Zehar Ka Darya
زہر کا دریا

دریاؤں کے صاف پانی کا پاکستان کی طرف بہاؤ بند کرنے کی دھمکی کے ساتھ ہی غلاظت سے لُتھڑے مضرِ صحت سیوریج کے پانی اور زہریلے صنعتی فاضل پانیوں کی اِنڈیا سے بلا روک ٹوک پاکستان میں آمد جاری ہے۔
ہڈیارہ ڈرین کے نام سے زہر کا یہ دریا مشرقی پنجاب کے ضلع گورداسپور کے بٹالہ قصبے سے شروع ہوکر امرتسر سے ہوتا ہوا 44 کلومیٹر کا سفر طے کرتا صنعتوں کا زہریلا پانی اور انسانی غلاظت اکٹھی کرتا "لالُو/ ہڈیارہ" نامی گاؤں کے مقام پر پاکستان میں داخل ہوتا ہے جہاں سے یہ لاہور کی بغلی سوسائٹیوں جیسے خیابانِ امین، ویلنشیا وغیرہ سے ہوتا ہوا ملک ریاض کے بحریہ ٹاون سے ہوکر 54 کلومیٹر کے مزید سفر کے بعد دریائے راوی کے خُشک پاٹ میں جا گرتا ہے۔
پاکستانی علاقے کے سفر میں اس نالے کے پانی میں نہ صرف 100 مزید صنعتوں کے فاضل پانی کا زہر گھول دیا جاتا ہے بلکہ بہت سے گاؤں اور سوسائٹیوں کا سیوریج پانی بھی اس میں ڈالا جاتا ہے۔
ہڈیارہ ڈرین سنہ 70 کی دہائی تک بارشی پانی کی نکاسی کا ایک نالہ ہوتا تھا جو کہ آج کل زہر کا ایک مردہ دریا بن چُکا ہے جس میں کسی آبی حیات کے زندہ رہنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ ریسرچ کے مطابق ہڈیارہ کے پانی کے DO، BOD اور COD لیول قومی اور بین الاقوامی محفوظ سطحوں سے انتہائی اوپر چلے گئے ہیں جس کی وجہ سے پچھلے تیس سال سے اس ندی کے پانی نے کسی مچھلی یا آبی جاندار کی شکل تک نہیں دیکھی۔
افسوس تو یہ کہ DO، BOD اور COD لیول صنعتی فضلے کو خارج کرنے والے نالوں کے بین الاقوامی معیار سے بھی کئی گُنا اوپر چلے گئے ہیں۔
خطرے کی بات یہ ہے کہ لاہور شہر کے میں چلنے والے زہر کے اس دریا میں 100 کے قریب صنعتیں (زیادہ تر ٹیکسٹائل) ہرقسم کا کیمیکل ملا پانی بغیر کسی تطہیر کے ڈال رہی ہیں۔ یہاں سے یہ پانی نہ صرف زیر زمین رساؤ کرکے زمینی پانی میں زہر گھول رہا ہے بلکہ ڈرین کے ارد گرد زرعی زمینوں پر مفت کا یہ پانی کھینچ کر سبزیاں اور چارہ کاشت کیا جارہا ہے۔
اس پانی کو کاشت کاری کے لئے استعمال کرنے کا یہ نقصان ہے کہ اس میں موجود غیر نامیاتی زہریلے مادے نہ صرف مٹی میں مل کر نہ صرف زرعی زمینوں کو آلودہ اور شور زدہ کررہے ہیں بلکہ یہ سبزیوں میں شامل ہوکر انسانی جسموں کے اندر پہنچ کر خطرناک بیماریوں کا باعث بھی بن رہے ہیں۔
ایسے زہریلے پانی سے اگائی گئی سبزیوں میں انسانی جسم کے لئے درکار غذائیت بھی بہت کم ہوتی ہے۔ ایسی زمینوں پر پیدا ہونے والا چارہ کھانے والے جانوروں کا گوشت بھی زہریلے مواد لے کر انسانی معدوں میں پہنچ رہا ہے جہان سے یہ زہریلے غیر نامیاتی مادے انسانی خوں میں شامل ہوکر بہت سی خطرناک بیماریاں پھیلا رہے ہیں۔
ہڈیارہ ڈرین سے زیرِ زمین جانے والا پانی بھی نہ صرف آرسینک، زِنک اور لیڈ جیسے زہریلے مواد پینے کے پانی میں شامل کررہا ہے بلکہ سیوریج کے پانی میں موجود خطرناک قسم کے بیکٹیریا (ای کولائی) اور دوسری مائیکرو آرگنزم بھی پینے کے پانی میں شامل ہو رہے ہیں جس سے اس ڈرین کے ارد گرد موجود لاکھوں افراد کے آبادیوں میں زیرِ زمین پانی آلودہ ہوکر انسانوں کو بیمار کرہا ہے۔
ہڈریارہ ڈرین جس کا اوسط بہاؤ 180 کیوسک ہے لاہور میں تباہی پھیلانے کے بعد دریائے راوی میں جا گرتا ہے جہاں یہ دریائے راوی کی بھی 10-15 فی صد آلودگی کا ذمہ دار ہے۔ لاہور سے نیچے کی آبادیاں اور بلوکی بیراج سے سیراب ہونے والی زمینیں اس زہر کی آخری آرام گاہ ہوتی ہیں جس پر پیدا ہونے والی سبزیاں ایک دفعہ پھر لاہور کی سبزی منڈی میں آکر بکتی ہیں۔
ہڈیارہ ڈرین میں زہر گھولنے میں انڈیا پاکستان دونوں برابر کے شریک ہیں۔ انڈیا کے ساتھ تو سندھ طاس معاہدہ کے سیکشن 4 کی شق 10 کے تحت معاملات اُٹھانے ہوں گے لیکن لاہور میں موجود صنعتوں کو بھی قانون کے تحت پابند کرنا ہوگا کہ وہاں سے بھی کیمیکل اور بھاری دھاتوں سے پاک پانی اس نالے میں آئے۔
ڈرین کے زہریلے پانی سے زرعی زمینوں پر سبزیاں اور چارہ اگانے پر نہ صرف پابندی لگانی ہوگی بلکہ ڈرین کے ساتھ ساتھ موجود تمام سوسائٹیوں اور شہری علاقوں کے سیوریج کے پانی کو بھی صاف کرکے ڈرین میں پھینکنے پر پابند کرنا ہوگا تاکہ تیس چالیس سال انسانی آبادی میں بہتے زہر کے اس دریا سے انسانی جانوں کا تحفظ کیا جاسکے اور آبی حیات کو دوبارہ زندہ کیا جاسکے۔

