Wednesday, 25 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zafar Iqbal Wattoo
  4. Ye Kya Ho Raha Hai Bhai?

Ye Kya Ho Raha Hai Bhai?

یہ کیا ہو رہا ہے بھائی؟

سلطنت چلغوزہ سےخبریں کچھ اچھی نہیں آ رہیں حالانکہ اس موسم میں تو وہاں سے گرج چمک کے ساتھ آندھی اور طوفان پنجاب کے مغربی علاقوں کا رخ کرتے تھے۔ جہاں پورے ملک میں دہائیوں کی سب سے سخت خشک سالی اپنے عروج پر ہے وہاں اس خوب صورت زمین پر بھی آگ لگ چکی ہے جو کہ اب بے قابو ہونے کو ہے۔ "مانی خواہ" کے چھوٹے سے قصبے سے گزرتے ہوئے صرف ایک سرکاری سکول اور چند گھروں کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا تھا۔

کسے معلوم تھا کہ یہ چھوٹی بستی ایک دن سی پیک ویسٹرن روٹ کی وجہ سے پورے ملک سے منسلک ہو جائے گی اور ضلع شیرانی کا ہیڈ کوارٹر بنے گی۔ شیرانی سر زمین بلوچستان کا انتہائی شمالی ضلع ہے جس کی سرحد جنوبی وزیرستان کے ساتھ ملتی ہے۔ ضلع بننے سے پہلے یہ ضلع ژوب کی تحصیل ہوا کرتی تھی جس کی وجہ شہرت چلغوزے اور زیتون کے وسیع وعریض قدرتی جنگلات ہیں جو کہ کوہ سلیمان پر ہر طرف سینکڑوں ہزاروں ایکڑوں پر پھیلے ہوئے ہیں۔

یہ پاکستان کے ان چند ہی علاقوں میں سے ہے جہاں چلغوزہ اور زیتون قدرتی طور پر اگتے ہیں۔ ان جنگلات میں گزشتہ بارہ دنوں سے لگی ہوئی آگ بے قابو ہو چکی ہے۔ اب تک تین افراد اس آگ میں جھلس کر شہید ہو چکے ہیں اور سات کے قریب زخمی ہیں۔ اب تک کے اندازے کے مطابق جنگل کا تقریباً 10 کلومیڑ کی لمبائی کا علاقہ راکھ کا ڈھیر بن چکا ہے۔ ہزاروں درخت جل چکے اور اس سے بھی زیادہ جنگلی حیات مر چکی۔

ابھی تک یہ آگ قومی میڈیا کی توجہ حاصل کرنے میں ناکام ہے کیونکہ اسلام آباد کی ترجیحات کچھ اور ہیں حالانکہ یہاں کے مقامی لوگوں کی ساری معیشت ہی انہی جنگلات سے وابستہ ہے۔ حیرت ہے کہ اتنے بڑے ماحولیاتی لحاظ سے نازک علاقے میں لگی آگ کسی مقامی یا عالمی ماحولیاتی اداروں کو بھی نظر نہیں آ رہی۔ آگ شدت اختیار کر رہی ہے اور پھیلتی جا رہی ہے۔

دس دن بعد ایک ہیلی کاپٹر پہنچا ہے اور کل سے ہیلی کاپٹر کے ذریعے آگ بجھا ئی جا رہی ہے لیکن آگ کی شدت بہت زیادہ ہے اور یہ بے قابو ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس آگ کو بجھانے کا کوئی کیمیائی حل نکالا جاۓ یا پھر کوئی اور طریقہ اختیار کیا جاۓ تاکہ اس سے کم سے کم نقصانات ہوں اور یہ جنگلات بچ سکیں۔ اس کام کے لیے کم از کم پانچ ہیلی کاپٹر مستقل طور پر کام کریں تو شائد کچھ افاقہ ہو۔

وہاں کے سارے مقامی لوگ اب اپنے گھروں کو چھوڑ کے محفوظ مقامات کی طرف منتقل ہو رہے ہیں۔ یہ مسئلہ ماحولیات اور جنگلی تحفظ کے ساتھ ساتھ اب انسانی المیہ بھی بنتا جا رہا ہے اور کوششیں بھی اسی حساب سے بڑھانی چاہئیں۔ صوبائی حکومت اپنے سارے وسائل کو استعمال کرکے اس آگ پر قابو پائے اور ساتھ اقوام متحدہ یا اس جیسی دوسری تنظیموں اور ممالک سے رابطہ کر کے مدد طلب کی جائے کیونکہ مقامی طور پر اس کام کو کرنے کی سہولیات اور تجربہ بہت کم ہے۔

ان پہاڑوں پہ کئی پودے اور جانور ہیں جن کی نسلیں خطرے سے دو چار ہیں۔ یہ آگ پھیل کر اور بھی خطرناک صورت اختیار کر سکتی ہے۔ جو قدرتی درخت اور نایاب جانور مر چکے پتہ نہیں اب دوبارہ اتنی جنگلی حیات اور جنگلات بحال کرنے میں کتنا وقت لگے گا؟ علاقہ کے مکینوں کی معیشت ختم ہو چکی اور وہ گھر بار چھوڑ کر دربدر ہونے پر مجبور ہیں ایسے میں سب نظریں ریاست پر ہیں کہ وہ ایک ماں کی طرح علاقہ مکینوں کی مشکلات کا ادراک کرے اور اس آگ کو بجھانے میں اپنی پوری قوت صرف کر دے۔

Check Also

Danish Ki Jeet, Bewaqoofi Ki Haar

By Asif Masood