان کے تمام مسلمانوں کے لئے آئین و قانون میں درج ان معلومات بارے آگاہی بہت ضروری ہے۔
آئین پاکستان کے آرٹیکل 2 (a) کے مطابق:
قراد داد مقاصد 1949 کو آئین پاکستان کا preamble یعنی تمہیدبنا دیا گیا۔
آئین پاکستان کے آرٹیکل 260 (3) (a) کے مطابق مسلمان کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے:
"مسلمان" سے مراد وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ کی وحدت و توحید قادر مطلق اللہ تبارک تعالیٰ اور خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کی ختم نبوت پر مکمل اور غیر مشروط طور پر ایمان رکھتا ہو اور ایک نبی یا مذہبی مصلح کے طور پر کسی ایسے شخص پر نہ ایمان رکھتا ہو اور نہ اسے مانتا ہوجس نے حضرت محمد ﷺ کے بعد اس لفظ کے کسی بھی مفہوم یا کسی بھی تشریح کے لحاظ سے پیغمبرہونے کا دعویٰ کیا ہو یا جو دعویٰ کرے۔
آئین پاکستان کے آرٹیکل 260 (3) (b) کے مطابق غیر مسلم کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے:
"غیر مسلم" سے ایسا شخص مراد ہے جو مسلمان نہ اور اس میں عیسائی، ہندو، سکھ، بدھ یا پارسی فرقے سے تعلق رکھنے والا شخص، قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ کا (جو خود کو احمدی، یا کسی اور نام سے موسوم کرتے ہیں) کوئی شخصی یا کوئی بہائی، اور کسی درج فہرست ذاتوں سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص شامل ہے۔
آئین پاکستان میں ختم نبوت ﷺ اور مسلمان کی واضح تعریف کے بعد کس بھی قسم کے غیر آئینی اقدام کی روک تھام کے لئے مجموعہ تعریزات پاکستان یعنی پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 298 میں 1984 میں ایک آرڈیننس کے تحت ترمیم کی گئی۔
پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 298 (B) (1) کے مطابق:
قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ کا کوئی بھی فرد (جو اپنے آپ کو 'احمدی' کہتے ہیں یا کسی دوسرے نام سے جو الفاظ کے ذریعے، یا تو بولے یا لکھے، یا ظاہری نمائندگی کے ذریعے درج ذیل افعال کرے:
(الف) حضرت محمد ﷺ کے خلیفہ یا صحابی کے علاوہ کسی بھی شخص کو "امیر المومنین"، "خلیفۃ المومنین"، خلیفۃ المسلمین"، "صحابی" کے طور پر منسوب یا مخاطب کرے۔
(ب) حضرت محمد ﷺ کی کسی زوجہ محترمہ کے علاوہ کسی ذات کو "ام المومنین" کے طور پر منسوب یا یا مخاطب کرے۔
(ج) حضرت محمد ﷺ کے خاندان "اہل بیت" کے کسی فرد کے علاوہ کسی بھی فرد کو "اہل بیت" کے طور پر منسوب یا مخاطب کرے۔
(د) اپنی عبادت گاہ کو "مسجد" کے طور پر منسوب کرے یا موسوم کرے یا پکارے۔
پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 298 (C) کے مطابق:
قادیانی گروہ یا لاہوری گروہ کا کوئی فرد (جو اپنے آپ کو 'احمدی' یا کسی اور نام سے پکارتا ہے)، جو بالواسطہ یا بلاواسطہ خود کو ظاہر کرتا ہے۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے، یا اپنے عقیدے کو اسلام کہتا ہے، یا اپنے عقیدے کی تبلیغ کرتا ہے یا اس کی تبلیغ کرتا ہے، یا دوسروں کو اپنے عقیدے کو قبول کرنے کی دعوت دیتا ہے، الفاظ کے ذریعے، یا تو بولے یا تحریری، یا ظاہری نمائندگی کے ذریعے، یا کسی بھی طریقے سے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کی صورت میں کی قید کی سزا دی جائے گی جس کی مدت تین سال تک ہو سکتی ہے اور جرمانہ بھی ہو سکتا ہے۔
اللہ کریم ہم سب کو پکا سچا مسلمان بنائے اور زندگی کے آخری سانس تک عقیدہ ختم نبوت ﷺ پر قائم دائم اور اس عقیدہ کی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