Thande Aur Garam Pehlu
ٹھنڈے اور گرم پہلو
آج صبح شاور کھولتے ہی گرم سیال کی ایک باریک پھوار سر اور کمر پر پڑی تو کچھ یاد آیا اور ہم بڑبڑاۓ۔ او بے خبرے، او چول، آج تو محکمہ موسمیات نے گرمی کی شدید لہر کی پیشگوئی کی ہوئی ہے۔ شکر ہے کہ پانی بچت مہم کی وجہ سے ہم شاور کی ناب کو سب سے کم ترین پیمانے پر کھولتے ہیں۔ تاکہ ذہن کو شاور کا دھوکہ دےکر کم پانی سے غسل کر لیں ورنہ زمانہ جاہلیت کی روٹین کے مطابق اگر آج شاور کھلتا تو ہماری کمر پر ٹینکی کے گرم پانی کی پھوار نے سرخ رنگ کے شاندار tattoo بنا دینے تھے جس کے بعد شاید ہم کسی میدان میں پیٹھ دکھانے کے قابل ہی نہ رہتے۔
چاچا نواز کو غصہ سے آواز دی کہ صبح سپلائی کا پانی چھت والی ٹینکی میں نہیں چھوڑا تو بے چارہ سادگی سے کہنے لگا کہ پہلے تو میں خود سے صبح صبح رات والے تپے ہوئے حبسی پانی کی ٹینکی خالی کر کے سپلائی کے تازہ پانی سے اسے دوبارہ بھر دیتا تھا۔ لیکن جب سے آپ نے پانی بچت مہم چلائی ہے میری اصلاح ہو گئی ہے اور اب میں ایسا بالکل نہیں کرتا چاہے ٹینکی کا پانی کتنا ہی گرم کیوں نہ ہو اور آج تو لو کی وجہ سے سپلائی سے بھی پانی گرم آ رہا ہے۔
پھر چاچا نے ایک زبردست تجویز دی کہ آپ آدھی بالٹی گرم پانی کی بھر لیں۔ میں فریج کے برتنوں سے برف کی ڈلیاں لا کر اس میں ڈال دیتا ہوں تاکہ پانی کا غصہ ٹھنڈا ہو جائے اور آپ نہا لیں اس طرح پانی کی بچت بھی ہو جائے گی، میں دانت پیس کر رہ گیا۔ اس موقع پر ہمیں اپنے کالج کے دوست اور آج کے معروف مزاحیہ شاعر ڈاکٹر عزیز فیصل حال مقیم اسلام آباد کا سردیوں کے موسم کے حوالے سے کہا گیا ایک شگفتہ شعر یاد آ گیا کہ۔
دشمنی یوں کسی سے پالی جائے
اس کے گیزر میں برف ڈالی جائے۔
اس خیال سےکہ گیزر بند ہے اور گراؤنڈ فلور پر ہے تو ہو سکتا ہے اس کی ٹینکی میں موجود ہانی کچھ کم گرم ہو، ہم نے فوراََ گرم پانی والی ناب کھولی تو ادھر سے بھی وہی تپش والا پانی آ رہا تھا۔ ہم گنگنانے لگے کہ کاش!
دوستی یوں کسی سے نبھالی جائے
اس کے گیزر میں برف ڈالی جائے۔
بہرحال اتنی دیر میں چاچا سچ مچ دونوں ہاتھوں میں برف کے ڈلے لے کر آ گیا۔ ہم نے آدھ بالٹی گرم پانی میں برف کے دو تینڈلے ڈال کر پانی کو ہلایا اور اس سے افطاری والا ٹھنڈا پانی بنایا۔ پھر پلاسٹک کی چوکی پر بیٹھ کر مگ کی مدد سے سر اور جسم تھوڑا تھوڑا پانی ڈال کر زندگی میں کافی عرصہ بعد نہائے حالانکہ ہم نے تو غسل کرنا تھا۔ یہ کم سے کم پانی سے نہانے کا ہمارا ایک عالمی ریکارڈ تھا کہ نہانے کے بعد تولیہ بھی بول پڑا کہ، او بھائی، معاف کرو۔
یہ میں ہاتھ جوڑتا ہوں، کیوں جسم پونچھنے کا تکلف کرتے ہو، کیا جسم پر رگڑیں ڈلوانی ہیں؟ یوں سردیوں کے موسم میں گیزر سے گرم پانی آنے تک ٹھنڈے پانی کو خارج کرنے والی ٹوٹی کو بند کرانے سے لیکر گرمیوں میں چھت کی ٹینکی کے گرم پانی کی آدھ بالٹی میں برف ڈال کر نہانے تک کا صبر آزما سفر تمام ہوا۔
دوستو ایک نصیحت یاد رکھو۔ تبلیغ کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اس کے لئےسردیوں میں ٹھنڈے اور گرمیوں میں گرم پانی سے بھی نہانا پڑتا ہے تب جا کر آپ کے بیانئے میں تاثیر آتی ہے۔ لہٰذا اگلی دفعہ فیس بک پر کسی بھی مسئلے پر اصلاحی پوسٹ کرنے سے پہلے اس مسئلے کے ٹھنڈے اور گرم دونوں پہلوؤں کو ضرور چیک کر لیجئے گا۔
انجوائے دا ہیٹ ویو۔ چل کرو چل۔