Tarbela Dam Khatam Hone Se Kya Hoga?
تربیلا ڈیم ختم ہونے سے کیا ہوگا؟

تربیلا ڈیم گاد مٹی سے بھرتا جارہا ہے اور کچھ ہی سالوں میں اس کی پانی ذخیرہ کرنے کی کیپیسٹی کم ہوتے ہوتے بالآخر ایک دن ختم ہوجائے گی۔ تب ڈیم مخالفین کے پیش کردہ نظریے کے مطابق دریا میں پانی کا قدرتی بہاؤ بحال ہوجائے گا اور دریائے سندھ کا ڈیلٹا موجیں کرے گا۔ ہر طرف ہریالی ہی ہریالی ہوگی۔
تاہم صورتِ حال اس کے بالکل برعکس ہوگی جس طرح ان کی طرف سے پیش کی جاتی ہے جس کی بنیادی وجہ ہمارا موجودہ نظامِ آب پاشی ہے جو دریاؤں کا 95 فی صد پانی پی جاتا ہے۔
جب تک دریائے سندھ پر بیراج اور نہریں موجود ہیں ڈیلٹا تک پانی اتنا ہی پہنچے گا جتنا اس وقت پہنچ رہا ہے۔
اس وقت صرف وہ زائد سیلابی پانی ڈیلٹا تک پہنچتا ہے جو بیراجوں کے ذریعے نہروں میں موڑا نہیں جا سکتا۔
لہذا تربیلا ڈیم ختم ہونے یا نیا ڈیم نہ بنانے کا ڈیلٹا کی موجودہ صورت حال کو کوئی اضافی فائدہ نہیں ہوگا۔
صوبہ سندھ اس وقت دریائے سندھ سے زراعت کے لیے پاکستان کے کسی بھی دوسرے صوبے سے زیادہ پانی حاصل کرتا ہے جوکہ اوسطاً تقریباً 42 ملیئن ایکڑ فٹ سالانہ بنتا ہے۔ پنجند بیراج سے مون سون میں دریائے سندھ میں آنے والا پانی اور کوٹری بیراج سے مون سون کے موسم میں ڈیلٹا میں بہنے والا پانی اس کے علاوہ ہے۔
دوسرے نمبر پر صوبہ پنجاب دریائے سندھ سے زراعت کے لیے پانی حاصل کرتا ہے جوکہ صوبہ سندھ کے دریائے سندھ سے حاصل کیے گیے پانی کے تقریباً نصف سے کچھ زیادہ بنتا ہے۔
پنجاب زراعت کے لیے پانی کہ بقیہ ضرورت کو دریائے جہلم پر منگلا ڈیم اور دریائے چناب کے بہاؤ سے پورا کرتا ہے۔
اس طرح پنجاب کی زراعت کے لیے تقریباََ سالانہ اوسطاً 48 ملیئن ایکڑ فٹ پانی نہروں کے ذریعے تین دریاوں سندھ، جہلم اور چناب سے لیا جاتا ہے۔
تربیلا ڈیم ختم ہونے یا دریائے سندھ پر کوئی نیا ڈیم نہ بننے کی وجہ سے پانی کی موجودہ صورتِ حال میں یہ تبدیلی آئے گی کہ دریائے سندھ میں مون سون کے موسم میں ایک یا دو سیلابی ریلے زیادہ آجائیں گے جوکہ اس وقت تربیلا ڈیم میں سٹور ہو جاتے ہیں۔
مون سون میں ایک دو ریلے اضافی گزارنے کے بعد ڈیلٹا اسی طرح خُشک رہے گا کیونکہ دریاوں کا پانی تو نہروں میں جارہا ہوگا۔
دوسری تبدیلی یہ ہوگی سردیوں میں فصلوں کے لیے پانی کی کمی جو کہ اس وقت 20 فی صد ہوتی ہے بڑھ کر 30 سے 40 فی صد تک ہوجائے گی کیوں کہ تربیلا ڈیم کی سٹوریج موجود نہیں ہوگی۔
لہذا اگر ہم نئے ڈیم بنانے / نہ بنانے کی بحث کی بجائے اپنے طریقہ آب پاشی پر توجہ دیں اور اسے موجودہ فلڈ اریگیشن کی بجائے بتدریج قطراتی نظامِ آب پاشی کی طرف لائیں تو ہم زراعت کے لیے استعمال ہونے والے پانی کی آدھی مقدار بچا سکتے ہیں۔
اتنی بڑی پانی کی بچت (تقریباً 40 ملیئن ایکڑ فٹ) کی وجہ سے ہمیں زراعت کے لیے سٹوریج ڈیم بنانے کی ضرورت نہیں رہے گی جب کہ سیلابوں کو روکنے کے لیے ہم پہلے ہی ڈیم بنانے کے حق میں نہیں ہیں لہذا فارغ ہوکر اپنے دیگر ضروری کام کریں گے۔

