Maut Ke Dukh
موت کے دکھ

میرے والد صاحب کی موت دو دفعہ ہوئی ہے۔ 8 سال کے وقفے سے لیکن ایک ہی تاریخ کو۔ پہلے ان کی وفات 26 اکتوبر 2017 کو ہوئی تھی اور دوسری دفعہ کل پھر اسی 26 اکتوبر کو۔
سنہ 1991 میں والد صاحب مجھے انجینیئرنگ یونیورسٹی میں خود چھوڑنے آئے تھے۔ ان کی واپسی کے بعد اتنے بڑے شہر سے خوف آتا تھا کہ اتنے زیادہ لوگ، اتنی ٹریفک اور اتنا شور۔ اس بڑے شہر کی پر پیچ گلیوں میں کہیں گم ہی نہ ہوجائیں۔ کم کم باہر نکلتے اور اپنا راستہ ناپتے۔
یونیورسٹی کے پہلے دن ہی عرفان جاوید سے سڑک پر چلتے ملاقات ہوگئی۔ ہم دونوں ایک ہی کلاس میں تھے۔ تعلق بنا تو وہ ایک دن مجھے اپنے گھر لاہور کینٹ لے گیا جہاں ان کے والدین سے ملاقات ہوئی۔ دیہاتی لڑکے کے لیے یہ گھر انتہائی شاندار تھا جس کی ہر ایک چیز وہ حیرت سے دیکھتا جارہا تھا۔
پھر گاہے بگاہے عرفان کے گھر کے چکر لگنے لگے۔ عرفان بھی میرے گاؤں کُندیاں آیا کیونکہ اس کا کوئی گاؤں نہیں تھا اور وہ گاؤں کی زندگی اور دیہاتی لوگوں کو دیکھنا چاہتا تھا اور ان کے درمیان وقت گزارنے کا شوق تھا جس کی تکمیل کے لیے میں نے خود انکل سے درخواست کی تھی۔
جب یونیورسٹی کے پہلے سالانہ امتحان میں میں نے ٹاپ کیا تو عرفان کے گھر پر دعوت ہوئی اور وہیں انکل نے مجھے پہلی دفعہ اپنا پانچواں بیٹا ڈکلئیر کر دیا۔ "وٹو اَج نوں توں میرا پنج واں پتر ہیں۔ عرفان، نبیل، سمیر، شمائل دی طرح" اور یوں ایک دم لاہور اپنا اپنا سا لگنے لگا۔ لاہور کے راستے شناسا سے لگنے لگے۔ لوگ جانے پہچانے لگنے لگے۔ گلیاں دیکھی دیکھی سی لگنے لگیں اور انکل نے یہ قول زندگی بھر نبھایا۔
میری سرکاری ملازمت نہ کرنے پر وہ خوش نہ تھے۔ ہر وقت مجھے کہتے رہتے کہ تمھارے جیسے بندوں کومحکموں میں آکر ملک کی خدمت کرنا چاہئے تھی۔ مجھ سے عرفان کی تعلیمی پراگریس باقاعدگی سے پوچھتے۔ یو ای ٹی ہاسٹل میں رہتے ہوئے اگر کبھی میں بیمار ہوجاتا تو اپنے پاس گھر بُلانے کی ضد کرتے کہ گھر کا کھانا کھانے سے تو ٹھیک ہو جائے گا۔
یو ای ٹی کے بعد ہم دوست ملازمت اور پروفیشنل مصروفیات کی وجہ سے لاہور سے کافی سال دُور رہے۔ چند سال پہلے عرفان کی کراچی سے لاہور آمد پر اس کے گھر میں اور طارق بخاری اکٹھے ہوئے تو انکل سے گھر کے لان میں ہی ملاقات ہوگئی۔ ان کے ساتھ کافی دیر گپ شپ چلتی رہی اور پھر ہم عرفان کے ساتھ اس کے کمرے میں بیٹھ گئے۔ واپسی پر پتا چلا کہ انکل ہماری گپ شپ کے دوران ہی فورٹریس سے جاکر میرے لیے ٹوپیس سُوٹ کا بہترین کپڑا خرید لائے تھے اور اس ہدایت کے ساتھ دیا کہ فوراََ ہی سلوا لو میٹنگز کے لیے بہت اچھا ڈریس رہے گا۔
بعد میں کبھی کبھار فون پر عرفان سے ان کی خیریت پتا چلتی رہی کہ طبیعت صحیح نہیں رہتی۔ کل صبح جب اباجان کی آٹھویں برسی پر میں ان کی یادوں میں کھویا ہوا تھا تو انکل کی وفات کی غم ناک خبر ملی۔
آج میرا لاہور میں رہنے والا وہ باپ بھی دارِ فانی سے رُخصت ہو چُکا ہے جس نے اس دور میں مجھے پدرانہ شفقت دی جب لاہور میں میرا کوئی جاننے والا نہیں تھا۔ 26 اکتوبر کو جیسے میں نے ایک دفعہ پھر اپنے باپ کو دوبارہ کھو دیا ہے۔
اللہ تعالی ملک محمد جاوید اقبال کے درجات بلند فرمائے اور آخری منزلیں آسان کرے۔

