Gwadar Mein Saaf Pani Ka Masle Ka Mumkina Hal
گوادر میں صاف پانی کے مسئلے کے ممکنہ حل
گوادر میں مولانا ہدایت الرحمن کی سربراہی میں "حقوق دو" تحریک شروع ہو چکی ہے جن کے مطالبات میں ایک بنیادی مطالبہ پینے کے صاف پانی کی فراہمی ہے۔"ون بیلٹ ون روڈ " منصوبے کے لئے شہہ رگ کی حیثیت رکھنے والے اس شہر میں مقامی لوگوں کے اس بنیادی ضرورت کے لئے ترسنے سے ہماری ترجیحات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔انسانی آبادی کے لئے پینے کے پانی کی فراہمی بنیادی انسانی حقوق میں آتی ہے لیکن اہل گوادر کے اس عام سے مطالبے پر انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی خاموش ہیں۔
گوادر کی حیثیت ایک عام شہر کی نہیں ہے اور ریاست ابھی اتنی غریب نہیں ہوئی کہ ایک لاکھ مقامی افراد کو پینے کا صاف پانی فراہم نہ کر سکے۔ مسئلہ اپنی ترجیحات کے تعین کا ہے یا پھر نیتوں کے ٹھیک ہونے کا۔اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے تین قسم کے اقدامات کرنا ہوں گے۔
1-فوری حل :اس کے تحت گوادر کی مقامی آبادی کے لئے فوری طور پر ٹینکرز یا آبی جہازوں کے ذریعے صاف پانی پہنچانا ہوگا۔ مقامی طور پر موجود تمام صاف پانی فراہم کرنے والی سہولیات جیسے ڈی سیلی نیشن پلانٹس وغیرہ چاہے وہ حکومتی ہیں یا پرائیویٹ ان کو ہر قیمت پر فعال کرنا ہوگا اور ان کی استعداد بڑھانا ہوگی۔ میرانی ڈیم تربت میں موجود ہے وہاں سے بھی پانی لایا جاسکتا ہے۔واٹر ایمرجنسی لگا کر ہر قیمت پر مقامی آبادی کے استعمال کے لئے چار پانچ لاکھ گیلن صاف پانی پہنچانا ہوگا۔ عام حکومتی محکمے اپنے معمول کے طریقہ کار سے یہ کام نہیں کر سکتے۔ اس مقصد کے لئے ون ونڈو ٹائپ کوئی اعلی اختیاراتی ادارہ بنا کر اسے فیصلوں اور مالی معاملات میں خود مختار بنانا ہوگا جس کی نگرانی اعلی سطح کی شخصیت ذاتی طور پر کرے اور مقامی قیادت کی شمولیت بھی ہو۔
2-وسط مدتی حل :اس کے تحت گوادر کے تین سو کلومیٹر کے دائرے میں ہر قسم کے ڈیم یا پانی کے ذخائر اگلے چار سے پانچ سال میں مکمل کئے جائیں اور ان سب کا رخ گوادر کی طرف موڑ دیا جائے۔ سب ذخائر کو "گوادر اونلی" کر دیا جائے۔ میرانی اور شادی کور ڈیم پہلے ہی موجود ہیں اور میری اطلاع کے مطابق محکمہ آب پاشی بلوچستان گوادر کے گرد و نواح میں اس طرح کے کم از کم آدھ درجن اور ڈیم سایٹوں پر کام کر رہا ہے۔
تاہم یہ سارے کام معمول کے سالانہ ترقیاتی کاموں کے بجٹ سے ہوتے ہیں جن کے شروع ہونے یا مکمل ہونے کا کوئی خاص وقت نہیں ہوتا اور گوادر کے تناظر میں اس طرح کا رویہ پینے کے پانی کا مسئلہ حل نہیں کرے گا کیونکہ یہ ڈیم محکمہ آب پاشی بنائے گا تو پائپ لائنیں جی ڈی اے، یا پبلک ہیلتھ کا محکمہ کرے گا۔"گوادر واٹر " کا ادارہ بنا کر اس طرح کے سارے ڈیم یا پانی کے دوسرے ذرائع اگلے پانچ سال کے اندر اندر کھڑے کرنے ہوں گے۔ وقت بہت کم ہے اور اس طرح کی کوئی سوچ یا کوشش نظر نہیں آتی۔یہ کام پرائیویٹ سیکٹر سے بھی کروایا جاسکتا ہے جس کے کئے حکومتی سیکیورٹی چاہئے ہوگی لیکن ایسا ہو سکتا ہے۔
3-طویل مدتی حل:یہ حل شائد بہت سے لوگوں کو سمجھ نہ آئے لیکن میری ذاتی رائے میں یہی اصل حل ہے۔ سندھ میں گدو بیراج سے گوادر تک تازہ پانی کی ایک پائپ لائن بچھائی جائے جو کہ تکنیکی طور پر ایک مشکل لیکن قابل عمل منصوبہ ہے۔ دریائے سندھ سے بلوچستان کے حصے کا کافی پانی ویسے ہی ضائع ہوجاتا ہے۔ اس منصوبے کی فزیبیلٹی اور ڈیزائن پر ابھی سے کام شروع کردیا جائے اور اسے اگلے سات سے آٹھ سال میں تعمیر کردیا جائے۔ 2028 تک گوادر کو دریائے سندھ کا پانی پہنچنا چاہئے۔
پرائیویٹ سیکٹر اس منصوبے پر دل کھول کر خرچ کرے گا اور عالمی مالیاتی ادارے بھی۔ جب سنٹرل ایشیا سے تیل کی پائپ لائنیں افغانستان کے پہاڑوں اور پاکستان کے میدانوں سے ہوتی ہوئی انڈیا تک جا سکتی ہیں اور یہ قابل عمل منصوبے ہو سکتے ہیں تو گوادر کے لئے صاف پانی دریائے سندھ سے بالکل پہنچ سکتا ہے۔ بات صرف آنکھیں کھولنے کی اور بڑا سوچنے کی ہے۔ گوادر کے لئے پانی تیل سے زیادہ قیمتی ہے۔