Monday, 14 July 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zafar Iqbal Wattoo
  4. His Last Flight

His Last Flight

ہز لاسٹ فلائٹ

کل صبح استنبول کو اُڑان بھرنے والی فلائٹ میری زندگی کی تقریباً آخری فلائٹ ثابت ہوناتھی۔ سورج کی پہلی کرن نظر آتے ہی ایک انٹرنیشنل ائیرلائن کےجہاز نے اُڑان لینے کے رن وے پر دوڑنا شروع کیا اور قریب تھا کہ جہاز کے پہیے رن وے کو چھوڑیں کہ ایک زور دار دھماکہ ہوا جیسے ایک لوہے کا کوئی بڑا ٹکڑا آکر جہاز سے ٹکرایا ہو۔

تاہم پائلٹ نے حواس بحال رکھےاور ایمرجنسی بریک لگاتے ہوئے آہستہ آہستہ جہاز کو جوکہ اب ٹیک آف کی پوزیشن میں تھا کو رن وے کے ختم ہونے سے پہلے پہلے ہی روک لیا۔ میری کتاب اور عینک تو اچھل کر اگلی سیٹ سے جا ٹکرائیں تاہم سیٹ بیلٹ بندھا ہونے کی وجہ سے مجھے کوئی خاص جھٹکا محسوس نہ ہوا۔

رُکنے کے بعد جہاز میں پہلے تو پانچ منٹ خاموشی رہی۔ کوئی بندہ نہ ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہا تھا اور نہ ہی کوئی بات کررہا تھا۔ جہاز کے تمام پر مسافروں پر سکوت طاری تھا۔

میرا ذہن تیزی سے یہ سوچ رہا تھا کہ اب آگے کیا ہوگا۔ کیا جہاز کسی دھماکے سے پھٹ جائے گا۔ کیا جہاز کو آگ لگ گئی ہے۔ جہاز کے ایمرجنسی راستے کس طرف ہیں۔ ہم کیسے باہر نکل سکتے ہیں۔ کیا جہاز کا پہیہ یا کوئی پُرزہ ٹوٹ گیا ہے؟ ایک خوف کی فضا تھی جس کی وجہ سے جہاز میں خاموشی کی فضا طاری تھی جیسے مرنے کے بعد دوبارہ اُٹھائے جانے کا انتظار ہورہا ہو۔

اس خاموشی کو جہاز کے عملے نے آکر توڑا۔ انہوں نے مسافروں کو سب سے پہلے پرسکون کیا کہ جہاز میں کوئی ٹیکنیکل فالٹ آگیا ہے جس کی وجہ سے ہم اب فلائی نہیں کررہے اور ٹریفک کنٹرول سے اگلی ہدایات کا انتظار کررہے ہیں۔

اتنی دیر میں اکانومی کلاس سے ایک مسافر بھاگتا ہوا آیا جو کہ جہاز کے ٹیک آف کی ویڈیو بنا رہا تھا اور اس کے مطابق اس نے جہاز کے انجن سے دھوان نکلتا ہوا دیکھا تھا۔ اس پر بزنس کلاس کے مسافروں میں بھی بے چینی پھیل گئی تاہم عملے نے سب مسافروں کو پُرسکون رہنے کا کہا۔

جہاز کا پائلٹ بھی خود آکر مسافروں کو بتانے لگا کا کہ ہم واپس ٹرمینل جارہے ہیں جہاں انجینیئرز جہاز کا مکمل معائنہ کریں گے اور ان کی طرف سے گرین سگنل ملنے کے بعد ہی جہاز دوبارہ اُڑے گا۔

ٹرمینل پھر واپس آکر پتہ چلا کہ ٹیکنیکل مسائل کی وجہ سے یہ فلائٹ کینسل ہوگئی ہے اور ایک سپیشل فلائٹ کے ذریعے مسافروں کو اگلے دن استنبول روانہ کیا جائے گا۔ مسافروں کو ایئرلائن کے کاؤنٹر سے مزیذ معلومات یا مدد لینے کا کہا گیا۔

ہم لوگ چونکہ بزنس کلاس سے سفر کررہے تھے تو ہمیں اسی ائیرلائن کی چار گھنٹے بعد اڑنے والی اگلی فلائٹ پر ایڈجسٹ کردیا گیا لیکن اکانومی کلاس کے مسافروں کے ہجوم کو کو ایئرلائن کا عملہ دوسرے کاؤنٹر پر مطمئن کرنے پر لگا ہوا تھا۔

میں لاونج میں بیٹھا سوچ رہا تھا کہ اگر یہی حادثہ پی آئی اے کے کسی جہاز کے ساتھ ہوا ہوتا تو اب تک ائیرپورٹ پر ایک ہنگامہ ہوچکا ہوتا۔ مسافروں کی نعرۂ بازی شروع ہوتی۔ میڈیا چٹ پٹے ٹکرز لگا رہا ہوتا، جہاز یا ائیرپورٹ پر عملے کو مسافر پھینٹی لگا چُکے ہوتے، سوشل میڈیا میمز بنارہا ہوتا اور ہم لوگ پاکستان کو ایک ناکام ریاست قرار دے چُکے ہوتے۔

Check Also

Ye Jahan Ke Engine Kyun Band Kiye?

By Saqib Ali