Manzil Yehi Kathin Hai
منزل یہی کٹھن ہے
میں سنہ 2004 میں ایک ملائشئن کمپنی کے ساتھ کوالالمپور کے ڈرینیج ماسٹر پلان پر کام کر رہا تھا تو انہی دنوں ڈاکٹر مہاتیر کے نامزد کردہ جانشین ملائشیا کے نئے وزیراعظم عبداللہ احمد بداوی نے 4 مارچ کو وفاقی اسمبلی ختم کرکے نئے انتخابات کا اعلان کردیا تاکہ عوام سے تازہ مینڈیٹ لیا جاسکے اور اگلے پندرہ دن کے اندر اندر 21 مارچ کو نئے الیکشن مکمل ہوگئے۔ میرے لئے یہ بہت حیرت کی بات تھی کہ نہ نگران حکومت بنی اور نہ ہی 90 دن کا انتظار ہوا۔
اس سے پہلے ڈاکٹر مہاتیر محمد طویل سیاسی جدوجہد کے بعد پہلی دفعہ 1981 میں ملائیشیا کے وزیراعظم بنے تھے اور پھر وہ ایسے مقبول ہوئے کہ مسلسل عام انتخابات جیتتے رہے اور 2003 تک ملائشیا کے وزیراعظم رہے۔ تاہم اس دوران انہوں نے اپنے بچوں پر اپنے وزیراعظم ہوتے تک سیاست میں حصہ لینے پر پابندی لگائی ہوئی تھی۔
ڈاکٹر مہاتیر کے پانچ بچے تھے لیکن دو دہائیوں تک ملک کی سب سے طاقتور پوزیشن سنبھالے رکھنے کے باوجود ان کی اولاد کو کوئی جانتا تک نہیں تھا۔ اپنی چوتھی ٹرم مکمل ہونے سے پہلے ہی انہوں نے اقتدار خود ہی اپنے ڈپٹی وزیراعظم جناب عبداللہ بداوی کے سپرد کیا اور سیاست سے ریٹائر منٹ لے لی۔
جس دن ڈاکٹر مہاتیر نے سیاست سے ریٹائرمنٹ لی اسی دن سے انہوں نے اپنے بچوں پر سیاست میں حصہ لینے پر لگائی گئی خود ساختہ پابندی ختم کردی لیکن ابھی بھی ان کے بچوں کو حکمران جماعت کی بنیادی رکنیت لے کر اور سیاسی عمل سے اپنے ٹیلنٹ کی بنیاد پر جماعتی یا حکومتی عہدوں پر پہنچنا تھا نہ کہ وہ ڈاکٹر صاحب کی جگہ ڈائریکٹ جماعت کے چئیرمین لگ جاتے۔
تاہم ان کے بیٹے بیٹیاں اس وقت تک مختلف شعبوں میں اپنا اپنا نام بنا چکے تھے اور ان مین سے کوئی خاص سیاست میں وارد نہ ہوا حالانکہ ڈاکٹر مہاتیر جدید ملائشیا کے بانی تھے۔ ایک بیٹا بہت بعد میں سیاست میں آیا لیکن کوئی خاص نام نہ بنا سکا۔ یوں ملائیشیا کا سب سے لمبا عرصہ وزیراعظم رہنے کے باوجود انہوں نے کوئی خاندانی وراثت قائم نہ کی۔
ڈاکٹر مہاتیر کی طرف سے چنے گئے اپنے جانشین عبداللہ بداوی میں ڈاکٹر مہاتیر کے برعکس کوئی زیادہ خوبی یا ذہانت نہیں تھی۔ ان کی سلیکشن کی واحد وجہ ان کا کرپشن سے پاک بے داغ ماضی تھا۔ وہ تیس سال سے بھی زیادہ سیاست میں تھے لیکن ان پر کبھی کرپشن یا اقربا پروری کا الزام نہیں لگا تھا حالانکہ ڈاکٹر مہاتیر کی کابینہ کے کچھ وزیر وقتا فوقتا مختلف الزامات کی زد میں آتے رہے تھے اور کئی ایک کو تو استعفی بھی دینا پڑا تھا جن میں سے ان کے ایک ڈپٹی وزیراعظم انور ابراہیم بھی شامل تھے جو کئی سال پابند سلاسل رہے۔
میں نے کوالالمپور میں رہتے ہوئے دو تین ہفتوں کی اس مختصر ترین انتخابی مہم کا بڑے قریب سے مشاہدہ کیا اور مختلف پارٹیوں کے عوامی جلسوں میں اپنی دلچسپی کی بنا پر شرکت بھی کی۔ کوئی زندہ باد مردہ باد نہ ہوا۔ تمام جلسے انتہائی منظم طریقے سے ہوتے اور لوگ فیملی سمیت شرکت کرتے۔ فوڈ سٹال سجا دئے جاتے جہاں لوگ چل پھر کر سیاستدانوں کی تقریریں سن رہے ہوتے۔ ہر جلسہ ایک مینا بازار کا منظر پیش کرتا۔ جلسے کے اگلے دن میدان صاف ستھرا نظر آتا۔
