Kya Aik Aur Toofan Raste Mein Hai?
کیا ایک اور طوفانِ نوح راستے میں ہے؟

اس کرہ ارض پر نسلِ انسانی کئی بار فنا کے عمل سے گزر چکی ہے، کبھی شدید سیلاب کی وجہ سے تو کبھی آگ کی بارش سے، کبھی پتھروں کی بوچھاڑ سے تو کبھی شدید سردی کی بدولت۔
کے پی کے بونیر، صوابی کشمیر اور گلگت بلتستان کے غذر کے واقعات کو دیکھیں تو کلاؤڈ برسٹ کے نتیجے میں شدید سیلاب اور پتھروں کے مڈ فلو (گارے کے بہاؤ سے) لگتا ہے کہ اب اس گولے پر فنا کا ایک نیاعمل شروع ہوا ہی چاہتا ہے۔
زمین کی آب و ہوا کی موجودہ صورتحال انسانی حرص و ہوس کا نتیجہ ہے جس نے زمین کے قدرتی موسم کے عناصر ترکیبی کو مشتعل کردیا ہے جسے انسان موسمیاتی تغیر یا Climate change کہ رہے ہیں۔
یہ موسمیاتی تغیر فضا میں ایک گُھن چکر پیدا کررہا ہے یعنی گرین ہاوس گیسوؤں سے گرم ہوا جس سے۔۔ گرم سمندر جس سے۔۔ زیادہ بخارات جس سے۔۔ زیادہ شدید بارش جس سے۔۔ زیادہ سیلاب۔۔
یہ بات یہاں تک رہتی تو کچھ قابلِ علاج ہوتی لیکن اس گُھن چکر کو پاکستان میں ہماری انسانی کوششیں اور مہمیز کردیتی جیسے پہاڑی ڈھلوانوں پر درختوں اور جنگلات کی کٹائی۔۔ پہاڑوں کی بلاسٹنگ اور کرشنگ۔۔ پانی کے قدرتی راستوں کو تنگ کرتی ہوئی تعمیرات۔۔ نالوں کو کچرہ اور پلاسٹک پھینک کر بند کرنا وغیرہ وغیرہ۔
پاکستان میں بہت سے لوگ بیڈ گورننس کو کوسنے کے چکر میں اس آفت کو بڑھانے میں موسمیاتی تبدیلی کے ان ناقابل تردید اثرات کو یکسر نظر انداز کر رہے ہیں جن کے بارے میں سائنسدان کئی دہائیوں سے شور مچا رہے ہیں۔ کچھ حقائق پیشِ خدمت ہیں۔
پچھلے لاکھوں سالوں میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی ہمارے کُرے پر موجودگی میں اتنا اضافہ نہیں ہوا جتنا کہ پچھلے 100 سالوں میں ہوا ہے جس سے زمین کی فضا گرم ہونے سے سمندروں کی بالائی سطح کا پانی پچھلی کئی دہائیوں کی اوسط سے زیادہ گرم ہوچکا ہے جس کی وجہ سے زیادہ طوفان اور بادو باراں ہوتے ہیں۔
زمین کا اوسط درجہ حرارت پچھلی صدی میں جس رفتار سے بڑھ رہا تھا اب اس کی رفتار دُوگنا ہو چُکی ہے اور فضائی گرمی کی وجہ اے پچھلے 50 سالوں میں دُنیا کے گلیشئیرز کی اوسطاً اوپر کی 100 فُٹ کی برف کی سطح پگھل چُکی ہے، بحر منجمند شمالی کی اوسطاً برف پچھلے کئی سالوں سے مسلسل کم ہورہی ہے۔
یہ تیز رفتار موسمیاتی تبدیلیاں پاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں کی آفتوں سے مقابلہ کرنے کی کم ہوتی ہوئی صلاحیت کو اور زیادہ برہنہ کرکے سامنے لاتی ہیں۔
اگرچہ پاکستان اس موسمیاتی تغیر کا براہِ راست ذمہ دار تو نہیں لیکن پھر بھی پاکستان میں ہماری انسانی کوششیں موسمیاتی تغیر کے اثرات کو اور زیادہ بھڑکا دیتی ہیں۔ تاہم پاکستان کے پاس اب ان موسمیاتی تبدیلیوں سے موافقت پیدا کرکے زندہ رہنے اور آگے بڑھنے کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا۔
ہم موسمیاتی تبدیلی کو روک تو نہیں سکتے لیکن موسمیاتی تغیر کے اثرات کو کچھ اقدامات سے کم کر سکتے ہیں جیسے ہر قسم کی تعمیرات کو موسمیاتی تغیرات کے اثرات سے موافق بنانا، جنگلات کے رقبے میں اضافہ کرنا، پانی کے قدرتی راستے دریاو٘ں کو واپس لوٹانا، آفات کے مضبوط ابتدائی اطلاعاتی نظام بنانا، گورننس کو شفاف بنانا، لوگوں کو شعور دینا وغیرہ وغیرہ۔
پاکستان میں موسمیاتی تغیر کے اثرات کے بارے میں بات کرنا اب کوئی دیوانے کا خواب نہیں بلکہ یہ ایک وجودی خطرہ بن کر ہر کسی کے سامنے آ رہا ہے۔ یہ وقت جذباتی الزام تراشی یا سیاسی نعرہ بازی کا نہیں بلکہ سوچنے، منصوبہ بندی کرنے اور ذمہ دار قوم کے طور پر کام کرنے کا ہے۔

