Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zafar Iqbal Wattoo
  4. Roza Band Kar Deo Oye

Roza Band Kar Deo Oye

روزہ بند کر دیو اوئے

صرف پکوڑے ہی برصغیر کی افطاری میں فرض نہیں ہوئے بلکہ مسجدوں کے لاؤڈ اسپیکرز سے سحری کے وقت نشر ہونے والے سنسنی خیز اعلانات بھی برابر کی فرضیت رکھتے ہیں۔ عوام کا" تراہ" نکالنے والی یہ پرلطف عبادت برصغیر پاک وہند کا ہی خاصہ ہے۔ دنیا کے شاید ہی کسی اور اسلامی ملک میں سحری کے وقت اتنا اجتماعی شور سننے کو ملے گا۔

یہ اعلانات سحری کا وقت ختم ہونے سے کوئی ڈیڑھ دو گھنٹہ پہلے شروع ہوتے ہیں۔ ابتدا میں یہ اعلانات بڑے ٹھہر ٹھہر کے اور سلجھے ہوئے لہجے میں ہورہے ہوتے ہیں جیسے "روزے دارو، اللہ نبی دے پیارو، اُٹھو روزہ رکھ لو"۔ یا پھر اس طرح کہ "حضرات براہ مہربانی اٹھ کر سحری کی تیاری کرلیں"۔ حالانکہ حضرات کی بجائے سحری کی تیاری تو خواتین نے کرنی ہوتی ہے۔ حضرات نے تو آخری 5 منٹ میں ٹی ٹونٹی کھیلنا ہوتا ہے۔ لہذا مسجد سے یہ اعلان ہونا چاہیے کہ "معزز خواتین۔ براہ مہربانی اٹھ کر سحری کی تیاری شروع کرلیں۔۔ اور غفلت کی نیند سوئے مرد حضرات کو بھی جگا دیں"۔

سحری کے اعلانات سے گھریلو خواتین سب سے زیادہ تنگ ہوتی ہیں کیونکہ وہ صبح بہت جلدی اٹھ کر سب کے لیے کھانا بناتی ہیں اور پھر صاحب لوگوں کے اٹھنے کا انتظار کرتی ہیں جو ہر پانچ منٹ بعد مزید پانچ منٹ کے لیے سو جاتے ہیں۔ حتی کہ سحری کا وقت ختم ہونے کے قریب ہوتا ہے جب وہ اٹھ کر اچانک دوڑ لگا دیتے ہیں اور منہ پر پانی کے دو چھینٹے مار کر دستر خوان پر "در فٹے منہ" بیٹھے ہوتے ہیں لیکن اس نازک وقت میں بھی انھیں توے سے اتری تازہ تازہ گرم روٹی یا خستہ پرونٹھا چاہیے ہوتا ہے اور ساتھ کڑک چائے بھی۔ تاہم خواتین نے پھر اس کے بعد سحری شروع کرنا ہوتی ہے۔

لہذا آخر میں جب خواتین کھانا کھانے بیٹھتی ہیں تو اسی وقت ادھر سے ایک صاحب لاؤڈ اسپیکر پر فورا یہ اعلان شروع کر دیتے ہیں کہ "کھانا پینا بند کردو۔ سحری کا ٹائم ختم ہوگیا ہے"۔

ایک نامعلوم ریسرچ کے مطابق عورتوں میں بلڈ پریشر اور شوگر کی بیماری کی دوسری بڑی وجہ سحری کے وقت کے یہ اعلانات ہیں جو انھیں صور اسرافیل کی مانند لگتے ہیں۔

جیسے جیسے سحری کا وقت ختم ہونے کے قریب آرہا ہوتا ہے تو اعلانات کی زبان میں بھی تیزی آنا شروع ہوجاتی ہے۔ لب و لہجہ اب لکھنوی کی بجائے صابر شاکر اور کامران خان والا ہو جاتا ہے۔ کچھ وقت مزید گزرتا ہے تو پھر شاہ زیب خان زادہ اسٹائل میں سنسنی خیز اعلانات شروع ہوجاتے ہیں کہ وقت بہت ہی کم ہے اور آخری چند منٹ میں تو بالکل مولا جٹ اسٹائل میں اعلانات شروع ہوجاتے ہیں کہ