ایک چیز دیکھ کر کافی حیرت ہوئی کہ حکمران جماعت کے نہ تو کسی جلسے سے ڈاکٹر مہاتیر نے خطاب کیا اور نہ ہی ان کے پوسٹر یا بینر کی گلی محلے کی دیوار، کسی شاہراہ یا کسی چوک پر نظر آئے۔ نہ ہی گاڑیوں کے شیشوں پر "تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد" لکھا ہوا نظر آیا۔
میرے لئے یہ کافی عجیب و غریب منظر تھا کہ حکمران جماعت نے وقت کے مقبول ترین سیاسی راہنما کی شہرت کو انتخابات میں کیش کرانے کی بجائے نئے لیڈر عبداللہ بداوی کے منشور پر الیکشن لڑا اور انتخابات میں کلین سویپ کیا۔ ڈاکٹر مہاتیر سے بھی زیادہ نشستیں لے کر دوبارہ مستحکم حکومت بنائی۔
انتخابات سے چند مہینے قبل ہی ڈاکٹر مہاتیر نائن الیون کے تناظر میں امریکہ کی طرف سے اعلان کردہ دو ملین ڈالر کی امداد رد کرکے قوم کے ہیرو بن چکے تھے اور امریکہ کے غضب کا شکار تھے لیکن ان کی پارٹی نے اس انتخابی معرکے میں امریکہ کو للکارنے کے بارے میں اپنی الیکشن کمیشن میں ایک لفظ بھی نہ کہا۔
عبداللہ احمد بداوی ایک عام سے وزیراعظم ثابت ہوئے اور ایک ٹرم ہی پوری کر سکے۔ ان کے بعد ان کے ڈپٹی وزیراعظم ڈاکٹر نجیب رزاق ملائشیا کے وزیراعظم بنے۔ وہ ملائشیا کے سب سے پہلے وزیراعظم تن رزاق کے بیٹے تھے اور جدی پشتی سیاستدان تھے۔ انہوں نے سادہ لوح عبداللہ بداوی کو دوسری ٹرم کے شروع میں ہی روایتی سیاسی حربوں سے زیر کر لیا اور پھر ملائشیا کے خزانے کو وہ "تن" کے رکھا کہ جلد ہی اپنی پارٹی کی چالیس سالہ حکومت گنوا بیٹھے۔
ان کی اقربا پروری، کرپشن اور غلط سیاسی فیصلوں کے سب سے بڑے ناقد ڈاکٹر مہاتیر ہی ہوا کرتے تھے۔ یوں ڈاکٹر مہاتیر کی قائم کی گئی لیگیسی ایک موروثی سیاستدان کے ہاتھوں کمزور ہوگئی۔
ڈاکٹر مہاتیر کے دور میں ملائشیا ایک غریب ملک سے ایشئین ٹائیگر بنا۔ نوے کی دہائی کا ملائشیا، سنگاپور، تھائی لینڈ اور انڈونیشیا کے ساتھ ایشیا کی ایک ابھرتی ہوئی معاشی طاقت تھی۔ تاہم جب نوے کی دہائی کے وسط میں ان سب ممالک کے آسیان نام کے معاشی بلاک کو سبق سکھانے کا فیصلہ ہوا تو آسیان ممالک کی سٹاک مارکیٹوں کو سٹے سے کریش کروا دیا گیا۔ اس معاشی بحران میں سب ممالک آئی ایم ایف کے پاس چلے گئے سوائے ملائیشیا کے۔
ڈاکٹر مہاتیر نے نہ صرف آئی ایم ایف کا معاشی پیکیج لینے سے انکار کیا بلکہ اس بحران کے دوران عید کے موقع ہر تمام سرکاری اور پرائیویٹ ملازمین کو دو دو تنخواہیں دینے کا اعلان کر دیا جس سے نہ صرف عوام خوش ہوگئی بلکہ اس موقع پر عید کی ریکارڈ شاپنگ ہوئی، کاروبار اٹھ کھڑے ہوئے، پیسہ گردش میں آیا اور کاروبار بڑھنے سے حکومت کو ٹیکس کی مد میں اضافی تنخواہوں کے پیسے بھی وائس مل گئے اور باہر کی دنیا میں ملائشیا کی معیشت کے سنبھلے کا بھی پیغام گیا۔
دوسری طرف انڈونیشیا نے آئی ایم ایف پیکیج لے کر تیل، بجلی اور گیس مہنگی کی اور نہ صرف معیشت کا بیڑہ غرق کرلیا بلکہ ملک پر بہت زیادہ قرض بھی چڑھوا لیا۔ ملائشیا تو چند سالوں میں معاشی بحران کے اثرات سے باہر نکل آیا لیکن انڈونیشیا کو آئی ایم ایف کے چنگل سے نکلنے میں بہت وقت لگا۔