"کھانا پینا بند کردیو۔۔ روزہ بند کر دیو۔ ٹائم مُک گیا جے۔۔ "

اعلانات کی اس نیک روایت کو مڈل کلاس اور کچی آبادی والوں نے آج تک اپنی اصل روح سے بڑھ کر برقرار رکھا ہوا ہے۔ ہمارے بچپن میں بھی گاؤں کی مساجد سے کیے جانے والے ایسے اعلانات بہت دلچسپ ہوا کرتے تھے، جہاں سعادت اعلان حاصل کرنے میں پہل کرنا بعض اوقات دو پارٹیوں کی عزت و ناموس کا مسئلہ بن جاتا تھا اور پھر صورت حال نارمل کرنے کے لیےکبھی کبھار تو ہفتہ ہفتہ یا دو دو چار چار دن کی باریاں لگتی تھیں۔

ایک نہایت دلچسپ صورت حال اس وقت پیدا ہوتی تھی جب گاؤں کے آس پاس واقع چند مساجد کی گھڑیاں دو چار منٹ آگے پیچھے ہوا کرتیں۔ پھر تو ہر مسجد والوں نے اپنی اپنی گھڑی کے مطابق سحری ختم ہونے کے وقت میں دو چار منٹ آگے پیچھے بتا بتا کر پوری آبادی کو کنفیوز کیا ہوتا اور بعض اوقات تو لاؤڈ اسپیکر پر ہی کراس ٹاک شروع ہوجاتی کہ

"ساڈی مسجد دی گھڑی دا ٹائم ای ٹھیک اے۔۔ "

بچپن میں ہمارے قصبے کندیاں کی غوثیہ مسجد سے ہندوستان سے ہجرت کرکے آئے ہوئے ایک بزرگ سحری کے وقت نستعلیق اردو میں سحری کے اعلان کرتے تھے جو ہم سرائیکی لب و لہجہ والوں کے دل کو بہت بھاتا۔ میرے ایک کزن نے ہمارے محلے کی مسجد میں انھی کے لب و لہجہ کو نقل کرتے ہوئے اعلانات کرنا شروع کیے اور ان کو کاپی میں اتنا آگے نکل گئے کہ ان بابا جی کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔

ایک دن لوگوں نے بابا جی کے بچوں کو میرے کزن کے خلاف بھڑکا دیا کہ اس اسٹائل کو اس طرح کاپی کرنے سے آپ کے باپ کی ہتک ہوتی ہے تو وہ میرے کزن کو سحری کے وقت پھینٹی لگانے ہمارے محلے کی مسجد میں پہنچ گئے۔ کزن صاحب مسجد کے باتھ روم میں چھپ گئے۔ خوب شور شرابا ہوا اور پھر معاملہ اس بات پر طے ہوا کہ آج کے بعد میرا کزن اردو کی بجائے سرائیکی میں ہی اعلان کیا کرے گا۔

تاہم عادت سے مجبور یہ نوجوان زبان کے چسکے کے لیے درمیان میں پھر بھی کبھی کبھار لکھنوی اردو میں بھی ایک آدھ اعلان ضرور داغ دیتا جس پر پوری آبادی ہنس رہی ہوتی۔

لیں جی ابھی یہاں تک ہی لکھا تھا کہ ساتھ والی مسجد کے لاؤڈ اسپیکر سے اعلان ہونا شروع ہوگیا ہے، "حضرات سحری کا وقت ختم ہوگیا ہے۔۔ روزہ بند کردیو۔۔ "

لہذا۔۔ رب راکھا

Check Also

Qasoor To Hamara Hai?

By Javed Ayaz Khan